تقریباً 50 برس تک کسی نہ کسی حیثیت میں سرکاری عہدوں پر فائز رہنے اور زندگی بھر صدر بننے کا خواب دیکھنے والے جو بائیڈن
آخر کار وائٹ ہاؤس تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
ان کی انتخابی مہم کے بارے میں تو شاید کسی نے پیشگوئی نہیں کی ہو گی۔ انھیں اپنے ووٹروں کے پاس ایسے وقت میں جانا تھا جب
ایک صدی میں ایک بار آنے والی عالمی وبا اور بے مثال سماجی بے چینی نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ انھیں ایک ایسے حریف
کا سامنا تھا جو غیر روایتی اور ماضی کی مثالوں کے برعکس نتائج دینے والوں میں سے تھے۔
تاہم تیسری مرتبہ صدارت کی دوڑ میں آنے والے جو بائیڈن اور ان کی ٹیم نے متعدد سیاسی رکاوٹوں میں سے راہ بناتے ہوئے فتح حاصل
کی۔ حالانکہ الیکٹورل کالج ووٹوں میں انھیں خاصے کڑے مقابلے کے بعد متوقع فتح حاصل ہوئی لیکن یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ملک
بھر میں مجموعی ووٹوں کے اعتبار سے صدر ٹرمپ پر لاکھوں ووٹ کی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
یہ وہ پانچ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ڈیلاویئر سے تعلق رکھنے والے ایک کار سیلزمین کے بیٹے صدارت حاصل کرنے میں کامیاب
ہوئے۔
1.کووڈ کووڈ کووڈ
شاید وہ سب سے بڑی وجہ جس کی بنا پر بائیڈن صدارتی انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئے اس پر ان کا کوئی کنٹرول ہی نہیں تھا۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث جہاں امریکہ میں دو لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے وہیں اس نے ملک میں نظامِ زندگی اور
سیاست کو بھی تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اس کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتخابی مہم کے آخری چند روز کے دوران ڈونلڈ
ٹرمپ خود بھی اس بات کو تسلیم کرتے دکھائی دیے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے ریاست وسکانسن، جہاں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، میں گذشتہ ہفتے ایک
ریلی کے دوران کورونا وائرس سے متعلق کچھ ایسے الفاظ سننے کو ملے: ’فیک نیوز کے باعث ہر چیز کووڈ، کووڈ، کووڈ، کووڈ
ہے۔‘
میڈیا کی جانب سے کووڈ 19 پر توجہ مرکوز کرنا دراصل عوامی پریشانی کا عکاس تھا نہ کہ میڈیا رپورٹس کے باعث عوامی پریشانی
میں اضافہ ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کے بحران کے دوران صدر ٹرمپ کی کارکردگی ان کے خلاف ڈالے گئے ووٹوں
کی وجہ بنی۔
تحقیق کرنے والی کمپنی پیو ریسرچ کی جانب سے گذشتہ ماہ سامنے آنے والے سروے کے مطابق جب لوگوں سے یہ سوال کیا گیا کہ
ان کے خیال میں کووڈ 19 کے بحران کے دوران کس کی کارگردگی پر انھیں زیادہ اعتماد ہوتا، تو جواب میں لوگوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے
برعکس بائیڈن پر 18 فیصد زیادہ بھروسہ ہونے کی بات کی۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا اور اس کے بعد آنے والے معاشی بحران کے باعث صدر ٹرمپ کو اپنی مہم کے ترجیحی پیغام، شرح نمو
میں اضافہ اور خوشحال کے بیانیے سے ہٹنا پڑا۔ اس کے باعث متعدد امریکیوں کی جانب سے ان کی صدارت کے حوالے سے لگائے
جانے والے اکثر خدشات بھی نمایاں ہوئے۔ ان خدشات میں ٹرمپ کی جانب سے توجہ میں کمی، سائنس پر سوالات اٹھانا، چھوٹی اور
بڑی پالیسیوں کو بےہنگم انداز میں چلانا اور جانبدارانہ رویہ اپنانا شامل ہیں۔
عالمی وبا نے ٹرمپ کی عوامی مقبولیت کو بری طرح سے متاثر کیا اور گیلپ کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق یہ موسمِ
گرما کے دوران ایک موقع پر گر کر 38 فیصد تک چلی گئی تھی اور اس کا فائدہ بائیڈن نے اٹھایا۔
2. محدود مہم
اپنے طویل سیاسی کریئر کے دوران جو بائیڈن اپنے الفاظ کے ذریعے پریشانی کو دعوت دینے کے لیے مشہور تھے
اپنے طویل سیاسی کریئر کے دوران جو بائیڈن اپنے الفاظ کے ذریعے پریشانی کو دعوت دینے کے لیے مشہور تھے۔ سنہ 1987 میں
ان کی جانب سے متعدد مرتبہ بے تکی باتیں کرنے کے باعث انھیں 1987 میں اپنی پہلے صدارتی مہم کے دوران ہزیمت اٹھانا پڑی
اور یہی وجہ تھی کہ انھیں سنہ 2007 تک دوبارہ یہ موقع نہ مل سکا۔
اوول آفس تک رسائی حاصل کرنے کی تیسری کوشش کے دوران بھی متعدد بار بائیڈن نے متنازع بیانات دیے لیکن ایسا مسلسل نہیں ہوا
اور یہ ایک مختصر دورانیے کے لیے مسئلہ بننے سے زیادہ کچھ نہ تھے۔
اس کی ایک وجہ تو یہ بنی کہ صدر ٹرمپ اس دوران خبروں کا محور رہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میڈیا کے پاس انتخابی مہم سے
زیادہ بڑی کہانیاں بتانے کو تھیں جیسے کورونا وائرس کی عالمی وبا، جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد سامنے آنے والے مظاہرے اور
معاشی بدحالی وہ ساری خبریں تھیں جن پر عوام کی توجہ مرکوز تھی۔
تاہم اس حوالے سے بائیڈن کی انتخابی مہم کی حکمت عملی بنانے والوں کو بھی داد دینی بنتی ہے جنھوں نے ایک محتاط انداز اپنا اور
اپنے امیدوار کا عوامی مقامات پر بات کرنا کم کیا، مہم کے دوران ایک نپی تلی رفتار برقرار رکھی اور تھکاوٹ یا لاپرواہی کے باعث
بننے والی پریشانیوں کو کم کر دیا۔
شاید عام دنوں میں منعقد ہونے والے انتخاب کے دوران جب امریکی عوام کو وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ نہیں تھا تو ایسی حکمتِ عملی
بائیڈن کے لیے مسائل پیدا کرسکتی تھی۔ شاید ایسے میں ’پوشیدہ بائیڈن‘ جیسے طنزیہ تبصرے بائیڈن پر اثر انداز بھی ہوتے۔
ان کی مہم کے دوران یہ حکمتِ عملی رہی کہ وہ راستے سے ہٹ کر صدر ٹرمپ کو موقع دیں کہ وہ بدزبانی کریں اور آخر کار اس
سے انھیں خاصا فائدہ ہوا۔
3. ٹرمپ کے علاوہ کوئی بھی
ڈیموکریٹس نے اس انتخاب کو ٹرمپ کے لیے ایک ریفرینڈم بنا دیا
الیکشن کے دن سے ایک روز قبل بائیڈن کی مہم کی جانب سے ٹیلی ویژن پر جاری کیے جانے والے آخری اشتہارات میں حیران کن
طور پر وہی پیغام تھا جو ان کی جانب سے گذشتہ برس مہم کے آغاز اور رواں برس اگست میں اپنی صدارتی نامزدگی کے بعد کی
جانے والی تقریر میں دیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ یہ انتخاب ’امریکہ کی روح کی جنگ‘ ہے اور یہ قوم کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ گذشتہ چار برس کے دوران
پیدا ہونے والے انتشار اور تفرقہ بازی کو پیچھے چھوڑ دے۔
اس نعرے کے نیچے دراصل ایک عام سی منطق تھی۔ بائیڈن نے اپنی سیاسی حکمت کا عملی محور اس مفروضے کو بنا لیا تھا کہ ٹرمپ
منقسم کرنے والے اور شعلہ بیان شخصیت کے مالک ہیں اور امریکہ کے لوگوں کو ایک پرسکون اور مستحکم قیادت کی ضرورت ہے۔
تھیئری ایڈمز فرانس سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ گذشتہ 18 برس سے ریاست فلوریڈا میں مقیم اور انھوں نے پہلی مرتبہ ایک صدارتی
انتخاب میں میامی میں اپنا ووٹ ڈالا اور کہا کہ ’میں ٹرمپ کے رویے سے اکتا چکا ہوں۔‘
ڈیموکریٹس نے اس انتخاب کو ٹرمپ کے لیے ایک ریفرینڈم بنا دیا نہ کہ ایک عام انتخاب جس میں دو امیدواروں میں سے ایک کو چننا ہوتا
ہے۔
بائیڈن کا مقبول پیغام یہ تھا کہ وہ ’ٹرمپ نہیں ہیں‘۔ ڈیموکریٹس کی جانب سے ایک بات بار بار کہی جا رہی تھی اور وہ یہ کہ بائیڈن
کی فتح دراصل امریکیوں کو چند ہفتے تک سیاست کے بارے میں بھلا دے گی۔ اس بات میں جہاں مزاح کا پہلو ہے وہیں اس میں سچائی
بھی موجود ہے۔
4. درمیانے خیالات کو اپنائے رکھنا
جماعت میں لبرل نظریات کے مالک افراد کے دباؤ کے باوجود بائیڈن نے درمیانے خیالات کی بنیاد پر انتخابی حکمتِ عملی بنائی
ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار بننے کی مہم کے دوران بائیڈن کا سب سے بڑا مقابلہ ان کی جماعت میں موجود بائیں بازو کے خیالات
رکھنے والے برنی سینڈرز اور الزبتھ وارن سے تھا۔ ان دونوں کی مہم پر خاصی رقم خرچ ہوئی اور دونوں ہی بڑے جلسے کرنے میں
بھی کامیاب رہے۔
لبرل نظریات کے مالک افراد کے دباؤ کے باوجود بائیڈن نے درمیانے خیالات کی بنیاد پر انتخابی حکمتِ عملی بنائی اور سب کے لیے
سرکاری ہیلتھ کیئر، مفت کالج ایجوکیشن یا مجموعی اثاثوں پر ٹیکس جیسی پالیسیوں کی کبھی بھی حمایت نہیں کی۔ یہی وجہ تھی کہ ان
کی درمیانے خیالات رکھنے والے افراد میں مقبولیت میں اضافہ ہوا اور رپبلکنز کو بھی مہم کے دوران اس سے کچھ خاص فرق نہیں
پڑا۔
یہ حکمتِ عملی بائیڈن کی جانب سے کملا ہیرس کی نائب صدارتی امیدوار کی حیثیت سے چناؤ میں بھی دکھائی دیتی ہے حالانکہ وہ
چاہتے تو جماعت میں بائیں بازو والے نظریات رکھنے والوں کی حمایت حاصل کرنے والے کسی امیدوار کو بھی چن سکتے تھے۔
بائیڈن جس پہلو پر سینڈرز اور وارن سے متفق تھے وہ ماحول اور موسمیاتی تبدیلی تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نوجوان ووٹرز
کو بھی اپنی جانب سے مائل کرنا چاہتے تھے جن کے لیے یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ انھوں نے یہ خطرہ مول لے لیا تاکہ وہ سوئنگ
سٹیٹس میں ووٹرز کو متحرک کر سکیں۔ یہ عوامل ان کی جیت میں انتہائی اہم ثابت ہوئے۔
سنرائز موومنٹ ان جولائی نامی موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام سے متعلق گروہ کی شریک بانی وارشینی پراکاش کا کہنا ہے کہ ’اس
میں کچھ خفیہ نہیں ہے کہ ہم نائب صدر بائیڈن کے منصوبوں اور وعدوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے اس تنقید کا جواب بھی دیا
ہے اور سرمایہ کاری میں تیزی اور اس کام کے حجم کو ڈرامائی انداز میں بڑھانے اور موسمیاتی انصاف اور یونین کے لیے اچھی
نوکریاں پیدا کرنے اور فوری ردِعمل دینے کا وعدہ کرنے جیسی باتیں شامل ہیں۔
5. زیادہ پیسے، کم مسائل
اپریل کے بعد سے بائیڈن کی مہم کی جانب سے رقم اکھٹی کرنے کی کوششوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور ٹرمپ کی مہم کی جانب
سے کی جانے والے فضول خرچیوں کے باعث بائیڈن ان کے مقابلے میں انتہائی مضبوط مالیاتی پوزیشن میں آ گئے تھے
اس سال کے آغاز میں جو بائیڈن کی مہم چلانے والوں کے پاس رقم ختم ہونے کو تھی۔ یہ ظاہری طور پر ٹرمپ کے حق میں تھا جنھوں
نے اپنی پوری صدارتی مدت کے دوران اربوں ڈالر کی مالیت سے مہم ترتیب دی۔
تاہم اپریل کے بعد سے بائیڈن کی مہم کی جانب سے رقم اکھٹی کرنے کی کوششوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور ٹرمپ کی مہم کی
جانب سے کی جانے والے فضول خرچیوں کے باعث بائیڈن ان کے مقابلے میں انتہائی مضبوط مالیاتی پوزیشن میں آ گئے تھے۔
اکتوبر کے آغاز میں بائیڈن کی مہم کے پاس ٹرمپ کی مہم سے 14 کروڑ 40 لاکھ ڈالر زیادہ رقم موجود تھی جس کے باعث وہ
رپبلکنز کو کڑے مقابلے والی ریاستوں میں اشتہارات کے بوجھ تلے دبانے میں کامیاب رہے۔
ظاہر ہے پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ چار برس قبل، ہلری کلنٹن کی مہم کو بھی ٹرمپ پر خاصی برتری حاصل تھی۔ تاہم سنہ 2020
میں کورونا وائرس کے باعث گھرگھر انتخابی مہم محدود ہونے کے بعد امریکیوں نے اپنے گھروں میں رہتے ہوئے زیادہ تر وقت اپنی ٹی
وی سکرینز کے سامنے گزارا۔
یہی وجہ تھی کہ بائیڈن کے پاس موجود رقم کی برتری انھیں آخری وقت تک ووٹرز تک اپنا پیغام پہنچانے میں مدد دیتی رہی۔
اس کی وجہ سے وہ الیکٹورل نقشے پر مزید ریاستوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے میں کامیاب ہوئے اور انھیں ٹیکساس، جورجیا، اوہایو
اور آئیوا جیسی ریاستوں میں جہاں کچھ ماہ قبل ان کی کامیابی کے امکانات محدود دکھائی دیتے تھے وہ ان میں بہتر کارکردگی دکھانے
میں کامیاب رہے۔
ان میں کچھ ریاستوں میں وہ کامیاب نہیں ہوئے لیکن انھوں نے وہاں ٹرمپ کا بھرپور مقابلہ کیا اور ایریزونا اور جورجیا جیسی عمومی
طور پر رپبلکن ریاستوں میں بہترین کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے۔ پیسے کے ذریعے کسی بھی انتخابی مہم کے پاس مواقع اور
اقدامات کرنے کی آزادی ہوتی ہے اور بائیڈن نے اس برتری کو اپنے حق میں استعمال کیا۔
بشکریہ :bbc
امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج:کملاہیرس کے انتخاب سمیت وہ پانچ وجوہات جو بائیڈن کی فتح کا سبب بنیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS