غیرضروری سیاسی ہنگامہ

0

جمہوریت کے 4ستونوں میں سے عدلیہ ہی واحدایساستون ہے ،جسے عوام کی آخری امید کہاجاتاہے ۔جب لوگوں کی بات کہیں نہیں سنی جاتی ، تووہ عدلیہ سے رجوع کرتے ہیں اور انصاف کی امیدکرتے ہیں۔ خودسرکاریں اپنے فیصلوں کیلئے کورٹ جاتی ہیں اوراس کے فیصلوں کو مانتی ہیں ۔عام آدمی تو دورکوئی بھی سرکار کبھی نہیں کہتی کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانے گی، کیونکہ ایک سسٹم بناہوا ہے ، جس میں سب کی ذمہ داریاں تقسیم ہیں اورحدود متعین ہیں۔ ان ہی ذمہ داریوں اورحدود کے تحت ملک چلتا ہے ۔اگر وہ سسٹم نہیں رہے ، تو انارکی پھیل جائے گی ۔جمہوریت میں کسی بھی فیصلہ پر تبصرے کی گنجائش ہے ، لیکن وہ تبصرہ ایسانہیں ہوناچاہئے کہ کسی ادارے یا اتھارٹی کا وقار مجروح ہو،سسٹم کی بنیاد اورجمہوریت کے ستون ہلنے لگیں ۔اسی لئے جب کوئی غلط تبصرہ آتاہے ،یابلاوجہ عدلیہ کو سیاسی جھگڑوں میں گھسیٹا جاتاہے ،تو ہر کسی کیلئے ناقابل قبول ہوتاہے اوروہ اس کے خلا ف آواز اٹھاتاہے ، بلکہ کارروائی کی مانگ کرتاہے ۔حال ہی میں سپریم کورٹ نے تملناڈومیں گورنر کے ذریعہ ریاستی اسمبلی سے پاس بلوں کوروکنے کے معاملہ میں اہم فیصلہ سنایاتھا،اورتمام بلوں کوگورنر کے دستخط کے بغیر منظور قراردیتے ہوئے بلوں پر گورنر اورصدر جمہوریہ کے دستخط کیلئے ایک ڈیڈلائن مقرر کی تھی ۔سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کوئی ایسی بات نہیں تھی ، جس کیلئے اسے نشانہ بنایا جائے اورحملہ کیا جائے ، لیکن وقف(ترمیمی ) قانون پر سماعت کے دوران تملناڈو سے متعلق فیصلہ کو بنیادبنا کر اچانک سپریم کورٹ کو جس طرح ٹارگیٹ کیا گیا اور سنگین باتیں کہہ کر اسے ایک طرح سے نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی ،وہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی۔سپریم کورٹ کے خلاف سیاسی بیانات سے ہرکوئی سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ آخر ملک میں کیا ہورہا ہے اوریہ کدھر جارہا ہے ؟کیا کوئی فیصلہ اگر کسی کو پسند نہیں آئے گا ، تو وہ سپریم کورٹ کے خلاف بیانات کے ذریعہ مہم چلائی جائے گا؟
سپریم کورٹ کے خلاف بیان بازی کی شروعات نائب صدرجمہوریہ جگدیپ دھن کھڑ سے ہوئی ، جو خود ایک آئینی عہدہ پر فائزہیں ۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ صدر جمہوریہ کو ہدایت کیسے دے سکتاہے ؟ہم ایسے حالات نہیں لاسکتے ، جہاں صدر کو حکم دیا جائے ۔انہوں نے عدلیہ کے اختیارات سے متعلق آئین کی دفعہ 142کے بارے میںکہا کہ یہ دفعہ جمہوری قوتوں کے خلاف ایک نیوکلیائی میزائل بن گیا ہے ، جو 24گھنٹے عدلیہ کے پاس رہتا ہے۔ وقف معاملہ کو لے کرمرکزی وزیر کرن رجیجونے بھی کہا تھاکہ مجھے پورا یقین ہے کہ سپریم کورٹ قانون سازی کے معاملہ میں مداخلت نہیں کرے گا،ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے ،کل کو حکومت سپریم کورٹ میں مداخلت کرتی ہے ، تو اچھا نہیں ہوگا۔ اختیارات کی تقسیم اچھی طرح سے بیان کی گئی ہے ، اس لے مقننہ اورعدلیہ کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔ نائب صدر اورکرن رجیجوکے بیان پر بھی ہنگامہ ہوا۔لیکن اصل ہنگامہ اس وقت ہوا، جب بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے سپریم کورٹ پر سخت تنقید کی اوریہاںتک کہہ دیا کہ اگرسپریم کورٹ قانون بنائے گا ، توپارلیمنٹ ہائوس کو بندکردینا چاہئے ، یہی نہیں انہوں نے ملک میں جاری خانہ جنگی کیلئے چیف جسٹس آف انڈیاسنجیوکھنہ کوذمہ دارٹھہرادیا۔بیانات کاسلسلہ آگے بڑھنے لگا اورسوشل میڈیاسائٹ ’ایکس ‘سپریم کورٹ پر تنقید ٹرینڈکرنے لگی ۔جب اس پر اپوزیشن نے سرکاراوربی جے پی کوگھیرااور معاملہ سپریم کورٹ پہنچا، توبی جے پی کے صدرجے پی نڈاکوآگے آکر نہ صرف وضاحت پیش کرنی پڑی ، بلکہ یہ بھی کہناپڑاکہ نشی کانت دوبے اوردنیش شرماکے بیانات ان کی ذاتی رائے ہے، ان سے پارٹی کاکوئی تعلق نہیں ہے۔ مسٹرنڈاکی صفائی پیش کرنے سے پہلے ایسے بیانات سے ملک میں جو پیغام دینامقصود تھا، وہ چلاگیا، اس لئے حالات میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔پہلے ہی پارٹی لیڈروں کو قابل اعتراض بیانات دینے سے روکاجاتا۔
عدلیہ خاص طور سے سپریم کورٹ کوئی سیاسی اتھارٹی نہیں ہے ، جو بھی چاہے ، کسی بھی تناظر میں اس پر تنقیدیاحملہ کرنے لگے۔آئین کے تحت ہی مقننہ اور عدلیہ کو اختیارات ملے ہیں ۔ جب حکومت یاآئینی اتھارٹی ان اختیارات کو استعمال کرسکتی ہے ، توعدلیہ کے استعمال کرنے پر اعتراض نہیں ہوناچاہئے ۔ہم یہ کیوں نہیں سوچتے ہیں کہ جن فیصلوں پر لوگ تنقید کرتے ہیں ، وہ عدلیہ کیلئے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتے ۔ اگرہر کوئی اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنے عمل کا تجزیہ کرے ، تواس طرح کی صورت حال ہی نہیں پیداہوگی۔بڑے لیڈروں کوغیرضروری بیان بازی سے پرہیز کرناچاہئے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS