محمد فاروق اعظمی
ہندستان میں زبانوں کی صورتحال سے متعلق دستیاب تازہ ترین سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اردو بولنے ‘ پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی ہے ۔ 2001 کی مردم شماری میں اردو بولنے والوں کی تعداد 5.15 کروڑ تھی۔ لیکن 2011 میں یہ تعداد گھٹ کر 5.07 کروڑ رہ گئی ۔یہی صورتحال اردو میں چھپنے والے اخبارات ‘ رسائل و جرائد کی ہے ۔کہنے تو رجسٹرار آف نیوز پیپرس ان انڈیا کے یہاں ہر سال150کے قریب اردو اخبارات و رسائل کا اندراج ہوتا ہے لیکن ان میں سے زیادہ تر رسائل اور جریدے ایک دو شمارے کی اشاعت کے بعد دم توڑ دیتے ہیں ۔روزنامہ اخبارات کی تعداداشاعت مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے تو ہفتہ وار اور پندرہ روزہ اخباروں کی اشاعت میںبھی تسلسل نہیں رہاہے اور تعداد اشاعت بھی سمٹ کر تین ہندسوںتک آپہنچی ہے ۔اس کی وجہ مالیات کی کمی سے لے کر سیاسی ‘سماجی اور معاشرتی کچھ بھی ہوسکتی ہے لیکن اس کی ایک بڑی وجہ لوگوں کی پڑھنے سے کم ہوتی دلچسپی ہے ۔
ادبی رسائل و جرائد کی صورتحال تو اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔قاری نہ ہونے کی وجہ سے معیاری کہے جانے والے کئی ادبی جریدے بند ہو چکے ہیں تو اشاعت کا تسلسل برقرا ررکھنے والے جریدوں کے قارئین کی تعدادبھی تیزی سے کم ہورہی ہے ۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آج نوجوان نسل کا ادبی لگائو کم ہوتا جا رہا ہے ۔ روزگارپر مبنی تعلیم کے دباؤ اور جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اسیر ہوکر نوجوانوں کی اکثریت نے ادبی کتابوں سے منہ موڑ لیا ہے۔ انتہائی انتشار‘ جذبات ‘سوچ و فکر‘اوروابستگی سے عاری‘ رشتوں سے بے پرواہ‘ ادب‘ فن و ثقافت سے کنارہ کشی ‘ تفریح کی مسلسل تلاش‘ ہر چیز سے جلد اکتاجانا آج کے نوجوان کی خصوصیات ہوگئی ہیں ۔برق رفتار زندگی کے تعاقب میں مصروف نوجوان نسل کی ادب سے یہ کنارہ کشی ادب کا نقصان تو ہے ہی اسے معاشرے کیلئے بھی سود مند نہیں کہاجاسکتا ہے ۔ ان حالات کی ذمہ دار جہاں سستی بازاری صارفیت ہے وہیں نوجوانوں کے معروضی حالات سے بے پروا ہ بے ذائقہ ‘بے روح ‘مقصدیت اور عملیت سے عاری ادبی تخلیقات کا انباربھی ہے۔آج ادب کے نام پر پیش کیا جانے والا مواد ادب کے علاوہ سب کچھ ہے ۔اس کے قابل لحاظ حصہ کی حیثیت چبائے ہوئے نوالے اور چوسے ہوئے لفظوںکے کوڑے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔
ایسے میں تسلسل کے ساتھ ایسا بامقصد ادب پیش کرناجو نوجوانوں کے حس جمالیات کو ابھارتے ہوئے ان میں ادبی دلچسپی اور لگائو پیدا کرے ‘انہیں زندگی میں موجود خوبصورتی‘ جذبے اور عظیم انسانی اقدار کی منزل تک لے جائے آسان کام نہیں بلکہ آندھی میں چراغ جلانا ہے ۔ لیکن ان منفی اور نامساعد حالات میںکچھ لوگ ایسے ہیں جو اس ’غیر منافع بخش‘ شعبہ میں سرگرم ہیں اور ہمیں مایوس نہیں ہونے دیتے۔ا ن کاپیش کردہ ادب ہمارے نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے‘ انہیں اخلاق وتہذیب اورانسانی اقدار کے قریب لاتاہے ۔ ان ہی لوگوں میں ڈاکٹر امام اعظم ایک نمایاں نام ہے ۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) میں کلکتہ ریجنل سینٹر کے ڈائرکٹر معروف ادیب و شاعر ڈاکٹر امام اعظم مسلسل 21برسوں سے ’ماہنامہ تمثیل نو‘کے ذریعہ ادب کی یہ خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ڈاکٹر امام اعظم ایسے ادیب شاعر و صحافی ہیں جنہیں اردو ‘ ہندی اور انگریزی پریکساں قدرت حاصل ہے ۔ ان کی شاعری اور نثری تخلیقات مقصدیت سے پر ہوتی ہیں ۔ نئی سوچ و فکرسے آراستہ ان کے رشحات قلم ایسے شہ پارہ کی حیثیت رکھتے ہیںجس سے خوشہ چینی کرکے نوجوان نسل اپنی راہ کا تعین کرسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا رسالہ بھی اپنے اندر مقصدیت اورا فادیت کی ایک جہان سمیٹے ہوئے ہے۔ ہرشمارہ میں نیاپن اور نئے لکھنے والوں کی معقول نمائندگی ہے ۔ صحیح معنوں میں تمثیل نو کو جدید ترین شعری و ادبی رجحانات کا ترجمان کہا جاسکتا ہے ۔
ایک ایسے وقت میں جب اردو دنیا انتشار‘ اور افتراق کا شکار ہے ڈاکٹر امام اعظم کی اس کاوش کو نظر اندازکرنا احساس ناشناسی ہی ہوگی۔بقول ڈاکٹر خالدحسین خان آج اردو دنیا میں انتشار‘ افتراق اورا شتہار کا ماحول ہے۔ہرشخص اپنی خودستائی ‘ خودنمائی اور خود توصیفی نیز ’’ہم چنیں دیگرے نیست‘‘ کی ڈفلی بجا رہا ہے ۔کسی کو یہ فکر نہیں کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی نیز اشاعت وترسیل کی راہ میں حائل مشکلات و معاملات کو کیسے دور کیاجائے‘‘
ان حالات میں تمثیل نو کا ضخیم شمارہ پابندی سے شائع کرکے امام اعظم اردو والوں کی جانب سے فرض کفایہ اداکررہے ہیں۔ تمثیل نو کا تازہ شمارہ 500صفحات پر مشتمل خصوصی پیش کش اور ہر اعتبار سے جامع و دلچسپ ہے ۔ہر چند کہ امام اعظم شاکی ہیں کہ ادبی رسالہ نکالنا خسارے کا سودا ہے۔اشاعت کے بعد کاپیاں فروخت کم ہوتی ہیں ‘ تحفتاً زیادہ دی جاتی ہیں دوردراز کے قارئین تک رسالہ پہنچانادشورا تر مسئلہ ہے کیوں کہ ڈاک خرچ میںپچھلے کئی برسوں سے بے تحاشااضافہ ہوا ہے ۔اس کے باوجود ڈاکٹر امام اعظم دو دہائیوں سے خسارے کا یہ سودا کررہے ہیں اور آندھیوں میں بامقصد ادب کا چراغ روشن کئے ہوئے ہیں ۔تازہ شمارہ کے مشملات کے انتخاب میں بھی ڈاکٹر امام اعظم نے غیر معمولی درک کا ثبوت دیتے ہوئے اسے نوجوان نسل کی ادبی دلچسپی کا مرقع بنادیا ہے لیکن معیار سے کہیں سمجھوتہ نہیں کیا ہے ۔
اردو کی زوال پذیری کے درمیان ڈاکٹرا مام اعظم نہ صرف گراں بہا ادبی خدمت انجام دے رہے ہیں بلکہ ادب سے دور ہوتی نئی نسل کی تہذیب نفس اور اسے ادب سے جوڑکراردو کے نئے قارئین تیار کرنے کی مستحسن کوششیں بھی کررہے ہیں۔اردو کو آج ایسی ہی شعوری اور فعال کوششوں کی ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب ادب سے دور ہوتی نوجوان نسل انسانی جذبات و احساسات اور اقدار سے بھی محروم ہوجائے گی اور اردو زبان کے رسائل و جرائد ناپید ہوجائیں گے۔
[email protected]