آج سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004 کو آئینی طور پر برقرار رکھتے ہوئے الٰہ آبادہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے اس مقدمے کی سماعت کی اور یوپی مدرسہ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو تسلیم کیا۔ اس فیصلے نے یہ واضح کر دیا کہ ریاستی حکومتوں کو مدارس کی تعلیم میں اصلاحات کرنے اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کا آئینی حق حاصل ہے۔
یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004 کے تحت اترپردیش میں مدارس میں تعلیم کے انتظامات قانونی طور پر وضع کیے گئے تھے۔ اس ایکٹ کا بنیادی مقصد مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیمی مضامین جیسے تاریخ،جغرافیہ،سائنس اور ریاضی کا نصاب فراہم کرنا تھا۔ اس کا مقصد مدارس کے طلبا کو نہ صرف مذہبی تعلیم بلکہ دنیاوی تعلیم بھی دینا تھا تاکہ وہ معاشرتی اور تعلیمی لحاظ سے بہتر طور پر ترقی کر سکیں۔یہ ایکٹ مدارس میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے ایک معیاری فریم ورک قائم کرنے کی کوشش کرتا تھا،جس میں ریاستی حکومت نے مدارس کی نگرانی اور تعلیم کے معیار کی جانچ کیلئے مخصوص اقدامات کیے تھے۔ اس کے ذریعے مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ معیاری دنیاوی مضامین کی تدریس کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔
مارچ 2024 میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004 کو منسوخ کر دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ایکٹ ہندوستان کے سیکولرازم کے اصولوں کے خلاف ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ کہا تھا کہ مدارس میں ریاستی حکومت کی طرف سے مذہبی تعلیم فراہم کرنا ملک کے سیکولر موقف سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس فیصلے کے بعد یوپی حکومت نے مدارس میں نگرانی اور چھان بین کے عمل کو تیز کر دیا تھا اور مختلف مدارس کے انتظامات اور نصاب کی جانچ شروع کر دی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا اور یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004 کو آئینی طور پر برقرار رکھا۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس ایکٹ کا مقصد ریاستی سطح پر دینی تعلیم کے اداروں کے معیار کو بہتر بنانا تھا،جو کہ آئینی طور پر درست عمل ہے۔ ان کے مطابق،اس ایکٹ کے بعض حصوں کو صرف اس بنیاد پر منسوخ کرنا کہ وہ مدارس میں دینی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں،غیر منطقی ہوگا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر اس ایکٹ کو مکمل طور پر منسوخ کر دیا جاتا تو یہ ’بچے کو نہانے کے پانی کے ساتھ باہر پھینکنے‘ کے مترادف ہوتا‘کیونکہ اس ایکٹ کے بعض حصے مدارس کے تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔
یوپی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنے موقف میں کہا کہ یہ ایکٹ آئینی ہے اور اس کے ذریعے مدارس کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت نے مزید کہا کہ مدارس میں جدید تعلیم کی فراہمی کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں،جن میں اردو یا عربی میں جدید تعلیمی مضامین جیسے تاریخ، جغرافیہ،سائنس اور ریاضی کی تدریس شامل ہے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اس ایکٹ کے تحت مدارس میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے ایک مضبوط نگرانی اور جانچ کا نظام قائم کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے یہ وضاحت بھی کی کہ یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو یہ اختیار دینے والی دفعات یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) ایکٹ 1956 سے متصادم نہیں ہیں۔ UGC کے قواعد و ضوابط صرف یونیورسٹیوں پر لاگو ہوتے ہیں، نہ کہ مدارس پر۔ اس طرح، سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004 کی دفعات اور UGC کے دائرۂ کار میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بی جے پی کے رہنماؤں نے اس کا خیرمقدم کیا تھا اور مدارس میں اصلاحات کی حمایت کی تھی۔ تاہم،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت اور سیاستدانوں نے ایک نیا بیانیہ اپنایا،جس میں مدرسہ تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے ایک متوازن حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اترپردیش کے مدارس کیلئے ایک سنگ میل ثابت ہوا ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایکٹ کو آئینی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اور اس پر عمل درآمد کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ مذہبی تعلیم کے اداروں کی اصلاحات کے دوران ریاستی حکومتوں کے آئینی اختیارات کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ مدارس میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں اور ان اداروں کی اصلاحات کیلئے ایک مضبوط قانونی فریم ورک تشکیل دیا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف مدارس کے طلبا کیلئے ایک امید کی کرن ثابت ہو سکتا ہے،بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی حکومتیں آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے تعلیمی اصلاحات کر سکتی ہیں اور اس کے ذریعے مدارس میں موجود تعلیم کی سطح کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری رکھ سکتی ہیں۔