دنیا کی اہم زبانوں میں اردو کا بھی شمار ہوتا ہے۔ یہ زبان دنیا کے کئی ملکوں میں بولی جاتی ہے اور دنیا کی مقبول زبانوں میں اس کا ایک اہم مقام ہے۔ اس کے ایک سے زیادہ شاعروں بالخصوص غالبؔاور اقبالؔ کا شمار دنیا کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے تو ایک سے زیادہ ادیبوں بالخصوص منٹو، بیدی، کرشن چندر، قرۃ العین حیدر کا شمار دنیا کے بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ وطن عزیز ہندوستان کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ اردو یہیں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی ہے، اردو سے ہندوستان کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔ کئی ریاستوں نے اسے دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا ہے لیکن یہ درجہ دیے جانے کے باوجود ایسا لگتا نہیں ہے کہ یہ ان ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان ہے، کیونکہ اردو اکادمی قائم کر دینے سے ہی اردو کی آبیاری نہیں ہوسکتی۔ اردو والوں کو یہ محسوس بھی ہونا چاہیے کہ ان کی زبان کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں بلا تامل یہ بات کہی جائے گی کہ اترپردیش میں سرکاری اسپتالوں کے نام اب ہندی کے ساتھ اردو میں بھی لکھے جانے کی پہل ایک اچھی پہل ہے۔ یوپی کے تمام 167 سرکاری ضلع اسپتالوں، 873 کمیونٹی ہیلتھ سینٹرس اور 2934 بنیادی صحت مراکز کے نام اور ان مراکز کے افسران اور ملازمین کے نام کی تختیاں ہندی کے ساتھ اردو میں لکھے جانے کاحکم اناؤ کے محمد ہارون کی تحریری شکایت پر دیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر جائز تحریری شکایت کی جائے تو نتیجہ آتا ہے۔
یوپی سرکار کی پہل کا فائدہ ان لوگوں کو ملے گا جو صرف اردو جانتے ہیں یا اردو پڑھنے میں انہیں دیگرزبانوں کی بہ نسبت زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ اس سے خاص کر ان لڑکیوں اور خواتین کو آسانی ہوگی جنہوں نے گھر پر ہی تعلیم حاصل کی ہے اور اردو کے علاوہ دیگر زبانیں نہیں جانتیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ سرکاری ضلع اسپتالوں، کمیونٹی ہیلتھ سینٹرس اور بنیادی صحت مراکز کا نام ہندی کے ساتھ اردو میںبھی لکھا جانا لوگوں کے لیے راحت افزا ہوگا اور یو پی سرکار کی اس پہل کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان ریاستوں کی سرکاریں بھی اس طرف توجہ دیں گی جنہوں نے اردو کو اس کا جائز حق دلانے پر ابھی تک زیادہ توجہ نہیں دی ہے، انہیں اردو کی یاد اب انتخابات کے وقت بھی کم ہی آتی ہے، کیونکہ اردو کو جائز حق دلانے کے لیے پہلے کی طرح اب کم لوگ جدوجہد کرتے ہیں، اس پر بھی توجہ کم ہی لوگ دیتے ہیں کہ ان کی ریاست میں کتنے اردو میڈیم اسکول ہیں، ان میں پہلے کے مقابلے کتنے طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں، اردو اساتذہ کے لیے اسامیاں خالی تو نہیں ہیں، کسی اسکول میں اردو اساتذہ کی کمی تو نہیں ہے، اردو میڈیم اسکولوں میں لائبریری کی سہولت کیسی ہے، وہاں اردو کے کتنے رسائل اور کتابیں بچوں کو دستیاب کرائے جاتے ہیں، ان کی ریاست کی اکادمی بچوںکے لیے رسالہ شائع کر رہی ہے یا نہیں،کیونکہ بچے اگر اردو نہیں پڑھیں گے تو پھر اردوکو نئے قارئین بھی نہیں ملیں گے، اس کا اثر اردوصحافت پر بھی پڑے گا، اردو میں شائع ہونے والی کتابوں پر بھی اور ان لوگوں پر بھی جو اردو کے پروفیسر، ٹیچر یا مترجم بن کر لاکھوں، ہزاروں کما رہے ہیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ زبان لوگوں کے لگاؤ اور محبت سے زندہ رہتی ہے۔ کوئی زبان کسی انسان کو ترقی یافتہ نہیں بناتی، انسانوں کے کارنامے زبان کو اہم بناتے ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ سوچ رکھنے والے لوگ بھی ہیں کہ انگریزی کا سیکھ لینا ہی ترقی کی ضمانت ہے مگر ایسا ہی ہوتا تو پھر چینی، جاپانی، اطالوی، جرمن، فرانسیسی وغیرہ ترقی نہیں کرتے۔ چینی یا مینڈیرین، جاپانی، اطالوی، جرمن، فرانسیسی کو اہم ان کے بولنے والوں کے کارناموں نے بنایا ہے۔ ان مثالوں سے اندازہ یہ ہوا کہ زبان صرف ایک میڈیم ہے اور اس میڈیم کی اہمیت اس کے بولنے والوں کے کارناموں،ان کی محبت سے ہی بڑھتی اور مقبول ہوتی ہے۔ اردو والوں کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ اردو کے فروغ کے لیے سوشل میڈیا کا بہترین استعمال ہوسکتا تھا مگر صورت حال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر 5سے 10فیصد لوگ ہی اردو کو اس کے اصل رسم الخط میں لکھتے ہیں،ورنہ بقیہ سبھی لوگ اسے دیوناگری یا رومن میں لکھتے ہیں اور یہ اردو کے فروغ کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ اردو کے فروغ کے لیے سرکار کو جو کام کرنا چاہیے، وہ سرکار سے کرانے کی کوشش کریں مگر اس کے فروغ میں خود بھی رول ادا کریں۔ اگر آپ اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم میں پڑھاتے ہیں تو اردو بھی اس لیے سکھائیں، کیونکہ اردو کے ساتھ ہماری گنگا جمنی تہذیب وابستہ ہے اور اس تہذیب سے بھی ہندوستان کی شناخت ہے۔اس کے علاوہ ہمارا کافی تعلیمی، تہذیبی اور مذہبی سرمایہ بھی اس زبان میں موجود ہے۔
[email protected]
یوپی: اردو والوں کیلئے اچھی خبر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS