مطلقہ مسلم خواتین کے نان و نفقہ پر غیر ضروری بحث : شاہد زبیری

0

شاہد زبیری
مطلقہ مسلم خاتون کے نان ونفقہ پر سپریم کورٹ کے جسٹس وی پی ناگ رتنا اور جسٹس آگسٹن جارج مسیح کی دورکنی بنچ کے دیے گئے حالیہ فیصلہ سے مطلقہ مسلم خواتین کے نان و نفقہ پھر سے غیر ضروری بحث چھڑ گئی ہے ۔گرچہ اس پر تادمِ تحریر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ یا کسی ملی جماعت یا اس کے کسی ذمہ دار کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا سوائے نیم ملاّئوں، یاخود ساختہ دانشوروں کے جن میں بی جے پی سرکار کی فیض یافتہ اور مودی سرکار اور سنگھ کی کمیٹیوں اور ذیلی تنظیموں سے وابستہ مسلم خواتین بھی شامل ہیں یہ سب فیصلہ پر لن ترانیاں کررہے ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا جس کو آج کل گودی میڈیا کے نام سے پکارا جا تا ہے وہ بھی اسی کام پر لگا ہوا ہے ماسوا اردو اخبارات اور ملی ٹیوب چینلوں کے ۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کی جوخاص خاص باتیں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق تمل ناڈو کے عبد الصمد کی درخواست پر سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنا یا ہے۔ فیملی کورٹ نے عبدالصمد کو اپنی مطلقہ بیوی کو 20 ہزار روپے گزارا بھتہ (نان و نفقہ) ہر ماہ دینے کا حکم دیا تھا اس نے اس کے خلاف ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جہاں سے10,000 ہر ماہ ادا کئے جا نے کا فرمان سنا یا گیا جس کے خلاف عبدالصمد نے سپریم کورٹ کے دروازہ پر دستک دی اور اپنی عرضی میں کہا کہ اس کی مطلقہ بیوی سی آر پی سی کی دفعہ 125کے تحت گزارہ بھتہ ( نان و نفقہ) کی حقدار نہیں ہے۔سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے اس عرضی کو خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں کہا کہ ’ ہم کریمنل اپیل کو اس لیے خارج کرتے ہیں کہ سی آر پی سی کی دفعہ 125تمام خواتین پر نافذ ہو تی ہے ‘ سپریم کورٹ کی فاضل بنچ نے یہ بھی واضح کیا کہ مطلقہ مسلم خاتون نے اگر اسپیشل میرج ایکٹ 1954 کے تحت شادی کی ہے اور اسی ایکٹ کے تحت طلاق لی ہے تواس مسلم مطلقہ کو اس ایکٹ کے تحت جو حل دیا گیا ہے اس کے علاوہ بھی سی آر پی سی کی دفعہ 125کے تحت گزارا بھتہ(نان و نفقہ)پانے کی حقدار ہے اپنے فیصلہ میں بنچ نے یہ بھی وضاحت کی کہ اگر مسلم خاتون نے مسلم پرسنل لاء کے مطابق شادی کی اور طلاق ہوئی ہے تو اس پر سی آرپی سی کی دفعہ 125اورمسلم پرسنل لاء ایکٹ 1986دونوں کا نفاذ ہو گا وہ دونوں قوانین کے تحت راحت کا مطالبہ کر سکتی ہے بنچ نے یہ بھی کہا کہ خاتون کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ دونوں میں سے کسی ایک قانون کے تحت راحت مانگ سکتی ہے ۔بنچ نے کہا کہ اگر مسلم خاتون1986کے قانون کے تحت عرضی دیتی ہے تو اس عرضی پراسی قانون کے تحت فیصلہ دیا جائے گا۔ ایک ساتھ طلاقِ ثلاثہ پر بنچ نے کہا کہ ایسی خاتون کو مسلم خاتون کو طلاق کے پروٹیکٹشن آف رائٹس ایکٹ 2019 کی دفعہ 5کے تحت گزارا بھتہ ( نان و نفقہ) لینے حق حاصل ہے علاوہ ازیں دفعہ 125 کے تحت بھی گزارا بھتہ ( نان ونفقہ) مانگ سکتی ہے ۔
اس فیصلہ پر انسٹی ٹیوٹ آف مسلم لاء کے ڈائریکٹر اور ماہر قانون انور علی ایڈوو کیٹ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے اس تازہ فیصلہ میں کچھ بھی نیا نہیں ہے جس پر بغلیں بجا ئی جا ئیں یا اس پر انگلی رکھی جائے۔ ان کے مطابق مشہور و معروف قانون داں دانیا ل لطیفی کیس میں سپریم کورٹ اس پر پہلے ہی اپنی مہر لگا چکا ہے ۔اس تازہ بحث نے 1986 کے شاہ بانو کیس کو بھی زیر بحث لا دیا ہے ۔شاہ بانو کے حق میں سپریم کورٹ کے دیے گئے فیصلہ میں ہی دفعہ 125کے تحت ان کے شوہر محمد احمد کو گزارا بھتہ ( نان و نفقہ) دینے کی بات کہی گئی تھی جس کے بعد مسلمانوں میں ہیجان واضطراب پیدا ہو گیا تھا یا پیداکردیا گیا تھاجس کے نتیجہ میں سڑکوں پر مسلمانوں کا سیلاب امڈ آیا تھااور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ملک بھر میں تحریک شروع کردی تھی جوآزاد ہندوستان میں اب تک کی ایسی پہلی اور آخری تحریک تھی جس کے نتائج دور رس ثابت ہو ئے اوراس وقت کی راجیو گاندھی سرکار کو اس تحریک کے آگے جھکنا پڑا اور پارلیمنٹ سے1986 کا ایکٹ پاس ہوا اس تحریک کے منفی اور مثبت اثرات پر بھی ملک میں کافی بحث چل چکی ہے۔اس تحریک کے ناقدین اس تحریک کو بی جے پی اور ہندو تنظیموں کے طاقتور ہونے اور ہندو احیاء پرستی کے فروغ کا سبب مانتے ہیں اور بابری مسجد کی شہادت کا ٹھیکرا بھی اس تحریک کے سر پھوڑتے ہیں۔ یاد رہے کہ عارف محمد خاںاس وقت وزیر کا بینہ تھے جو 1986کے ایکٹ کے خلاف تھے اور انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے حق میں وزرات سے استعفیٰ دے دیا تھا جو ان کی سیاسی ایمانداری تھی یہ اور بات کہ عارف محمد خان اس کے نتیجہ میں ملک میں اٹھی سیاسی گرد میں وقتی طور گُم ہو گئے تھے ۔ یہ الگ بحث ہے یہاں اس کی تفصیل میں جاننے کا موقع نہیں۔ 6 198 ایکٹ کے پاس ہونے سے قبل اس بل پر پارلیمنٹ میں جو بحث ہوئی تھی اس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے حق میں اور اس کے خلاف بھی تقاریر ہوئی تھیں دونوں طرف سے دلائل کے انبار لگا دیے گئے تھے ۔ اس وقت کی ایم پی اور سابق صدرِ جمہوریہ فخرالدین علی احمد کی اہلیہ عابدہ احمد کی پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر 13جولائی 2024کے ہندی روزنامہ نے شائع کی ہے جس میں عابدہ احمد نے اپنے مضبوط دلائل کے ساتھ اپنی بات پیش کی ہے اور مسلم پرسنل لاء اور 1986کے بل کی حمایت کی ہے انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی دفعہ 125 پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’’ ماں باپ کی نظر میںان کی بیٹی ان کی لخت جگر اورنورِ نظر ہے آخر طلاق کے بعد اس آدمی کے سامنے وہ ہاتھ کیوں پھیلائے جو اس کیلئے اب اجنبی ہے ایک غیر مرد ہے ؟اپنی تقریر میں انہوں نے سوال اٹھایا کیا عورت کی کوئی عزت نہیں ہے ،کوئی غیرت نہیں ہے ؟انہوں نے کہا کہ سیکشن 125کے تحت شاہ بانو کیس میں جو فیصلہ کیا گیا اس سے عورت کو بالکل نیچے گرادیا گیا ،کون غیرتمند عورت ایسی ہوگی جو شریعت کے دیے ہوئے اونچے درجہ چھوڑ کر ایک بھکارن بن جا نے کو گوارہ کرے اور ایک غیر مرد کے ٹکروں پر پلے ۔ انہوں نے اس فیصلہ کے تحت ملنے والے گزارہ بھتہ کی رقم پر بھی سوال اٹھا یا تھا اور کہا کہ سیکشن 125کے تحت ملنے والی رقم کی جو حد ہے وہ محض 500 روپے ہیںلیکن شریعت میں اس کی کوئی حد نہیں ہے انہوں نے اپنی تقریر میں 1986کے بل کی حمایت کرتے ہو ئے کہا کہ یہ بل شریعت پر بیسڈ ہے ۔ عابدہ احمد نے ان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا جو 1986کے بل کی مخا لفت کر رہے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ مخالفت کررہے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ مسلم عورت کو مہر ملے ، جائیداد میں حصہ ملے ۔کیا یہ ہمدردی ہے،ایسی ہمدردی کی عورت کو ضرورت نہیں۔ـ ـانہوں نے اپنی تقریر کا اختتام بل کی تائید کے ساتھ کیا تھا۔ سپریم کور ٹ کے تازہ فیصلہ کو لے کر آج پھر وہی پرانی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔ بنچ کے حالیہ فیصلہ کو گودی میڈیا اس کو سیکولرزم کی جیت بتا رہا ہے ۔ اس کی نظر میں تین طلاق قانون کے بعد یہ دوسرا بڑا قدم ہے جو مسلم خاتون کے حق میں اٹھایا گیاہے ،اس سے دوسرے طبقوں کی خواتین کی طرح مسلم خواتین بھی فیضیاب ہونگیں ان کے خیال میں اس فیصلہ سے مسلم خواتین میںاپنے حقوق کے تئیں بیداری آئے گی اور اپنے حقوق کی لڑا ئی لڑنے کا حوصلہ پیدا ہو گا ۔ دھیان رہے جب شاہین باغ کی خواتین اپنے حقوق کی بیدار ی کا ثبوت دے رہی تھیں تو یہی میڈیا ہذیان میں مبتلاتھا اور ہفوات بک رہا تھا ۔
انو راگ جیسے وزیر مغلظات بک رہے تھے ،گولی مارنے پر بھیڑ کو اکسا رہے تھے ۔آج مودی سرکار سے فیض یافتہ اور خود ساختہ دانشور وں کا ٹولہ اپنی دانشوری کے زعم میں اس فیصلہ کولے کر گودی میڈیا کے چینلوں پر مودی سرکار کی مسلمانوں پر عنایا ت اور نوازشوں کا بہی کھاتہ کھول کر بیٹھا ہے اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کو بھی مودی سرکار کے کارناموں میں شمار کررہا ہے اور’حق ِنمک‘ ادا کرنے کیلئے نہ جا نے کہاں کہاں کے قلابے ملا رہاہے اس ٹولہ نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر غیر ضروری بحث چھیڑ ی ہوئی ہے اور’ بیچاری مسلم خواتین کی زبوں حالی‘پر بھی ٹسوے بہائے جارہے ہیں۔بس اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ :ہوئے تم دوست جسکے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS