زین شمسی
امت شاہ نے صرف اتنا کہا کہ ریاستیں اپنا کام ہندی میں کریں۔ان کا یہ کہنا تھا کہ تمام غیر ہندی زبان والی ریاستوں نے ہنگامہ برپا کر دیا۔ پرزور مخالفت کی آواز اس ریاست سے بھی اٹھی جو ابھی بی جے پی کے ایجنڈے کونافذ کرنے میں اپنی پوری طاقت لگائے ہوئے ہے، یعنی کرناٹک۔ حجاب، اذان، حلال جیسے مسلمانوں کے معاملات اور مسلمانوں کی تجارت کو ریاست سے ختم کرنے کا بیڑہ اٹھانے والے کرناٹک نے ہندی کی مخالفت میں اپنی بات واضح طور پر رکھ دی۔ ریاست گیر مخالفت کے بعد امت شاہ ایسے خاموش ہوئے جیسے کہیں گمنام ہوگئے ہوں۔ یہ معاملہ یہ ثابت کرتا ہے کہ زبان کا معاملہ مذہب کے معاملے سے بھی زیادہ سخت ہے اور ایسا صرف اس لیے ہے کہ زبان کسی تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے، اس کی ثقافت اور اس کی وراثت کی امین ہوتی ہے۔بھارت کی مشترکہ تہذیب اور کثیر الجہات ثقافت کا ہی اثر ہے کہ بھارت جیسے دیش میں اب تک یہ فیصلہ نہیں ہوسکا ہے کہ ملک کی قومی زبان کیا ہو۔ ہندی راج بھاشا ہے اور اسے راشٹر بھاشا بنانے کی کوششیں ہمیشہ سے ناکام رہی ہیں۔ جب جب ہندی کو راشٹر بھاشا بنانے کی کوشش کی گئی ملک گیر پیمانے پر لسانی تحریک شروع ہوئی اور تشدد کے انجام تک پہنچ گئی۔ زبان کو بچانا اسی لیے ضروری ہے کہ جب زبان ختم ہوگی تو تہذیب، ثقافت، روایت اور وراثت کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔
اب ایک منظر نامہ یہ بھی ہے۔ جہالت اور نفرت کے ایجنڈے پر چلنے والے سدرشن چینل کی ایک اینکر ’ہلدی رام‘ کے شو روم میں موجود عربی میں لکھے ایک فوڈ پروڈکٹ پربولنا شروع کرتی ہے اور بار بار یہ اعتراض کرتی ہے کہ اس کے فلیپ پر اردو کیوں لکھی ہوئی ہے، گویا سیدھے سیدھے وہ یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ بھارت میں کسی بڑے اسٹور پر اردو(یعنی مسلمانوں کی زبان، جیسا کہ اب طے کر دیا گیا ہے) میں لکھی ہوئی چیز کیسے فروخت کی جاتی ہے، جبکہ مسلمانوں کی تجارت کا مسلسل بائیکاٹ کیا جارہا ہے تو ’ہلدی رام‘ جیسا کاروباری گھرانہ اردو کا استعمال کیوں کر رہا ہے؟ یہ بحث الگ ہے کہ اس پیکٹ پر عربی الفاظ میں پروڈکٹ کا نام لکھا ہوا تھا، جسے وہ اردو کہہ رہی تھی۔یہ تو سب کو معلوم ہے کہ چینل ہیڈ سریش چوہانکے اپنے چینل کو بھارت کا سب سے بڑا چینل بنانے کے لیے مسلم مخالفت میں ساری اخلاقی حدیں پار کر چکاہے ، انہوں نے ہی اپنی اس نام نہاد شیرنی کو اسٹور پر بھیجا تھا، جسے ’ہلدی رام‘ کے اسٹاف نے بھیگی بلی بنا کر واپس کر دیا، لیکن چینل ہیڈ اپنے اس مقصد میں ضرور کامیاب ہوگیا جس میں بھارت کو اردو مخالفت کا ایک ایجنڈا سونپنا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ اس کی اس حرکت کی مخالفت میں بھی اردو داں طبقہ بالکل خاموش رہا ۔ کسی ادارے، کسی تنظیم یا کسی شخصیت نے اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ایک وفد بھیج کر سرکار سے اس طرح کے جاہلانہ عمل پر کارروائی کرنے کی بات رکھی جائے۔
اردو ایک تہذیب کا نام ہے۔ جس طرح اردو اپنا وقار کھوتی جا رہی ہے، مسلمان کا بھی سر نیچا ہوتا جا رہا ہے۔یہ بحث برسوں پہلے چھیڑنے کی ضرورت تھی کہ اردو کو کون ختم کر رہا ہے ۔ سرکار یا خود اردو داں طبقہ۔ کیونکہ اگر سرکار اردو مخالف ہوگی تو اسکول اور کالجوں سے اردو کو دربدر کرے گی اور اگر اردوداں طبقہ ہی اردو کے خلاف ہوگا تو اسے سب سے پہلے اپنے گھر سے دربدر کرے گا، تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اسکول یا کالجوں سے اردو غائب ہورہی ہے یا گھروں سے۔ جب تناسب میں دیکھیں گے تو گھروں سے ’’اردو نکالا‘‘ مہم کی شروعات بہت پہلے سے ہوچکی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گھر کے بچے اسلام کے چاروں خلفائے راشدین کے بالترتیب نام بھی نہیں جانتے ہیں۔اسلامی تاریخ سے نابلد ہو رہے ہیں اور اسلامی روایت سے کنارہ کش ہو رہے ہیں۔کم از کم ان ریاستوں میں جہاں اردو کو دوسری زبان کا درجہ حاصل ہے اور ہندی کے بعد اردو پڑھنے والے لوگ موجود ہیں ، وہاں کی حالت یہ ہے کہ گھروں میں والدین بھی اپنے بچوں سے دریافت نہیں کر رہے ہیں کہ تم اپنا نام اردو میں لکھ کر بتائو۔اب یہ سمجھنے کی بات ہے کہ ایک طرف ہندی کوراج بھاشا سے راشٹر بھاشا بنانے کی پر زور مخالفت ہو تی ہے اور دوسری طرف اردو کو گھر کی بھاشا بنائے رکھنے میں بھی تامل ہو رہا ہے۔ہم لڑائی سے پہلے اپنے ہی ہاتھ کاٹ لینے میں مہارت رکھتے ہیں ، ہم نے تو آج تک یہ بھی بتانے کی کوشش نہیں کی کہ جدوجہد آزادی کی زبان ہی اردو تھی۔کیا گاندھی، کیا نہرو اور کیا بھگت سنگھ اورکیا سبھاش چندر بوس سب کے سب اردو کے دیوانے تھے اور اردوکے پرچم تلے انقلاب زندہ باد کے نعرے انگریزوں کے دانت کھٹے کرنے کے لیے کافی تھے۔جب ہمیں خود اپنی زبان سے کوئی واسطہ نہیں رہا تو دوسروں سے گلہ کیا کریں۔ دوسرے تو عربی کو اردو سمجھ کر مخالفت پر اتر آئے ہیں۔
ملا بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ
اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی
ہمیں کچھ چیزیں سمجھنی ہی ہوں گی۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جس طرح کی ماحول سازی کی جا رہی ہے، اس کے خلاف بھارتی مسلمانوں کو ہی آگے آنا ہوگا۔ امریکہ نے راج ناتھ سنگھ کو کھری کھوٹی سناتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں حقوق انسانی مجروح ہو رہی ہے اور اس پر ہماری نظر ہے۔ کبھی کوئی مسلم ملک لنچنگ معاملہ میں کچھ کہہ دیتا ہے یا تنبیہ کر دیتا ہے، ہم خوش ہو جاتے ہیں ، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک بھارت کو صرف ایک بڑا بازار مانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بھارت تجارتی میدان میںاب تک میڈ ان انڈیا نہیں بن سکا ، میک ان انڈیا تو دیوانے کا خواب ہے، اس لیے بھارت میں اپنا سامان بیچو اور عیش کرو۔ اس میں یوروپی ممالک بھی ہیں، امریکہ اور روس بھی ہے ، چین اور سعودی عرب بھی ہیں۔ وہ آپ کا ساتھ کبھی کبھی صرف ایک بیان دے کر دے سکتے ہیں، لیکن ان پر انحصار کرکے آپ خود کو کمزور ، بدترین اوربے وقعت ہی کرتے جائیں گے۔خود کو مضبوط کرنا ہے توآپ کو اپنی لڑائی خود لڑنی ہوگی۔اپنی روایت، اپنی تاریخ،اپنی وراثت اور اپنی زبان کے ساتھ۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]