یوپی پولیس پھر سوالا ت کے گھیرے میں

0

شاہد زبیری

یوں تو آزادی کے بعد سے ہمارے پورے پولیس سسٹم پر گاہے بگاہے سوالات اٹھتے رہے ہیں جن میں فسادات میں پولیس کی کارکردگی، اقلیتوں اور کمزور طبقات کے ساتھ پولیس کے معاندانہ رویے، پولیس اور حکمراں جماعتوں کا گٹھ جوڑ اور سیاسی مخالفین کی آواز کو حکمراں جماعتوں کے اشارے پر دبایا جانا وغیرہ شامل ہے۔ انگریز حکمرانوں کے بنائے گئے پولیس ایکٹ 1861 میں ترمیم اور پولیس اصلاحات کے لیے بنائے گئے مرکزی پولیس کمیشن، سپریم کورٹ کی ہدا یت پر قائم کیے گئے پولیس کمیشن چاہے وہ جسٹس آنند نرا ئن ملّا پولیس کمیشن ہو یا ریبرو پولیس کمیشن یا ریاستی سطح پر بنائے گئے پولیس ریفارمس یا ری آرگنائزیشن کمیشن جن کے ذریعے پولیس کے تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل نو اور اصلاحات پر متعدد سفارشات پیش کی گئی ہیں، جن میں زیادہ ترسفارشات دھول چاٹ رہی ہیں اور ہماری پولیس پر فلم ’شعلے‘ کا یہ طنزیہ ڈائیلاگ آج بھی پوری طرح صادق آتا ہے کہ ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر ہیں اور آزاد ہندوستان میں بھی ہماری پولیس اپنے طور طریقوں اور رویے سے انگریزوں کے زمانے کی پولیس معلوم پڑتی ہے۔ عوام میں بھی یہ تاثر عام ہے کہ آزاد ہندوستان میں بھی انگریز حکمرانوں کی طرز پر ہماری پولیس آج کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ہاتھ کی نہ صرف کٹھ پتلی ہے بلکہ سیاسی مخالفین کی آواز کو دبانے کا ایک ہتھیار بھی ہے۔ پولیس پر اقلیتوں، دلتوں اور کمزور طبقات کے حقوق کی پامالی اور انسانی حقوق کی پاما لی کے الزامات بھی کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ دور کیوں جائیں، آسام کی بی جے پی کی سرکار میں پولیس کی بربریت اور اس کی حالیہ وحشیانہ کرتوت اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
یو پی پولیس کی اگر بات کریں تو اس معاملے میں اس کا دامن بھی کم داغدار نہیں۔ پریاگ راج (الٰہ باد) میں 20 ستمبر کو اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد کے صدر مہنت نریندر گری کی مشتبہ حالت میں موت کا معاملہ ہو یا پھر 21 ستمبر کو مظفرنگر ثبوتوں کے فقدان کی بنیا پر مغربی اتر پردیش کی مقامی عدالت سے 2013 کے فسادات کے 20 ملزمان کو بری کیا جا نا ہو یا پھر 22 اور 23 ستمبر کی درمیانی شب میں اسلامی اسکالر مولانا کلیم اللہ صدیقی کی گرفتاری کا واقعہ ہو، ایک کے بعد ایک مسلسل تینوں واقعات یوپی پولیس کی کار کردگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سرکار کسی کی بھی رہی ہو، پولیس سرکار کی آلۂ کار ر ہی ہے اور سرکار کی منشا اور اس کی ہدایت پر کام کرنا اس کی مجبوری بن گئی ہے یا مجبوری بنا دی گئی ہے۔
ہم سب جا نتے ہیں کہ 2013 میں مظفر نگر کا بھیانک فساد جس نے 2002 کے ہولناک گجرات فساد کی یاد تازہ کردی تھی، وہ اکھلیش یادو کی سماجوادی پارٹی کی سرکار میں ہوا تھا جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 62 افراد کی جانیں گئی تھیں اور 50 ہزار لوگ اپنے گھروں سے اجاڑ دیے گئے تھے۔ ہلاکتوں کے علاوہ عصمت دری کے دلدوز اور شرمناک واقعات، ڈکیتی اور آتش زنی کی ہو لناک وارداتیں رو نما ہو ئی تھیں اور اس بابت بربریت کے شکار سراج الدین نے 8 ستمبر 2013 کو شاہ پور تھا نے میں رپورٹ درج کرائی تھی۔ پولیس نے اکھلیش سرکار کے رہتے 510 مقدمات درج کیے تھے، 1480 ملزمان کو گرفتار کیا تھا اور یو پی ایس آئی ٹی نے 175 معاملوں میں چارج شیٹ دائر کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق 97 کیسوں میں 1,117 ملزمان کو ثبوتوں کے ناکافی ہونے یا ثبوتوں کے فقدان اور گواہوں کے مکر جا نے کی بنیاد پر عدالت نے بری کر دیا۔ گزشتہ روز مقامی عدا لت نے 20 ملزمان کو یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ ملزمان کے خلاف استغاثہ ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ یہ پولیس کی ناقص کار کردگی کا تازہ ثبوت ہے ۔ بات مظفرنگر کی ہو رہی ہے تو قارئین کو یاد ہوگا کہ سی اے اے اور این آر سی پر جس وقت ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے تھے، ایسے ہی ایک مظاہرے کے دوران پولیس نے اقلیتی فرقے کے خلاف کس قدر بیجا طاقت کا استعمال کیا تھا، گھروں میں لوٹ مار کرنے، جوانوں کے ساتھ ضعیفوں اور بچوں پر مردانگی دکھانے، ان کو بری طرح زدو کوب کیے جانے اور خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کر نے کے الزامات یو پی پو لیس پرلگے تھے ۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ معروف اسلامی اسکالر مولا ناکلیم اللہ صدیقی کے ساتھ پولیس کی ناانصافی کے تازہ معاملے کا تعلق بھی مظفرنگر کی پھلت بستی سے ہے۔ جمعیۃ علمائ، جماعت اسلامی، ملی کونسل جیسی بڑی مسلم تنظیموں کی طرف سے اس معاملے پر پولیس کے رویے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے اور ان تنظیموں کے سربراہان مولانا ارشد مدنی، سعادت اللہ انجینئر اور ڈاکٹر منظور عالم کے بیا نات سامنے آچکے ہیں جن میں پولیس کی مذمت کے ساتھ ساتھ گودی میڈیاکے ٹرائل کی بھی شدید مذمت کی گئی ہے اور الزامات کو بے بنیاد اور بچکانہ قرار دیتے ہو ئے آئین میں دیے گئے مذہبی حقوق کے حوالے سے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ تنظیمیں اس وقت خاموش رہی تھیں جب گزشتہ چند ماہ پہلے 20 جون کو ایک نو مسلم عمر گوتم اور قاضی جہانگیر کو مبینہ طور پر لالچ دے کر لوگوں کا مذہب تبدیل کرانے اور اس کے لیے کروڑوں کی غیر قانونی فنڈنگ کے الزام میں دہلی سے یو پی اے ٹی ایس نے گرفتار کیا تھا۔ اے ٹی ایس کی طرف سے مولانا کلیم اللہ کی گرفتاری کے تار بھی عمر گوتم اور قاضی جہانگیر سے جوڑے جارہے ہیں۔ یو پی اے ٹی ایس نے مولانا کلیم اللہ صدیقی کو 10 دن کی پولیس ریمانڈ پر لے رکھا ہے جس کے خلاف نہ صرف بڑی ملی تنظیمیں آواز بلند کررہی ہیں بلکہ مسلم سیاسی تنظیمیں پی ایف آئی، ایس ڈی پی آئی اور مجلس اتحاد المسلمین اور کچھ مقامی تنظیمیں اس کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور مولانا کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ لینے والی سیکولر پارٹیوں کے قائدین نے اس مسئلے پر مکمل چپی سادھ رکھی ہے۔ ان کے کچھ مقامی لیڈروں کے بیانات ضرور سامنے آئے ہیں جبکہ اردو اخبارات نے بھی پولیس کے ناروا سلوک اور صریح نا انصافی کے خلاف اداریے لکھے ہیں جس میں 24 ستمبر کا ’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘ کا اداریہ ’مولانا کلیم اللہ صدیقی کی گرفتاری‘نما یاں ہے ۔

یو پی اے ٹی ایس نے مولا نا کلیم اللہ صدیقی کو 10 دن کے پولیس ریمانڈ پر لے رکھا ہے جس کے خلاف نہ صرف بڑی ملی تنظیمیں آواز بلند کر رہی ہیں بلکہ مسلم سیاسی تنظیمیں پی ایف آئی، ایس ڈی پی آئی اور مجلس اتحاد المسلمین اور کچھ مقامی تنظیمیں اس کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور مولانا کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ لینے والی سیکولر پارٹیوں کے قائدین نے اس مسئلے پر مکمل چپی سادھ رکھی ہے۔

مسلم حلقوں میں مولانا کلیم صدیقی کی ڈرامائی گرفتاری کی ٹائمنگ پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں اور اس گرفتاری کو مہنت نریندر گری کی مشتبہ موت کی طرف سے اکثر یتی طبقے خاص طور پر سادھو سنتوں کی توجہ ہٹانے اور 2022 کے انتخابی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ سب جا نتے ہیں کہ بی جے پی کو اقتدار میں لانے میں اکھاڑہ پریشدوں اور ان سے وابستہ سادھو سنتوں کا بڑا ہاتھ ہے ۔ہر چند کہ حکو مت نے اس ہائی پرو فائل کیس کی سی بی آئی کی جانچ بٹھا دی ہے لیکن سیاسی حلقوں اور غیر جانبدارانہ صحافیوں کی طرف سے سی بی آئی کی جانچ پر بھی شک کی گنجائش سامنے آرہی ہے۔ وجہ صاف ہے کہ سی بی آئی کو ’حکومت کا طوطا‘ مانا جاتا ہے۔ ’طوطا‘ وہ ہی بولے گا جو اس کے آقا اس کو رٹائیں گے۔ پولیس نے بھی جس طرح تفتیش کی ہے، اس پر سوال اٹھ رہے ہیں۔مانا جا رہا ہے کہ مہنت نریندر گری کی مشتبہ موت کے پس پشت جہاں اکھاڑہ پریشد کی جانشینی کا معاملہ ہے وہیں مہنت گری کی کروڑوں کی املاک کے ساتھ بی جے پی کی یو پی میں اقتدار کی باہمی رسہ کشی کو بھی اس میں دخل ہے۔ حقیقت کیا ہے، یہ توغیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گا لیکن غور سے اگر دیکھا جا ئے تو وہ مہنت گری کی مشتبہ موت کا معاملہ ہو یا مظفر نگر فسادات کے ملزمان کا عدالت سے بری کیا جانا اور مولا نا کلیم اللہ صدیقی کی گرفتاری، پولیس کی کارکردگی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یوگی حکومت نے مبینہ تبدیلیٔ مذہب کے خلاف قانون پاس کر دیا ہے لیکن یہ قانون آئین کی ان تمام دفعات اور میرج ایکٹ کی روح کے خلاف ہے جو ہر بالغ شہری کو اپنی پسند کا مذہب اور اپنی پسند کا شریک حیات منتخب کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔ اسی لیے مسلم حلقے اور مسلم تنظیمیں مولانا کلیم اللہ صدیقی کی گرفتاری کو غیر آئینی اور غیرمنصفانہ مان رہی ہیں اور اس کے لیے یو پی پولیس کو ذمہ دار مان رہی ہیں جس نے حکو مت کے اشارے اور ایما پر یہ گرفتاری کی تاکہ مہنت گری کے واقعے پر اکثریتی طبقے کی ناراضگی پر مولانا کلیم اللہ صدیقی کی گرفتاری کی چادر ڈال دی جائے اور 2022 کے یو پی اسمبلی انتخابات میں ہونے والے نقصانات سے بچا جا سکے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS