دہلی کی اروند کجریوال حکومت نے دارالحکومت میں اَن لاک کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دہلی حکومت نے کہا ہے کہ راجدھانی میں 7 جون سے آڈ اور اِیون کے فارمولے پر مارکیٹوں کو کھولنے کی اجازت ہوگی مگر دوا اور ضروری اشیا کی دکانیں ساتوں دن کھولی جاسکیں گی۔ بازار صبح 10 بجے سے 8 بجے رات تک کھولنے کی اجازت ہوگی۔ نئی گائیڈ لائنز کے مطابق 50 فیصد ملازمین کے ساتھ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کو کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔ 7 جون سے 50 فیصد صلاحیت کے ساتھ میٹرو ٹرینیں چلانے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ یہ اعلان لوگوں کے مفاد میں ہے، کیونکہ لاک ڈاؤن کے طویل عرصے تک کھنچنے پر لوگ بھلے ہی کورونا سے محفوظ رہیں مگر ان کے لیے کئی اور مسئلے پیدا ہو جائیں گے، خاص کر روزانہ کمانے والے لوگوں کے لیے زندگی اجیرن بن جائے گی۔ اَن لاک کا عمل شروع کرنے سے بسوں میں لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، بھیڑ بڑھے گی۔ یہ دیکھتے ہوئے میٹرو ٹرین چلانے کا فیصلہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ اس سے لوگوں کو راحت بھی ہوگی اور ’دوگز دوری، ماسک ہے ضروری‘ سلوگن پر لوگوں کو عمل کرانا بھی آسان ہوگا، البتہ میٹرو ٹرینوں کو جلدی جلدی چلانا چاہیے، کیونکہ زیادہ تاخیر سے میٹرو ٹرینوں کے آنے سے لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میٹرو انتظامیہ کے لیے بھی ’دو گز دوری‘کا لوگوں سے خیال رکھوانا آسان نہیں ہوتا۔
دہلی میں کورونا وائرس بڑی حد تک کنٹرول میں ہے۔ یہاں21 مئی سے ہی روزانہ کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 5 فیصد سے کم رہنے لگی تھی اور ایسا دو ہفتے تک رہنے پر ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا کو کنٹرول میں سمجھا جاتا ہے۔ یعنی کجریوال حکومت نے کورونا وائرس پر صحت کے عالمی ادارے کے ضابطے اور حالات کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد ہی اَن لاک کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کجریوال حکومت کی سمجھداری ہی ہے کہ اس نے اچانک اَن لاک کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ ایسا کرنے سے لوگ یہ سمجھ سکتے تھے کہ حالات بالکل ہی قابو میں ہیں، تشویش کی کوئی بات نہیں ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کورونا نے بار بار یہ احساس دلایا ہے کہ اسے ہلکے پن سے لینا ٹھیک نہیں۔ اسے کنٹرول میں رکھنے اور اس کے مہلک اثرات سے بچنے کے لیے احتیاط کے ساتھ ہی زندگی بسر کرنی ہوگی۔ اس سے مستقل طور پر نمٹنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے خلاف ریسرچ یا ہیلتھ کیئر سسٹم کو تیار کرنے کا بہتر وقت وہ مانا جائے جب اس کے اثرات کا دائرہ سمٹنے لگے۔ پہلی لہر کے بعد حکومتوں نے موقع گنوا دیا تھا مگر ایسا لگتا ہے کہ دوسری لہر نے کورونا کی سنگینی کا احساس دہلی کی کجریوال حکومت کو دلا دیا ہے۔ اس نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ دارالحکومت میں ہیلتھ کیئر سسٹم کو اتنا بہتر بنانا ہوگا کہ کورونا پھر کبھی سنگینی کا احساس دلائے تو دہلی والے پریشان نہ ہوں، انہیں جانیں نہ گنوانی پڑیں، چنانچہ اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ کورونا وائرس کی اقسام کا پتہ لگانے کے لیے ایل این جے پی اسپتال اور انسٹی ٹیوٹ آف لیور اینڈ بیلیئری سائنس میں جینوم ٹیسٹنگ لیب قائم کیے جائیں گے۔ خوانخواستہ اگر کورونا کی تیسری لہر آتی ہے اور وہ شدت اختیار کر لیتی ہے تو اس کے عروج پر پہنچنے پر دہلی میں روزانہ کورونا متاثرین کے 37,000 معاملے آسکتے ہیں۔ کجریوال حکومت چاہتی ہے کہ اسی مناسبت سے بستروں، آئی سی یو بیڈس، ادویہ کا انتظام رکھے۔
دہلی کے وزیراعلیٰ کجریوال کا کہنا ہے کہ ’دہلی میں 450 میٹرک ٹن آکسیجن رکھنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ 25 آکسیجن ٹینکر خریدے جا رہے ہیں اور 64 آکسیجن آلات نصب کیے جا رہے ہیں۔ ماہرین اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کارآمد دوائیں بتائے گی اور کووِڈ-19 کے علاج میں استعمال ہونے والی دواؤں کا اسٹوریج رکھا جائے گا۔‘اسی طرح کی تیاری مرکز اور دیگر ریاستوں کو بھی کرنی چاہیے۔ دو باتیں نظر انداز نہیں کی جانی چاہئیں۔۔۔۔ پہلی یہ کہ کورونا سے دنیا کو ابھی نجات نہیں ملی اور دوسری یہ کہ دوسری لہر سے بہتر طور پر نہ نمٹنے کے لیے لیڈران چاہے کچھ بہانے بھی بنا لیں مگر اگر کوئی تیسری لہر آتی ہے، اس سے بہتر طور پر نہیں نمٹ پاتے تو انہیں یہ بات مان لینی چاہیے کہ کورونا چلا جائے گا مگر ان کے سیاسی کریئر پر اس کے اثرات باقی رہیں گے اور جنہوں نے اپنوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہو، انہیں باتوں سے بہلانا مشکل ہی نہیں، ناممکن سا ہوتا ہے۔
[email protected]
اَن لاک کا اعلان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS