ریاست مہاراشٹر جہاں جوڑتوڑ کی سیاست زورشورسے چل رہی ہے ،اس سے یقینا بظاہر یا وقتی طور پر حکمراں اتحاد مضبوط نظر آرہا ہے اور اپوزیشن پارٹیاں خصوصاً مہاوکاس اگھاڑی میں شامل ادھوگروپ ، کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کافی کمزور ہوگئی ہیں ۔ان پارٹیوں کو سنبھلنے اورکھوئی ہوئی سیاسی زمین کو پھر سے حاصل کرنے کیلئے کچھ زیادہ ہی محنت کرنی پڑے گی ، لیکن ایک بات طے ہے کہ چاہے حکمراں اتحاد ہو یا اپوزیشن اتحاد دونوں میں یکساںبے چینی پائی جارہی ہے ۔اسی بے چینی کا نتیجہ ہے کہ ممبئی میںملاقاتوں کا دور جاری ہے ۔ ہرجگہ میٹنگ پہ میٹنگ ہورہی ہے ۔کبھی پارٹی ممبران اسمبلی کی میٹنگ اپنے لیڈرکے ساتھ ہورہی ہے ، تو کبھی پارٹی کے لیڈران کی ملاقات اورمیٹنگ دوسری حلیف پارٹیوں کے لیڈر کے ساتھ ہورہی ہے۔ ایسی میٹنگیں اورملاقاتیں کبھی دن میں توکبھی شام میں اورکبھی کبھی دیررات تک ہورہی ہیں ۔ان میٹنگوں اورملاقاتوں میں کیا باتیں ہورہی ہیں اورکیا طے ہورہاہے، اس کی تفصیل میڈیا میں تو نہیں آرہی ہے ،لیکن جو بھی ذرائع کے حوالے سے خبریں آرہی ہیں،ان سے کوئی بھی سمجھ سکتاہے کہ بی جے پی ہو یا شندے اوراجیت گروپ، کانگریس ہو یا شردپوار اورادھوگروپ سبھی کے قائدین اورممبران اسمبلی مستقبل کے تئیں فکرمندہیں ۔ کسی کو پارٹی کی فکر ہے تو کسی کو اسمبلی کی ممبرشپ کی۔ ایسے ممبران کی تعدادبھی کم نہیں ہے ، جو حکومت میں وزارت چاہتے ہیں ،اس کیلئے وہ پارٹی اورقائدپر دبائو ڈال رہے ہیں، لیکن ان کی خواہش پوری نہیں ہورہی ہے ۔ہر جگہ غیریقینی کیفیت اوربے چینی نظر آرہی ہے۔شیوسیناکی تقسیم کے وقت اتنی میٹنگیں نہیں ہوئی تھیں ، تاہم این سی پی کی تقسیم کے بعدمیٹنگوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ۔قیادت ممبران اسمبلی کی خواہشات اورعزائم کولے کر پریشان ہے ۔وزارتیں اور عہدے کم ہیں اوردعویدار بہت زیادہ ہیں ۔ظاہر ہے کہ نہ تو ہرکسی کی خواہش پوری کی جاسکتی ہے اورنہ ہی موجودہ جوڑ توڑ کی سیاست کے دورمیںکسی کو ناراض کیا جاسکتا ہے ۔
مہاراشٹر میں 4بڑی پارٹیاںبی جے پی ، شیوسینا، کانگریس اوراین سی پی ہیں۔ اقتدارہمیشہ ان ہی پارٹیوںکے اردگرد گھومتارہتاہے ۔ماضی میںایک اتحاد شیوسینا۔ بی جے پی کاتھااور دوسراکانگریس ۔این سی پی کاتھا۔اب اتحاد کی نوعیت بدل چکی ہے، کیونکہ 4میں سے 2 پارٹیاں شیوسینا اوراین سی پی تقسیم ہوچکی ہیں ۔باقی 2پارٹیاں بی جے پی اورکانگریس ابھی تک تقسیم سے محفوظ ہیں۔ وہ بھی اندیشے میں مبتلا ہیں۔ شیوسیناسے نکلے شندے گروپ اوراین سی پی سے نکلے اجیت پوار گروپ اپوزیشن کے خیمہ سے نکل کر بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے اقتدارمیں تو آگئے ،لیکن ان کی پریشانی کم نہیں ہوئی ۔وہ خود بھی پریشان ہیں اوراس جوڑ توڑ سے خوش رہنے والی بی جے پی میں بھی آج کل بے چینی پائی جارہی ہے ۔سب کی پریشانی کی وجہ ایک ہی ہے وزارت اورکرسی ۔جب تک این سی پی تقسیم نہیں ہوئی تھی ، حکمراں طبقہ کیلئے سب کچھ صحیح چل رہاتھا۔البتہ شندے گروپ کی نااہلی کے معاملہ سے بی جے پی پریشان تھی ، کیونکہ اگربشمول وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے اس گروپ کے 16 ممبران اسمبلی نااہل قراردے دیئے گئے، جیساکہ شیوسیناادھوگروپ امکان ظاہر کررہاہے توبی جے پی کاکھیل بگڑسکتا تھا، لوک سبھاانتخابات میں اسے نقصان ہوتا دکھ رہا ہے۔ این سی پی کی تقسیم سے قبل تک اپوزیشن اتحاد بی جے پی اتحاد سے زیادہ مضبوط نظر آرہا تھا۔این سی پی کی تقسیم سے وہ خطرہ تو دور ہوگیا،لیکن حکومت میں شامل 3پارٹیوں میں وزارت کے دعویدار بہت زیادہ ہوگئے اور سبھی کو اہم وزارتیں چاہئے۔ ایسے میں حکمراں اتحاد میں شامل ہر پارٹی یا گروپ کی شکایات بڑھنے لگی ہیں ۔ وزارت میں توسیع تو ہورہی ہے ، جس سے کچھ کی خواہش پوری ہوسکتی ہے ، لیکن باقی کا کیا ہوگا ۔
ریاست میں جوڑ توڑ کی سیاست کے بعد اب حالت ایسی ہوگئی ہے کہ وزیر اعلیٰ شندے کے استعفیٰ تک کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں۔نائب وزیراعلیٰ دیویندر فڑنویس اپنی پارٹی کے ممبران اسمبلی کومطمئن نہیں کرپارہے ہیں ۔شندے گروپ کے ممبران اسمبلی کو شکایت ہے کہ اہم وزارتیں اجیت پوار گروپ کے ممبران اسمبلی کو مل رہی ہیں اوربی جے پی کے ممبران اسمبلی کاکہناہے کہ جب بیشتروزارتیں اتحاد ی گروپوں کو مل جائیں گی تو انہیں کیا ملے گا۔ظاہر سی بات ہے کہ جب موقع پرستی کی سیاست بڑھے گی توہر کوئی اپنا مفاد دیکھے گا اوریہی مفاد مصیبت بنے گا ۔ایسے میں کہا جاسکتا ہے کہ جب اپوزیشن پارٹیوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہے تو یہ حالت حکمراں اتحاد کو بھی کون سے چین میں بیٹھنے دے گی ۔
[email protected]
مہاراشٹرمیں بے چینی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS