شاہد زبیری
یوپی اسمبلی کے رواں اجلاس کے دوران اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کے ذریعہ اسمبلی کی کارروائی علاقائی بولیوں اور زبانوں میں درج کئے جا نے کے اعلان پر حزبِ اختلاف کے لیڈر اور سماجوادی پارٹی کے رہنما ماتا پرسادپانڈے کی طرف سے اردو کو بھی شامل کئے جا نے پر وزیر اعلیٰ جس طرح بھڑک اٹھے اس پر نصیرالدین شاہ کی فلم’البرٹ پنٹو کو غصّہ کیوں آتا ہے‘کی یاد تازہ ہو گئی، جس طرح ’البرٹ پنٹو‘کے غصہ کی ایک وجہ تھی ہمارے وزیرِ اعلیٰ کے غصہ آنے کی بھی ایک وجہ ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ جس پارٹی کی سرکار میں وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس کی اردو سے دشمنی جگ ظاہر ہے ۔اردو جیسی سیکو لر زبان پر مسلمانوں کاٹھپّہ لگانے والوں میں سنگھ اور جن سنگھ جو اب بی جے پی ہوگئی ہے دونوں کا نام سرِ فہرست ہے ۔1973میں ہیم وتی نندن بہو گنا کی سرکار نے جب سہ لسانی فارمولہ کے تحت پرائمری اسکولوں میں اردو کو رائج کیا اور اردو اساتذہ کی تقرریاں کیں اس وقت بھی اور جب ملائم سنگھ یادو کی سرکار نے یہ اعلان کیا کہ جس کلاس میں اردو پڑھنے والے بچوں کی تعداد کم ازکم 10ہوگی ان اسکولوں میں اردو اساتذہ رکھے جائیں گے اور اردو اساتذ ہ کی تقرری ہوئی ، نرائن دت تیواری نے اردو کو اس کا حق دلانے کیلئے یوپی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دئے جانے کا اعلان کیا تب بھی فرقہ پرستوں کو غصہ آیا تھا اور عدالت میں اس اعلان کو چیلنج کیا گیا تھا۔
اس کے بعد اردو کو دوسری سرکاری زبان بنائے جانے کا معاملہ رفع دفع ہوگیا لیکن اردو اساتذہ اور اردو حلقے کے لوگ اب بھی اردو کے دوسری سرکاری زبان ہونے کے واہمہ کا شکارہیں اور اس کی دہا ئی دیتے رہتے ہیں۔ ہیم وتی نندن بہو گنا، ملائم سنگھ یادو اور نرائن دت تیواری کی اس اردو نوازی کو لے کر سنگھ اور بی جے پی نے شدید مخالفت کی تھی ۔ سنگھ کے اسٹوڈنٹ ونگ اکھل بھا رتیہ ودھیارتھی پریشد نے اردو کے خلاف یہ اشتعال انگیز نعرہ لگا یا تھا کہ’اردو تھوپی گئی لڑکوں پر-خون بہے گا سڑکوں پر‘ اتنا ہی نہیں بلکہ اسے دیواروں پر بھی لکھا گیا۔ ارد وہمیشہ فرقہ پرستوں کی آنکھ میں کاٹے کی طرح چبھتی رہی ہے۔ سر سیّدؒ کے زمانہ میں جب وہ بنارس میں منصف تھے تب پہلی مرتبہ ہندی پرچارنی سبھا نے ہندی اردو تنازع کی بنیاد ڈالی تھی یہ اور بات ہے کہ اس وقت ہندو مسلمان شیرو شکر کی طرح تھے اور اس تنازع نے طول نہیں پکڑا تھا، لیکن اردو جیسی سیکولر زبان کے مسلمان ہونے کا یہ تنازع سر اٹھا تا رہا ہے۔ حالیہ تنازع اس وقت اٹھاجب حزبِ اختلاف کے لیڈر ماتا پرساد پانڈے نے اردو کو علاقائی بولیوں اور زبانوں کے ساتھ شامل کئے جانے کامطالبہ کیا۔ اس مطالبہ نے سنگھ اور بی جے پی کی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا جس پر ہمارے شعلہ بیان وزیر اعلیٰ کب چپ رہنے والے تھے انہوں نے وہی کیا جو ان کی فطرت میں شامل ہے اور اردو کا نام سنتے ہی ان کا غصّہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا اور وہ اردو کو مولوی اور کٹھ ملّا کی زبان کہہ گئے اور اس طرح انہوں نے اردو کا رشتہ ایک خاص مذہب سے جوڑدیا۔
ماہر لسانیات کے نزدیک زبانوں کا تعلق مذہب سے نہیں علاقوں اور خطوں سے ہوتا ہے کسی خاص مذہب سے نہیں ،زبانوں کو مذہب کی ضرورت نہیں ہوتی مذہب کو زبانوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے وزیر اعلیٰ نے اردو اور مسلمانوں کے تئیں اپنی معاندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے وہی کہا جو عین سنگھ اور بی جے پی کی روش ہے ۔ وزیر اعلیٰ کے بیان کے بعدسنگھ و بی جے پی کی ٹرول آرمی اور گودی میڈیا اردو ہی کے نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف بھی ہر زہ سرائی پر اتر آیا ہے اور اردو کٹھ ملّا اور مولوی کی زبان کہے جا نے کا دفاع کررہا ہے لیکن اسی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ آزاد سوشل میڈیا اور آزاد یو ٹیوب چینلوں پر اردو کی وکالت ہو رہی ہے جہاں کٹھ ملّا اور مولویوں کی اردو زبان کہے جا نے پر وزیر اعلیٰ کی گرفت کی جارہی ہے وہیں اردو کے سیکولر مزاج ہو نے کی گونج سنائی دے رہی ہے اور کہا جا رہاہے کہ کہ اردو کٹھ ملّا کی نہیں آنند نرائن ملّا کی زبان ہے۔ اردو کی سرکاری میگزین ’سائنس کی دنیا‘کے سابق مدیر اور سیکولر روایات اور دہلی کی تہذیبی وراثت کے امین کہے جانے والے آنجہانی پنڈت آنند موہن زتشی گلزار جن کے والد اور وہ خود بھی دبستانِ داغ سے تعلق رکھتے تھے ان کی ایک پرانی ویڈیو کو کسی محبِّ اردو نے نہ جا نے کہاں سے ڈھونڈ نکالا۔ اس ویڈیو میں زتشی گلزار نے مغل بادشاہ شاہجہاں کے عہد کے ہندو شاعرچندربھان برہمن جن کو عام طور پر فارسی کا شاعر بتا یا جاتا ہے۔
انہوں نے ان کو اردو غزل کا پہلا شاعر قرار دیا ہے اور چندر بھان برہمن سے لے کر اردو کے ہندو شعراء کے ناموں کی جھڑی لگا رکھی ہے ۔ہم اگراردو کے نثری ادب کی بات کریںتو ہندو افسانہ نگاروں، ناول نگارو ں کی تعداد بھی خاصی ہے ۔ ’سوزِوطن ‘ کے تخلیق کار نوبت رائے کے منشی پریم چند بننے تک ، رتن ناتھ سرشار ، ایس ناگی ، راجندر سنگھ بیدی ،کرشن چندر ، کے تخلیق کاروں کے علاوہ اردو کے ہندو صحافی اور ناشر منشی نول کشور اور انگریزی کے ممتاز صحافی کلدیپ نیّر کی ’انجام‘کی اردو صحافت سمیت پرتاپ، ملاپ، تیج اور ہند سماچار اردو روزناموں سے کون ناواقف ہے جن کے مالک بھی اور ایڈیٹر بھی ہندو تھے ۔ ہند سماچار تو آج بھی شائع ہورہا ہے ۔اردو کا مقبول ترین روز نامہ راشٹریہ سہارا کا مالک کون ہے اور روز نامہ انقلاب کس کی ملکیت میں ہے کیا مسلمان ان اخبارات کو نکالتے ہیں؟ ۔ ممتاز صحافی رویش کمار کے چینل سے لے کر اجیت انجم کے چینل اور ریڈ مائک تک نہ جانے کتنے چینل ہیںجو اردو پر ڈبیٹ کررہے ہیں اور اس مسئلہ کو بیبا کی سے اٹھا رہے ہیں۔ کیا اردو کے یہ سب بہی خواہ مسلمان ہیں، کٹھ ملّا اور مولوی ہیں؟ سنگھ اور بی جے پی کی دیرینہ مسلم دشمنی کا حال یہ ہے کہ ان کو ہر وہ چیز جس کا تعلق کسی بھی درجہ میں مسلما نوں سے ہے وہ اس کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے رہتے ہیں۔ وز یر اعلیٰ کو معلوم ہے کہ مدارس کا ذریعہ تعلیم اردو ہے اس لئے وزیر اعلیٰ نے طیش میں آکر اردو کا رشتہ کٹھ ملّا اور مولوی سے جوڑ دیاجبکہ اردو اور ہندی ایک ماں جا ئی ہیں دونوں ہند آریائی زبانوں میں شامل ہیں اور کھڑی بولی میں شمار ہوتی ہیں، دونوںزبانوں میں کوئی دوئی نہیں دونوں کے افعال یکساں، محاورے اور پہیلیا ں ایک ،گرامر بھی تقریباً ایک جیسی ۔ امیر خسرو نے اس زبان کو ہندی ہندوی بھی کہا اور یہ زبان ریختہ بھی کہلا ئی ،جس میں میرو غالب نے شعر کہے۔ گاندھی جی نے اس زبان کو دیو ناگری میں لکھے جانے کو ہندی اور دائیں جانب سے سے تحریر کئے جا نے کو ’ہندوستانی ‘ کا نام دیا ۔ وکّی پیڈیا کے مطابق اسی ’ہندوستانی زبان‘(ہندی -اردو ) بولنے والوں کی تعداد ملک بھر میں 64کروڑ ہے ۔
اردو کے نامور ادیب اور مؤرخ جمیل جالبی مرحوم نے ہفت روزہ راشٹریہ سہارا کیلئے راقم کے ساتھ ایک انٹرویو میں ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں میں ارد و کو’ لینگو فر ینکا ‘ بتا یا تھا۔ سنگھ اور بی جے پی کا یہ کیسا راشٹر واد ہے کہ خالص دیسی زبان اردو سے نفرت اور غیر ملکی زبان انگریز ی سے محبت، آخر کس لئے؟۔ اردو سے نفرت ماسوا اس کے کچھ نہیں کہ اس پرسیاسی روٹیاں سینکی جائیں او ر ہندو ووٹ بینک کی خوشنودی حاصل کی جائے۔یوپی میں اردو میڈیم اسکول کب کے ختم کئے جا چکے ہیں۔ بعض پرائمری اسکولوں میں بحیثیت مضمون نام چارہ کو اردو پڑھا ئی جا رہی ہے اردو اساتذہ اور مترجمین کی کوئی بھرتی ملائم سنگھ کے بعد نہیں کی گئی جو ہیں ان کو دوسرے کام پر لگادیا گیا۔ فرض کریں اردو مسلمانوں کی زبان ہے تو بھی اس کو ختم کرنے کا کیا جواز ہے ؟۔ المیہ یہ کہ یوپی کے مسلم گھرانوں کے علاوہ بیشتر مسا جد، خانقاہوں، امام باڑوں اور قبرستانوں میں بھی اردو کا چلن ختم ہو رہا ہے ۔ ایسے میں محبّانِ اردو کو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے یوپی میں اردو کی بحث چھیڑ د ی ہے اور نیم جاں اردو کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی ہے۔