اردو زبان کے حقوق کی بازیابی اور تحفظ اردو کی تحریک : ڈاکٹر سیّد احمد قادری

0

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

گزشتہ کئی برسوں سے اردو زبان کے تئیں حکومت بہار کے غیر منصفانہ عمل کے باعث پورے بہار کی اردو آبادی مایوسی اورتشویش میں مبتلا ہے ۔ اس سلسلے میں گزشتہ چھ برسوں سے مسلسل حکومت بہار کی توجہ مبذول کرانے کی مختلف شخصیات ، اخبارات اور اداروں نے کو ششیں کیں ، لیکن افسوس کہ ہر بار اردو والوں کی ایسی کوششوں کو اہمیت نہیں دی گئی ۔ اردو ایکشن کمیٹی کی بھی تشکیل عمل میں آئی ۔ اس کمیٹی کی جانب سے متعدد بار حکومت بہارکے سربراہ نتیش کمار سے درخواست کی کہ وہ بہار میں اردو زبان اور اردو اداروں کے ساتھ ہو رہی ناانصافی پر توجہ دیں لیکن اردو کے مسائل سے وزیر اعلیٰ بہار نتیش کمار نے ہمیشہ سرد مہری کا مظاہرہ کیا ۔ اردو زبان کے تحفظ اور فروغ کے لئے کوشاں رہنے والا ایک اور متحرک اور فعال ادارہ’ اردو کونسل ہند ‘نے بھی مسلسل حکومت بہار کی توجہ مبذول کرانے کی ہر ممکن کوشش کی ، لیکن افسوس کہ ان کی کوششیں بھی صدا بے بہرہ ثابت ہوئیں ۔ ایسی بے توجہی سے مجبور ہو کر آخر کار بہارکی اردوآبادی کے شدید مطالبہ پر 14؍ دسمبر 24 20 کو ’ اردو کونسل ہند‘ کی جانب سے حکومت بہار کے ذریعہ مسلسل اردوزبان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور امتیازی سلوک کے خلاف ایک روزہ ’تحفظ اردو دھرنا‘ پٹنہ کے گردنی باغ علاقہمیں دیا گیا ۔ جس میں پٹنہ سمیت بہار کے مختلف اضلاع سے بڑی تعداد میں محبان اردو نے شدت کی ٹھنڈک کے باوجود میں پورے جوش و خروش کے ساتھ شرکت کرتے کر اپنی مادری زبان سے والہانہ محبت کا ثبوت پیش کیا۔ اس ’تحفظ اردودھرنا‘ کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ اس ضمن میں کونسل کے ریاستی ناظم اعلیٰ ڈاکٹر اسلم جاوداں نے بتایا کہ’ اردو کونسل نے اردو کے حقوق کی بازیابی کے لیے کئی بار بہار کے وزراء اور افسروں سے مل کر انہیں عرضداشت پیش کیا۔ حکومت کی توجہ مبذول کرانے کے لیے کئی کانفرنسیں کی گئیں۔

اردو کے مسائل کے حل کے لیے اردو کے سر کردہ حضرات کے ساتھ اعلی سطحی نشست بھی کی گئی اور ان سب کے دستخط سے مشترکہ طور پر اردو کے مسائل کے حل کے لیے وزیر اعلی سکریٹریٹ میں ایک چھوٹے وفد کے ملنے کی گزارش بھی دو بار تحریری طور پر کی گئی لیکن افسوس کہ نتیش حکومت کے کان پر جو ں بھی نہیں رینگی ۔لہٰذا’ اردو کونسل ہند‘ حکومت کی توجہ اردو مسائل کی طرف مبذول کرانے کے لیے ایک روزہ تحفظ اردو دھرنا دینے پر مجبور ہوئی ہے۔اس عوامی دھرنا کے بعد ہمیں پوری امید ہے کہ حکومت بہار اب اردو کے مسائل کی طرف توجہ دے گی اور مسائل کے حل کی مثبت کوشش ضرور کرے گی۔ ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹر اسلم جاوداں نے حکومت بہار کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس کے باوجود نتیش حکومت اردو اور اردو آبادی کو اس کا دستوری حق نہیں دیتی ہے تو اردو کونسل پورے بہار میں اردو کے حقوق کی بازیابی کے لیے تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔اس سلسلے میں مجلس اتحاد المسلمین کے ریاستی صدر اوررکن اسمبلی اختر الایمان نے نتیش حکومت کی اردو زبان اور اردو اداروں کے سلسلے میں ہو رہی ناانصافیوں کے تعلق سے بتایا کہ جس ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو ہے وہیں اردو کو دانستہ طور پر ختم کیا جا رہا ہے۔ اختر الایمان نے بہار اردو اکیڈمی، اردو مشاورتی کمیٹی، مدرسہ بورڈ، اقلیتی کمیشن کی تشکیل نو نہیں کیے جانے کو حکومت بہار کے امتیازی سلوک سے تعبیر کیا اور میٹرک سے اردو کی لازمیت ختم کرنے اور مانک منڈل میں ایک اردو کے ٹیچر کا اضافہ نہیں کئے جانے پر اپنا زبردست احتجاج درج کراتے ہوئے کہا کہ اردو آبادی اب بیدار ہو چکی ہے اپنے حقوق کو خوب سمجھتی ہے ۔ لہذا اگر نتیش حکومت نے اردو اور اردو ابادی کے سلسلے میں اردو کونسل ہند کے 18 نکاتی مطالبات کو تسلیم نہیں کیا تو اردو آبادی 2025 کے الیکشن میں سبق سکھا دے گی۔ا ردو کونسل ہند کے ناظم اعلی ڈاکٹر اسلم جاوداں نے بتایا کہ کونسل کی مجلس مشاورت نے اردو کے حقوق کی بازیابی کے لیے 18 نکاتی مطالبات نامہ منظور کیا ہے، جن پر حکومت بہار کو ان مطالبات اور مسائل پر فوری توجہ دئے جانے کی ضرورت ہے۔ 1۔چھ برسوں سے بند اردو مشاورتی کمیٹی کی تشکیل نو کی جائے اور اس کو آئینی اختیارات دیئے جائیں۔ 2۔ چھ برسوں سے معطل شدہ بہار اردو اکادمی کی تشکیل نو کی جائے۔3۔ 12 ہزار اردو ٹی ای ٹی کے امیدواروں کا رزلٹ جو کئی برسوں سے التوأ میں پڑا ہے، اسے جلد جاری کیا جائے۔4۔ ہائی اسکول کے مانک منڈل میں ایک اردو ٹیچر کا اضافہ کیا جائے۔5۔ اردو آبادی کے بچوں کو میٹرک تک اردو کی لازمی تعلیم کا نظم کیا جائے۔6۔وزیر اعلیٰ بہار نتیش کمار کے اعلان کے مطابق ہر اسکول میں ایک اردو ٹیچر بحال کیا جائے۔7۔ اردو اسکولوں کے طلبہ وطالبات کو اردو میں کتابیں مہیا کرائی جائیں۔8۔ اردو اخباروں کو ہندی کی بجائے اردو میں اشتہار دیا جائے۔ 9 ۔ جونیئر مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ کے سبھی عہدے مدت سے خالی پڑے ہیں، ان پر بحالی کی جائے۔ 10۔ عربی و فارسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سبھی عہدے طویل عرصہ سے خالی ہیں، ان پر بحالی ہو۔11۔ مدرسہ بورڈ کی تشکیل نو کے ساتھ ساتھ چیئرمین بحال کیا جائے۔12۔ اقلیتی کمیشن بہار کی تشکیل نو ہو۔13۔ اردو ڈائرکٹوریٹ کا مدت سے بند پڑا راج بھاشا اعلیٰ سطحی ایوارڈ جاری کیا جائے۔14۔بہار کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جہاں اردو کا شعبہ قائم نہیں ہوا ہے، وہاں دوسری سرکاری زبان اردو کا شعبہ کھولا جائے۔15۔ محکمہ جاتی اردو کا امتحان پاس کرنے والے سرکاری عملے کو ایک اضافی انکریمنٹ دیا جائے۔16 ۔اردو اسکولوں اور مدرسوں کی سالانہ چھٹی حسب سابق بحال کی جائے۔17۔محکمہ تعلیم کے 2022 کے نوٹیفکیشن کے ذریعے مدرسے کی خود مختاری ختم کر دی گئی، اس کو بحال کیا جائے۔18۔ سبکدوشی کے سبب اردو مترجم، نائب اردو مترجم اور ایل ڈی سی کے تقریبا 1200 خالی پڑے عہدوں پر بحالی کی جائے۔یہ وہ مطالبات یا اردو کے مسائل ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے زائد عرصہ سے التوأ میں پڑے ہیں۔ جس کی وجہ کرریاست بہار جہاں اردودوسری سرکاری زبان ہے وہاں اردو بڑی تیزی سے روبہ زوال ہے ۔ہم اس بات کو کیسے بھول جائیں کہ ہمارے اسلاف اوربزرگوں نے بڑی تگ و دو، محنت ، تحریک کے بعد ریاست بہار میں اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کو کا درجہ دلانے میں کامیابی حاصل کی تھی اور توقع تھی کہ اس تاریخی فیصلے سے بہار میں اردو آبادی مادری زبان کے تحفظ اور فروغ دینے میں کامیاب ہوگی۔ اس لئے کہ اردو کو زندہ رکھنا اور اس کی ترویج و اشاعت کی سنجیدہ کوشش اس لئے بھی ضروری ہے کہ اردو صرف ایک زبان نہیں ہے ، بلکہ اردو ہماری تہذیبی وراثت ہے جسے آئندہ نسلوں تک پہنچانا ہم سب کا اہم فریضہ ہے ۔ اگر یہ زبان فارسی کی طرح ہمارے درمیان سے ختم ہو جاتی ہے تو ہماری شاندار تہذیبی روایات اور ہمارا تمدن ، تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائیںگے ۔ جس کا بڑا نقصان عہد حاضر کے معاشرتی سطح کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کو بھی ہوگا اور اس کے لئے تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ لیکن افسوس کہ اردو زبان کے فروغ کے لئے حکومت بہار مراعات اور سہولیات کیا دیتی ، اس نے تو اردو زبان کو جڑ سے ہی ختم کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے ۔ حکومت بہار کے متعصب نوکرشاہوں کی متعصبانہ کوششوں سے یہاںاردو زبان اور اردو ادارے زبوں حالی کے شکار ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے وزیر اعلیٰ بہار اور حکومت کی ہمہ وقت تعریف و توصیف کا ورد کرنے والی کئی ایسی شخصیات موجود ہیں جو اردو زبان اور اقلیتی اداراوں کی زبوں حالی کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں لیکن ان لوگوں کے سیاسی مفادات اور مصلحت پسندی نے ان کی زبان پر قفل ڈال رکھے ہیں ۔ ان لوگوں کی زبان اس وقت بھی گنگ نظر آئی جب اردو زبان ،جسے بہار کی دوسری سرکاری زبان ہونے کا دستوری حق حاصل ہے ، اسے ایک منظم اور منصوبہ بند سازش کے تحت حکومت بہار کی وزارت تعلیم نے اپنے ایک سرکولر نمبر : 799 بتاریخ : 15؍ مئی 2020 جاری کرتے ہوئے اردو زبان کو میٹرک سطح سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔اس اردو مخالف سرکولر کے خلاف بڑھتے احتجاج اور مظاہروں کو سرد کرنے کے لئے حکومت بہار نے گزشتہ انتخاب کے عین ’انتخابی ضابطہ اخلاق ‘ کے نفاذ کے ٹھیک ایک دن قبل اس سرکولر میں ترمیم کی گئی لیکن بڑی چالاکی سے گھما پھرا کر معاملہ اسی طرح برقرار رکھا گیااور ترمیم کے بعد بھی اردو زبان کو لازمی زبان کے بجائے اختیاری زبان کی حیثیت کو برقرار رکھا۔ اب تصور کیجئے کہ اگر اسی طرح بنیادی سطح سے ہی اردو ختم ہو جائے گی توپھر انٹر میڈیٹ کلاسوں اور کالجوں و یونیورسیٹیوں میں اردو پڑھنے والے کس طرح بچے بچیاں پہنچیں گے ۔

اردو زبان کے خلاف یہ بہت بڑی منظم اور منصوبہ بند سازش ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان کے تئیں ایسے متعصبانہ اقدام کے بعد اردو زبان کا حال بھی وہی ہوگا جو آج فارسی زبان کاہے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ اس مزکورہ اردو مخالف سرکولر کو حکومت فوری طور پر واپس لے کر سابقہ صورت حال کو بحال کرتے ہوئے بہار میں میٹرک تک اردو زبان کی تعلیم کو اختیاری کے بجائے لازمی حیثیت برقرار رکھے، تاکہ اردو زبان کو آئینی اور دستوری حق اور انصاف مل سکے ۔ بہت سارے سرکاری اسکول ایسے ہیں ،جہاں اردو یونٹ پر دوسری زبان کے اساتذہ بحال ہیں ۔ ٹی ای ٹی کے تحت اردو اساتذہ کی بحالی کا معاملہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود دانستہ طور پر التوا میں پڑا ہے ۔ اس جانب بھی حکومت بلا تاخیر توجہ دے کر ہزاروں کی تعداد میں کامیاب ہونے والے اور بحالی کے منتظراساتذہ کاخواب شرمندۂ تعبیر ہو۔ اردو کونسل ہند نے بلا شبہ تحفظ اردو دھرنا دے کر گزشتہ کئی برسوں سے بہار میں اردو تحریک کو زندہ ، متحرک اور فعال کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ورنہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ بہار میں اردوکے ساتھ ہونے والی ان تمام ناانصافیوں ، حق تلفیوں کے خلاف ہونے والے احتجاج اور تحریک کو بعض مفاد پرستوں نے جھوٹے وعدوں کی تھپکیاں دے کر سلا دیا تھا ۔ اس سلسلے میں چند سال قبل آر جے ڈی کے ایک سابق وزیر اقلیتی فلاح، عبدالغفور ( مرحوم )نے یہ کہہ کر کہ’ ’ آج اردو تحریک کا حال یہ ہے کہ انجمن ترقی اردو کا صدر کون ہے ، کوئی نہیں جانتا ہے ۔ انجمن جیسی جماعت بن کر رہ گئی ہے ، تحریک سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ جب انجمن ترقی اردو کا یہ حال ہے تو اردو سیاسی ایجنڈہ کیسے بن سکتی ہے ؟ آج پھر سے اردو تحریک کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے ‘ یہ کہہ کر انھوں نے بہت سارے سوئے تار کو جھنجوڑ دیا تھا۔

( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS