شا ہنواز احمد صدیقی
تائیوان آج ایک بار پھر چین اورامریکہ کے درمیان کشمکش کا مرکز بنا ہوا ہے۔ امریکی سیاست داں اور ایوان نمائندگان کی اسپیکر جوکہ جوبائیڈن انتظامیہ کی اہم عہدیدار ہیں کے دورے نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ چین کو لگتا ہے کہ امریکی عہدیدار کا یہ دورہ اشتعال انگیزی ہے۔ لہٰذا چین نے اس موقع پر فضائیہ اور بحریہ کے ذریعہ تائیوان کے گرد ونواح میں کئی جنگی مشقیں کی ہیں اور کئی مرتبہ تائیوان کی سرحد سے بہت قریب اس کے جہازوں نے اڑان بھری ہے۔ چین کی جوابی کارروائی امریکہ کو اس تنازع سے دور رہنے کی صلاح ہے۔
جنوبی چین سے محض سو کلومیٹر دور جزیرئہ تائیوان امریکہ دوست خودمحتار اور اب جو عالمی میڈیا میں اس جزیرہ کے نظام کے لئے اصطلاح استعمال ہورہی ہے ایک Self Governened ملک ہے۔ امریکہ اس علاقہ میں خودمختار اور جمہوری نظام حکومت کی حمایت کرتا ہے اور تائیوان اور قرب وجوار کے ممالک کو چین کے استبداد سے بچانے کے لئے اور کسی ممکنہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے سمندر میں اس کی کئی جنگی بیڑے تعینات ہیں۔ امریکہ نے اس پورے خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے فلپائن اوکیناوا، ہوائی اور گوام میں بحری جنگی بیڑے تعینات کئے ہوئے ہیں۔ فلپائن میں امریکی بیڑے اور فوجی ٹھکانے ہیں جہاں وہ اکثر اپنے حلیفوں کے ساتھ جنگی مشقیں کرتا رہتا ہے، نیلسی پلوسی کے دورے کے دوران بھی یہ فوجی اڈے سرگرمیوں اور فوجی مشقوں کا مرکز رہے ہیں۔ امریکی بحریہ کا یوایس ایس ایس رونالڈ ریگن بیڑہ بحرفلپائن اور ہانگ کانگ کے نواح میں یوکوسوکا 5.7ملین مربع کلومیٹر کے علاقے میں سرگرم رہتا ہے۔ جاپان میں امریکی فوج کا بحر ی اڈہ ہے جو معمول کی مشقیں کر رہا ہے۔ جنوبی کوریا، سنگاپورامریکی موجودگی غیرمعمولی ہے۔
تائیوان کا جزیرہ پر چین کی سب سے پرانی حکمران کوئنگ خاندان Qing Dynasty کے دور میں پہلی مرتبہ چین کی دسترس میں آیا تھا۔ مگرجاپان کے ساتھ اس کے معرکہ میں چین 1895 میں اس علاقے سے دستبردار ہوگیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کے بعد چین نے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ جما لیا تھا۔ 1949 سے قبل چین میں کمیونسٹوںاور غیرکمیونسٹوں میں جنگ اور اقتدار کی کشمکش میں کمیونسٹوں کی فتح کے بعد غیرکمیونسٹ حکمراں تائیوان میں آگئے تھے اور انہوں نے کئی دہائیوں تک تائیوان میں حکومت کی۔ مگر اب وہاں جمہوری نظام قائم ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ تائیوان بنیادی طورپر اس کی ہی سرزمین ہے مگر تائیوان کی مقامی آبادی اس دلیل کو رد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ تائیوان جدید چین کا کبھی بھی حصہ نہیں رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 1911 میں ہی چین نے موجودہ ریاست کی ہیئت میں اختیار کی تھی اور آخرکار اندرونی خلفشار کے بعد ہی 1949 میں آج کاجدید چین اپنی صورت اختیار کرپایا تھا جس کو ہم ماڈرن چین کہہ سکتے ہیں۔ مگر چین کا کہنا ہے کہ تائیوان اس کی ہی سرزمین ہے اور آج نہیں تو کل اس کو چین کا حصہ بننا پڑے گا۔ مگر تائیوان اپنے آپ کو ایک آزاداور خودمختار ملک قرار دیتا ہے جس کا خودکا آئین ہے۔ جمہوری نظام حکومت قائم ہے۔
دراصل کمیونسٹوں کے ہاتھوں شکست کھانے والے حکمران چیانگ کی شیک بھاگ کر تائیوان آگئے تھے اور انہوں نے چین کی اپنی بالادستی حکمرانی اور دعویداری کو ترک نہیں کیا اور تائیوان میں جلاوطن حکومت بنانے اور جمہوریہ چین Republic of China کے اصل حکمراں ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ مگر 1971 میں دنیا کی تمام طاقتوں نے کمیونسٹوں کی قیادت والی چین کی سرکار کو تسلیم کیا اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں اس کی نشست کو بھی تسلیم کیا اور تائیوان میں شیک حکمراں اپنی دعویداری کرتے رہے۔ چین نے بھی وہاں کے امور میں بہت زیادہ مداخلت نہیں کی۔ امریکہ نے بھی موجودہ چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلئے۔ اس طرح تائیوان میں چین کے مفرور حکمرانوںکی حمایت کرنے والے اور ان کی چین پر دعویداری تسلیم کرنے والوں کی تعداد مسلسل گرتی جا رہی ہے مگر تائیوان کے اندرکا جمہوری نظام مضبوط ہوتا گیا۔ اب قانونی طورپر کئی ممالک تائیوان کی پوزیشن پر بالکل الگ رائے رکھتے ہیں۔ چین نے اپنی دعویداری برقرار رکھی اور تائیوان نے بھی بدلتے حالات میں چین کے ساتھ تصادم کا رویہ ترک کرنا شروع کردیا۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ تائیوان میں موجودہ رائج نظام کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہیں کرنا چاہتا ہے یہ چین کی تائیوان کے لوگوںکے ساتھ چلنے کی حکمت عملی ہے۔ چین نے تائیوان کوخودمختاری دینے اور وہاں دو نظام کے قیام کے فارمولے کی تجویز پیش کی ہے۔ مگر چین اقتدار اعلیٰ اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا ہے۔ مگر ہانگ کانگ میں دونظام قائم کرنے کا چین کا وعدہ اور اس کے ذریعہ کئے گئے سمجھوتوں کی حالت دیکھ کر مغربی ممالک چین کے وعدوں اور ارادروں کولے کر الگ رائے قائم کرچکے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں تائیوان کی ایک آزاداورخودمختار ملک کی حیثیت کو مضبوط کرنے اور چین کی دسترس سے آزاد ہونے کی خواہش نے جگہ بنائی ہے۔ چین مختلف طریقوں سے وہاں کے سیاسی عمل کو متاثرکرنے اور وہاں اپنی پسند کی سرکار بنانے کی کوشش میں رہا ہے۔ سنہ 2000 کے بعد سے وہاں شن شوئی بیان Chen Shui Bian کی قیادت والی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) نے ’آزادی‘ کی حمایت کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد ے کئی حکمراں جمہوری طورپر منتخب ہونے کے بعد الگ الگ رائے دیتے رہے۔ پھر چین نے بھی ان کمپنیوںپر دبائو ڈالنا شروع کردیا کہ وہ تائیوان پر چین کی بالادستی کو تسلیم کریں۔ ہانگ کانگ میں جمہوری اور آزاد نظام کی درگت بننے کے بعد 2020 میں تائیوان نے موجودہ صدر سائی کو منتخب کرکے چین کے عزائم کے خلاف فیصلہ صادر کردیا ہے۔ مگر یہ کام آسان نہیں ہے۔ تائیوان اس وقت دو سیاسی مکاتب میں تقسیم سماج ہے اور موجودہ حکمراں پارٹی ڈی پی پی آزادی ملک اور جمہوری نظام کی حمایت کرتی ہے اور دوسری سیاسی جماعت کے ایم ٹی چین کے ساتھ انضمام کی حمایت کرتی ہے۔ اس صور تحال میں ا مریکہ موجودہ حکمراں جماعت کی حمایت کر رہا ہے اور نینسی پلوسی کا دورہ اس موقف پر اصرار ہے کہ وہ آزاد تائیوان کا حامی ہے مگر امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ تائیوان پر حملہ کی صورت میں چین کے خلاف اس کی فوجی مدد کرے گا۔ پچھلے دنوں جوبائیڈن نے ایک پریس کانفرنس میں تائیوان کوفوجی مدد دینے کی بات کہی تھی جس پر چین تلملا گیا تھا۔ مگر بعد میں امریکی دفتر خارجہ نے پیچیدہ پوزیشن پر وضاحت کی کہ وہ اپنے پرانے موقف ’متحدہ چین‘ One China پالیسی پر ابھی بھی قائم ہے۔ مگراس معاملہ پر امریکہ نے اپنی پالیسی جان بوجھ کر بالکل واضح نہیں ہے جو نینسی پلوسی کے موجودہ دورئہ تائیوان سے بالکل واضح ہے۔ چین بھی امریکہ کے قول پر یقین نہیں کر رہا ہے اور جس وقت پلوسی تائیوان میں تھیں چین کے ہوائی جہاز اردگرد منڈلا رہے تھے اور چین میزائل کے تجربے کر رہا تھا۔
امریکہ چین سوئے ہوئے آسیب کوجگانے کی کوشش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS