عبدالماجد نظامی
ہندوستان دنیا کے تمام ملکوں میں اس اعتبار سے اپنا خاص امتیاز رکھتا ہے کہ یہ ہر لحاظ سے متنوع ہے۔ اس کے مذاہب و ادیان سے لے کر زبان و ثقافت تک سب کچھ تکثیریت کی پہچان رکھتے ہیں۔ یہاں نہ جانے کتنی تہذیبیں پیدا ہوئیں اور پروان چڑھیں اور پوری انسانیت کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ دنیا میں جو قدیم فلسفے آج تک زندہ ہیں اور اپنی اہمیت و معنویت برقرار رکھے ہوئے ہیں، ان میں فلسفۂ ہند کی اپنی امتیازی شان ہے۔ جب بھی کبھی اقوام عالم کی رہنمائی میں مصر و روم و یونان کا ذکر آتا ہے تو اس کی تصویر تب تک نامکمل رہتی ہے جب تک ہندوستانی فلاسفہ اور قوموں کی ارتقاء میں ان کے افکار کی گہری چھاپ کا ذکر نہ کر لیا جائے۔
سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس تنوع و تکثیریت نے کبھی بھی ہندوستان کی امیج کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ اس کے برعکس اس ملک کی اسی خوبی نے دنیا بھر میں اس کو قابل قدر اور لائق تحسین و احترام بنا دیا۔ تاریخ بتاتی ہے جن ملکوں میں ایک ہی زبان اور ایک ہی تہذیب کے ماننے والے لوگ رہتے تھے جیسا کہ روم و مصر و یونان پر یہ بات صادق آتی ہے کہ وہ معاشرے بھی خود کو اس انداز میں مرتب نہیں رکھ پائے جیسا کہ ہندوستان نے ماضی میں بھی رکھا اور بہت حد تک آج بھی اس کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہاں صرف ادیان و مذاہب ہی نہیں بلکہ زبانیں بھی پیدا ہوئیں اور ان کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ ہندوستان کا فلسفہ ہر معاملہ میں جیو اور جینے دو کا رہا ہے۔ ہندوستان نے کبھی بھی کسی کو اپنا ازلی دشمن نہیں مانا بلکہ پوری انسانی آبادی کو اپنا کنبہ تصور کیا۔ ہمارے وزیراعظم آج بھی جب بیرونی ممالک میں تشریف لے جاتے ہیں تو ’’وسودھیو کٹم بکم‘‘ کا نعرہ ضرور لگاتے ہیں اور ہندوستان کی وسعت فکری و قلبی کے لیے دلیل پیش کرتے ہیں۔
دنیا کی قومیں بھی اس نعرہ کو سن کر منفی ردعمل نہیں دیتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ تنوع و تکثیریت ہندوستان کا طرۂ امتیاز رہی ہیں۔ لیکن اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اردو زبان اور مسلمانوں کے خلاف جس غیر مہذب اور غیر دستوری زبان کا استعمال اسٹیٹ کی اسمبلی میں کیا، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف دستور ہند کی روح، جس کی حفاظت کا حلف اٹھایا تھا، کی خلاف ورزی کر رہے ہیں بلکہ اس ملک کی صدیوں پرانی جو روایت رہی ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ کی جائے بلکہ دکھتے دلوں پر مرہم رکھا جائے، اس سے بھی بے اعتنائی کی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی زبان سے اردو کے خلاف یہ زہر افشانی کئی وجوہات سے غیرمتوقع تھی۔ ایک تو اس لیے کہ وہ اس وقت ریاست کے سب سے اہم منصب پر متمکن ہیں جس کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ سماج کے کسی طبقہ کے خلاف ایسی بات نہ کہیں جس کی اجازت ملک کا دستور نہیں دیتا ہے۔
اگر اعلیٰ منصب پر فائز شخصیتیں ہی دستور کا اس طرح مذاق بنائیں گی تو اس عہدہ سے نیچے کام کرنے والوں کو جو پیغام جائے گا وہ نہایت غیر مفید ہوگا اور اس طرح سماج کا تانا بانا کمزور ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسا ماحول پیدا کیا جانا کسی بھی اعتبار سے قابل تقلید نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے خود کو ایک مذہبی شخصیت کے روپ میں ڈھال رکھا ہے اور مذہب کے بارے میں صرف علامہ اقبالؔ ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نفرت کرنا یا آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا ہے۔
ہندوازم یا سناتن دھرم بھی اس عام اصول سے الگ نہیں ہے۔ کیا آدتیہ ناتھ اردو مخالف بیان سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب کی جو عملی تفسیر پیش کر رہے ہیں، وہ گرنتھوں اور ویدوں سے مختلف ہے؟ مذہبی شخصیتیں ہمیشہ سماج سے زہر نکالتی رہی ہیں اور زہر سے متاثر لوگوں اور سماجوں میں تریاق تقسیم کرتی رہی ہیں۔ لوگ جب ہر محاذ پر ناکام ہوجاتے ہیں تب بھی وہ خدا کا ہی آسرا ڈھونڈتے ہیں اور مذہبی پیشوا و رہنما ان کے زخمی دلوں کو مرہم فراہم کرکے ان کی زندگی کو خوشنما اور دلچسپ بناتے ہیں۔
ایک عام انسان خواہ وہ کسی مذہب کا ماننے والا ہو، ایک مذہبی شکل و صورت والے شخص سے یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ سماج کو توڑنے اور نفرت پھیلانے کے بجائے دلوں کو جوڑنے اور محبت و روا داری کی فضا قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ تیسری وجہ جس کی بنیاد پر آدتیہ ناتھ سے اس بیان کی توقع نہیں تھی، یہ ہے کہ رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری کا تعلق اسی شہر سے ہے جہاں سے وزیراعلیٰ آتے ہیں۔ ان کا حلقۂ انتخاب وہی ہے اور وہیں پر وہ گورکھ ناتھ مٹھ ہے جس کے ذمہ دار اترپردیش کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اگر انہوں نے فراق گورکھپوری کی زندگی اور ان کی ادبی خدمات کا مطالعہ کیا ہوگا تو انہیں معلوم ہوگا کہ فراق صاحب انگریزی کے پروفیسر تھے لیکن دنیا بھر میں ان کی شہرت اردو کے عظیم شاعر کے طور پر ہے۔
فراق صاحب کے علاوہ بھی ہزاروں ناموں کا ذکر کیا جا سکتا ہے جنہوں نے اردو زبان کی خدمت کی اور اس کی بدولت ناموروں میں شمار ہوئے۔ لیکن فراق صاحب کا ذکر اس پس منظر میں بطور خاص اس لیے کیا جا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ ایک خاص طبقہ کو دیوار سے لگانے کی ضد میں اپنے حلقۂ انتخاب اور اس شہر گورکھپور کے گوہر آبدار فراق صاحب کی بھی تحقیر کر رہے ہیں۔ اردو زبان اسی ملک کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے۔ اسی کے آنگن میں کھیل کر پلی بڑھی اور جوان ہوئی ہے اور اپنی دلکشی و دل فریبی میں اس قدر ممتاز رہی ہے کہ سب اس کی زلف کے اسیر ہوئے ہیں۔
یہ زبان کٹھ ملائیت اور تنگ نظری کبھی پیدا نہیں کرتی بلکہ اس کی شیرینی سے زہر آلود ماحول بھی خوشگوار ہوجاتا ہے۔ اردو بولنے اور لکھنے والوں میں ایک خاص قسم کا وقار اور رکھ رکھاؤ ہوتا ہے جو صرف اسی زبان کا حصہ ہے۔ اس کا دامن اس قدر اور اس کا دل اتنا کشادہ ہے کہ اس نے دنیا کی تمام زبانوں کے بہترین الفاظ کو قبول کرنے اور اپنی ذات میں ضم کرکے ان کو اپنا بناکر استعمال کرنے میں کبھی ہچک محسوس نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ صرف عربی و فارسی کے دل موہ لینے والے الفاظ و تعبیرات ہی نہیں بلکہ سنسکرت و اطالوی و فرانسیسی اور انگریزی زبانوں کے الفاظ و محاورے بھی اس سہولت کے ساتھ اردو میں گم ہوگئے ہیں کہ کوئی شخص آسانی سے قطعاً نہیں بتا سکتا کہ یہ اردو کے اپنے الفاظ نہیں ہیں۔
جو زبان غیروں کے ساتھ اپنوں جیسا برتاؤ کرتی ہے، اس کو پرایا کرنے کی کوشش کبھی قابل ستائش نہیں ہوسکتی۔ اردو کا یہ مزاج اور انداز تو کبھی بیگانہ کرنے کا نہیں رہا ہے۔ یہ اعلیٰ تہذیب و ثقافت کی زبان ہے جس میں ایک باوقار انسان اور منصف مزاج سماج تشکیل دینے کی خوبی خالق فطرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے۔ اردو کے دامن کو اوچھے خیالات و جذبات سے داغ دار نہیں کیا جانا چاہیے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]