یوپی اسمبلی انتخابات اور ٹوپی-لنگی کی سیاست

0

شاہد زبیری

یوپی سمیت ملک کے 5 صوبوں کے اسمبلی انتخابات کی تاریخ قریب آ رہی ہے۔ انتخابی تیاریاں زور شور سے جا ری ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین مغر بی یو پی کی 71 اسمبلی سیٹوں کی تیاریوں کا جائزہ لینے 13 دسمبر کو میرٹھ آنے والے ہیں۔ اسی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے الفاظ کے تیرو نشتر کی دھار بھی تیز ہوتی جارہی ہے۔ ان صوبائی انتخابات کی جنگ کا اصل میدان یوپی ہے جہاں انتخابی جنگ کا بگل بج چکا ہے۔ ریلیوں کے سیلاب کے ساتھ ہی زہر آلود الفاظ کے تیروں کی بارش شروع ہو گئی ہے۔ کسی کو نہیں معلوم اس انتخابی فصل کو کون سی جماعت کاٹے گی لیکن جو سیاسی منظر نامہ ابھر رہا ہے، اس سے لگتا ہے کہ باز ی بی جے پی یا سماجوادی پارٹی میں سے کسی ایک کے ہاتھ رہے گی۔ ان انتخابات میںجہاں سماجوادی پارٹی کے لیے بظاہر کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے سوائے سیاسی ساکھ یا سیاسی مستقبل کے مگر بی جے پی کا بہت کچھ دائو پر لگا ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی کرسی سے لے کر وزیر اعظم کی کرسی تک۔ 12 دسمبر کو بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے وزیروں کی فوج کے ساتھ میرٹھ میں مغربی یو پی کی کمشنریوں میرٹھ، مرادآباد اور سہارنپور کے 14 اضلاع کی 71 اسمبلی سیٹوں پر کامیابی کے لیے 25 ہزار سے زائد پولنگ بوتھ کمیٹیوں کے صدور کے اجلاس کو خطاب کیا اور انتخاب میں کامیابی کے گُر بتا تے ہو ئے انہوں نے جناح اور گنا کا شوشہ بھی چھوڑا اور ٹوپی کا ذکر کرنا بھی وہ نہیں بھو لے۔ گنا سے اشارہ بی جے پی کے ایجنڈے اور جناح سے اکھلیش یادو کی طرف اشارہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں لال ٹوپی بھی کیسریا ٹوپی ہو جائے گی۔ انہوں نے وہ سب کچھ کہا جو بی جے پی کے دوسرے لیڈران بھی کہہ رہے ہیں۔ بی جے پی یہ ساری تگ و دو سیاسی زمین بچا نے کے لیے کر رہی ہے۔
یو پی کے سیاسی مطلع پر جو کچھ ابھر رہا ہے، اس سے یہ صاف ہو تا جا رہا ہے کہ اصل مقا بلہ بی جے پی اور سماجوادی پارٹی اور لوک دل کے متحدہ محاذ کے مابین ہو نے والا ہے۔ اسی لیے بی جے پی کے نشانے پر نہ اب کانگریس ہے اور نہ بی ایس پی، بی جے پی کا ہر چھوٹا بڑا لیڈر سماجوادی پارٹی کے خلاف تیر چلا رہا ہے اور وہی اس کے نشانے پر ہے۔ اسی لیے پہلے اکھلیش یادو کے جناح کے بیان کو بی جے پی نے خوب ہوا دی اور امت شاہ نے یو پی کی ایک ریلی میں ایک نئی سیاسی اصطلاح ’جام‘ (JAM) گڑھی اور کہا کہ یو پی کے عوام اس JAM، جس کا مطلب ’جے‘ جناح یعنی اکھلیش، ’اے‘ کا مطلب اعظم خاں اور عتیق احمد اور ’ایم‘ کا مطلب مختار انصاری، ان سے ہوشیار رہیں۔ اگر بی جے پی اقتدار میں واپس نہیں ہوئی تو یوپی میں پھر یہ تگڑی اقتدار پر قا بض ہو جائے گی۔ بات آگے بڑھی، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ’ابا جان‘ کہہ کر چڑھایا ، رام مندر کا ایشو ختم ہو نے کے بعد یو پی کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے کاشی اور متھرا کا شوشہ چھوڑا اور وہ ’جالی دار ٹوپی اور لنگی‘ تک پہنچ گئے۔
اب لڑائی لال ٹوپی تک پہنچ گئی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی نے سماجوادی پارٹی کی ’لال ٹوپی کو خطرہ کا سگنل‘ ٹھہرا دیا اور یہ جانتے ہو ئے بھی کہ لال رنگ کا مطلب صرف کسی خطرے کا سگنل یا الرٹ نہیں ہے، کچھ اور بھی ہے، لال رنگ انقلاب کی علامت بھی ہے اور زندگی کی بھی، اگر خون کا لال رنگ سفید ہو جا ئے اور خون کے سرخ خلیے (RBC ) کم پڑ جائیں یا خلیے سفید ہو جائیں تو زندگی خطرے میں پڑ جا تی ہے۔ ’لال ٹوپی‘کی اپنی ہندوستانی تاریخ بھی ہے۔ 1934 میں کانگریس سوشلسٹ پارٹی کی ٹوپی بھی لال رنگ کی تھی۔ سماجوادی پارٹی کے بانی ملائم سنگھ یادو معروف سوشلسٹ لیڈر ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے پیرو کا ر ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنی پارٹی کی ٹوپی کے لیے لال رنگ کا انتخاب کیا تھا جس سے وزیر اعظم الرٹ ہو نے کی ہدا یت یو پی کے عوام کو دے رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ’سب کا ساتھ سب کا و کاس اور سب کا وشواس‘ نعرہ لگانے والے وزیر اعظم نریندر مودی اوربی جے پی ’ٹوپی اور لنگی ‘کی سیاست کیوں کر رہے ہیں، کیوں کیرانہ اور مظفرنگر کے زخم ہرے کر نے کی ضرورت پڑ رہی ہے اور کیوں JAM یا ’ابا جان‘یاد آگئے؟ صاف ہے کہ بی جے پی کا نعرہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ چمک کھو چکا ہے۔ خاص طور پر یوپی میں یوگی سرکار جتنے ترقیاتی کاموں کے دعوے کر رہی ہے، عوام اس پر یقین نہیں کر رہے ہیں۔ ان کو مہنگا ئی کی مار جھیلنی پڑ ر ہی ہے، گیس سلنڈر، پٹرول اور ڈیژل عوام کی روزانہ کی ضروریات میں شامل ہیں جن کے داموں میں آگ لگی ہو ئی ہے، کورونا وبا کے دوران جو اذیتیں عوام نے جھیلی ہیں، جو مناظر انہوں نے دیکھے ہیں، وہ بھو لے نہیں ہیں۔ ان سب ایشوز سے دھیان ہٹانے کے لیے بی جے پی لوگوں کو پو لرائزڈ کر نے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ آزمودہ نسخے کا استعمال کرتے ہوئے ہندومسلم کارڈ کھیل رہی ہے اور ٹوپی، لنگی کی سیاست کر رہی ہے۔ اس کا ہندو مسلم کارڈ کتنا مؤثر ہوگا، یہ انتخابی نتا ئج بتا ئیں گے۔ لیکن اکھلیش یادو اور جینت چودھری کی جوڑی جس ہو شیاری اور سمجھداری سے اپنے پتے چل رہی ہے، بی جے پی کا جواب سنبھل کر دے رہی ہے، اس کا اندازہ اکھلیش یادو کے اس نئے نعرے سے بھی ہوتاہے، ’جو بڑھائے کھائی وہ بھاجپائی۔‘
اکھلیش یادو اور جینت چودھری کی میرٹھ کی ریلی میں امڈی بھیڑ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کی ریلی میں آئے لوگوں میں جوش و ولولہ تھا۔ وہ خود وہاں آئے تھے جبکہ یو پی میں وزیراعظم کی ریلیاں ہوں، سہارنپور میں وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ریلی ہو یا نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کی یا پارٹی کے صوبائی صدر ستیندر دیو سنگھ کی ریلیاں ہوں، ان میں بھیڑ بھی کم تھی اور جوش و ولولہ بھی کم نظر آیا۔ الزام ہے کہ یہ بھیڑ آئی نہیں تھی، لا ئی گئی تھی اور اس کے لیے سرکاری مشینری کا استعمال کیا گیا تھا اور سرکاری پروجیکٹوں کے افتتاح یا سنگ بنیاد کے بہانے عوام کی ریلیاں کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم آئے دن یوپی کے دورے کر رہے ہیں۔ مرکزی وزرا بھی دورے کررہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، بی جے پی یو پی کے انتخابی دنگل کو جیتنے کے لیے تنظیمی سطح پر بھی بہت کچھ کر رہی ہے۔ اس نے انتخابات کی کمان تین بڑے ہاتھوں میں سونپ دی ہے۔ وزیر دخلہ امت شاہ جو اب تک پارلیمانی انتخا بات کی دیکھ ریکھ کرتے تھے اور ملک بھر کے صوبائی انتخا بات پر نظر رکھتے تھے، ان کو مغربی یو پی کی کمان سو نپی گئی ہے۔ پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا کو مشرقی یوپی ( پوروانچل) اور وزیر دفاع راج ناتھ کو سینٹرل یو پی کی کمان دی گئی ہے۔ بی جے پی انتخابی مہم میں نئے پرا نے سارے حربے استعمال کر رہی ہے، پولرائزیشن کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ اسی لیے نئے نعرے گڑھ رہی ہے۔ ان نعروں کے ذریعے ڈھکے چھپے الفاظ میں اکھلیش یادو کی کامیابی کو مخصوص فرقے کی کامیابی اور اس کا ڈر دکھاکر انتخاب جیتنا چاہتی ہے۔ کسان تحریک اس کے لیے سوہان بنی ہوئی تھی، ہر چند کہ کسان تحریک ختم ہو گئی ہے لیکن اس کا سب سے نمایاں اور بڑا چہرہ مانے جا نے والے بھا رتیہ کسان یو نین کے لیڈر راکیش ٹکیت اور بھارتیہ کسان یو نین کے قومی صدر نریش ٹکیت یہ صاف کہہ چکے ہیں کہ کسان تحریک کسی نہ کسی شکل میں جا ری رکھی جا ئے گی اور کسانوں کے مسائل کی جنگ اس طرح لڑی جاتی رہے گی، تاہم ابھی یہ صاف نہیں ہے کہ کسانوں کی جوائنٹ کمیٹی نے 2022 کے انتخابات میں جو مشن یو پی اور اترا کھنڈ کا اعلان کر رکھا ہے، وہ جا ری رہے گا۔ البتہ مغربی یو پی کے جاٹ کسان اس غلطی کا شایداحساس کر چکے ہیں کہ انہوں نے 2017 کے صوبائی انتخابات اور 2019کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو بھر پور طاقت دے کر اور لوک دل کی قیادت کو کمزور کر کے خود کو کمزور کر لیا تھا۔ اسی لیے اب انہوں نے اپنا قبلہ درست کر لیا ہے اور جاٹ کسانوں کی اکثریت کے ساتھ مسلم کسان بھی لوک دل کے پالے میں چلے گئے ہیں۔ جینت چو دھری کی آشیرواد ریلیوں میں بھیڑ اس کا ثبوت ہے۔ مغربی یو پی میںلوک دل اور سماجوادی پارٹی جبکہ مشرقی یو پی میں سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی اور اپنا دل سے سماجوادی پارٹی کے اتحاد نے بی جے پی کی نیندحرام کر رکھی ہے۔ اگر بی جے پی کے لیے کوئی راحت ہو سکتی ہے تو وہ کانگریس اور بی ایس پی میں ووٹ کی تقسیم ہو یا پھر اویسی فیکٹر، ورنہ بی جے پی کو یو پی کی ہار کا خمیازہ پارلیمانی انتخابات میں بھی اٹھانا پڑسکتا ہے۔ اسی لیے سیاسی تجزیہ نگار اور سیاسی مبصر یہ کہنے سے قاصر ہیں کہ انتخابی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ بی جے پی اتنی آسانی سے اقتدار ہاتھ سے نہیں جانے دے گی۔ اس کے ساتھ سنگھ کا کیڈر بھی کھڑا ہے اور مضبوط تنظیمی ڈھانچہ اور سرکار کا دبدبہ بھی ہے جس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور غیر بی جے پی جماعتوں کوکسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چا ہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS