ڈاکٹر ریحان اخترقاسمی
محسنِ انسانیت سرسید احمدخاں 1857ء کی بغاوت میں مسلمانوں کی تباہی وبربادی اورذلت ورسوائی کے منظرنامہ کے چشم دیدگواہ تھے،کہ جوقوم وعروج کے اعلیٰ منصب پرفائز تھی اور حکومت واقتدار جن کے سامنے سرنگوں تھا۔جس قوم کاجاہ وجلال اورعظمت ورفعت بے مثال تھی۔اچانک اس قوم کے لوگ محکوم ومحروم کیسے ہوگئے؟ یہ تمام حالات وکوائف سرسیداحمد خاں کی آنکھوں میںنقش تھا۔ سرسید احمدخاں کویہ غم اندوہ اندرہی اندرکھائے جارہاتھا کہ ہم اپنی قوم وملت کی خوشحالی کودوبارہ کیسے واپس لائیں اوران کی مفلوک الحالی کوفارغ البالی میں کیسے تبدیلی کریں؟انہوں نے تمام ترحالات کاجائزہ لیتے ہوئے اس نتیجے پرپہونچے کہ قوم کوابھرنے کااوربلندمقام دلانے کاواحدذریعہ تعلیم ہے۔سرسیدنے اس نسخۂ کیمیاکوکامیابی وکامرانی کاشاہ ِ کلید قراردیا۔
مصلحِ قوم سرسید احمدخاں ملک کوخوشحال اورامتِ مسلمہ کے نونہالوں کے چہروں پرخوشی ومسرت کانور دیکھناچاہتے تھے۔کیونکہ انہوں نے ملک وملت کوسماجی واخلاقی اورمعاشی وتعلیمی طورپر بحرانی کیفیت پر دیکھا تھا۔اسی وجہ سے انہوں نے علم وہنر اورجدید تعلیمی نظام کیساتھ جدید رہائشی نظام اوراقامت گاہوں کے نظام کو نونہالوں کے لئے شاہِ کلید قراردیا۔
بانی ٔ درسگاہ اگرجدید تعلیمی نظام کافتح وکامرانی کاپہلا زینہ قراردیتے ہیں تواس سے کہیں زیادہ ان کے یہاں قوم کے نونہالوں کی تربیت پربھی نگاہ تھی۔ان کامانناتھا کہ حصولِ علم طلباء کوباوقار بناتی ہے اوران کی تربیت باعزت ہونے کاثبوت فراہم کرتی ہے۔اپنے ایک خطاب میں سرسیدعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’میرے عزیزو! تعلیم کے ساتھ اگرتربیت نہ ہو اورجس تعلیم سے قوم،قوم نہ بن سکے وہ تعلیم درحقیقت کچھ قدر کے لائق نہیں ہے‘‘۔
سرسید احمدخان ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’تربیت سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں میں قومیت اورقومی اتحاد وہمدردی جواول سیڑھی ہے قومی ترقی کے لئے قائم رہے۔اس کے لئے ہمیں کیا کرناہے۔سب سے مقدم یہ کرناہے کہ وہ مسلمان رہیں اورمذہبِ اسلام کی حقیقت ان کے دل میں قائم رہے اس کے ضروری ہے کہ ہم ان کوانگریزی تعلیم کیساتھ ان کومذہبی تعلیم بھی دیں اورعقائدِ مذہبی ان کوسکھائیں اورجہاں تک ہوسکے ان کو فرائض ِ مذہبی کاپابندرکھیں‘‘۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اقامتی ہالوں (دارالاقامہ) کاتصور بڑاہی جداگانہ ہے یہ خصوصیت و امتیاز سرسیداحمدخاں کے زمانے سے ہے۔اس تربیتی نظام پرروشنی ڈالتے ہوئے الطاف حسین حالی نے بڑی نصیحت آمیز گفتگو کی ہے جو ہمارے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوسکتی ہے۔انہوں نے لکھاہے کہ:
’’ہمارے یہاں تربیت ِ اولاد کاآلہ زیادہ ترتعلیم وتلقین،نصیحت وپند،زجروتوبیخ یازدوکوب کوسمجھا جاتاہے،مگر یہ تمام وسائل جب تک کہ لڑکے ایک معتدبہ زمانہ تک عمدہ سوسائٹی میں نہ رہیں ،اکثر صورتوں میں محض فضول اوربیکار ثابت ہوئے ہیں…ہمارے لڑکے جب کسی درسگاہ میں آتے ہیں توبجائے اس کے کہ ان کو کچھ سکھایا اوریادکرایاجائے زیادہ تراس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ جوکچھ وہ اپنے گھروں سے سیکھ کرآئے ہیں ۔اس کوبالکل ان کے دلوں سے بھلادیاجائے…جیسے مذہبی تعصبات،باہمی نزاع،رشک وحسد،غیبت وبدگمانی،کاہلی،تن آسانی،تضیع اوقات،ادائے قرض میں سستی کرنا،غصہ ،بے اعتدالی، نافرمانی وغیرہ…انہیں خرابیوں کے تدارک کے لئے محمڈن کالج میں بورڈنگ سسٹم قائم کیا گیا ہے ۔مگرپہلے اس سے کہ ہم اس سسٹم کے فوائد اوریہ کہ اس کاطلبہ کی تربیت میں کیادخل ہے بیان کریں یہ سمجھ لیناچاہئے کہ جس طرح تعلیم کے نتیجے اعداد کے ذریعہ دکھائے جاسکتے ہیں۔اسی طرح تربیت کے نتائج نہیں دکھائے جاسکتے۔نیز تعلیم کااثر دفعتہ اورنمایاں ہوتا ہے اورتربیت کااثرنامعلوم اوربتدریج ہوتاہے۔جس طرح دھوپ اورہوااورپانی کی تاثیر سے پودے جوریشہ ریشہ نشونما پاتے ہیں ۔ان کو نموکرنامالی کے سواہر شخص کوفوراً محسوس نہیں ہوتا ۔اسی طرح تربیت کے نتائج بدیہی طورپر ایک مدت کے بعدظاہر ہوتے ہیں۔چونکہ کالج اوربورڈنگ ہائوس کوقائم ہوئے کچھ بہت عرصہ نہیں گذرا ،اس لئے یہاں ہم کو زیادہ تریہ دکھانا مقصود ہے کہ محمڈن کالج میں مسلمان طلبہ کی تربیت کاکیاسامان مہیاکیاگیاہے۔وہ کہاں تک ان کی حالت کے مناسب ہے اورآئندہ اس سے کن نتائج کی توقع ہوسکتی ہے‘‘۔
الطاف حسین حالی کی تحریروں کے حوالے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ابتدائی زمانے میں دارالاقامہ(بورڈنگ سسٹم) میں ایک ایسے ماحول کوتیار کرنے کی کوشش کی گئی کہ تمام طلبہ ایک ضابطۂ اخلاق پابندہوں۔سرسید ؒ کے ہم عصروں میں اورخود سرسیدؒ کے نزدیک سب سے اہم بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمانوں کے جومختلف النوع طبقات ہیں جن کے بچے اس نسلی تعصب کااٹوٹ حصہ رہے ہیں جب وہ اس ادارہ کاحصہ بنیں تووہ تمام گروہی ونسلی ثقافت سے بالاتر ہوکرایک مسلم قوم کاتصور دیں۔اوربہت حدتک علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اسی میں کامیاب بھی نظر آتی ہے۔ایک مضمون میںنورالحسن نقوی نے بڑی خوبصورت تصویرکشی کی ہے ۔مدرسۃ العلوم کے بورڈنگ سسٹم پرکہ کن اسباب وجوہ کوسامنے رکھتے ہوئے اس نظام کو ترتیب دیاگیاتھا:
’اقامتی زندگی روزِ اول سے محمڈن کالج کی امتیازی خصوصیت تھی،یہاں مختلف علاقوں کے طلبہ کے مل جل کر رہنے،شائستہ آداب ِ معاشرت کی تعلیم حاصل کرنے اوراتفاق واتحاد کا سبق سیکھنے کا موقع فراہم تھا،ہاسٹل میں رہنے سے اساتذہ وطلبہ کے درمیان قریبی تعلق قائم ہوتاتھا اورطلبہ کواپنے اساتذہ کی نگرانی میں صبح سے شام اورشام سے صبح تک ایک منظم اور باقاعدہ اوربامعنی زندگی گذارنے کاموقع ملتا تھا۔سرسید کوکالج کی اقامتی زندگی پر ناز تھا۔ طلبہ سے اکثر کہاکرتے تھے کہ یہ اجتماعی زندگی ایک ایسی کتاب ہے جس کامطالعہ تمہاری زندگیوں کوسنوارنے میں بے حد مددگار ہوگا‘‘۔
نورالحسن نقوی نے اپنی کتاب میں ایک جگہ دارالاقامہ میں سرسید کی وفات کے بعدطلبہ کی تعداد کے بارے میں لکھاہے کہ:
’’سرسید کی وفات کے تقریباً بارہ سال بعدبورڈنگ ہائوس میں رہنے والے طلبہ کی تعداد 455 تھی‘‘۔
اللہ رب العزت کاشکر ہے کہ یونیورسٹی اپناصدسالہ جشن منارہی ہے اورسرسید کے مشن کوان کے خواب کوشرمندئہ تعبیر کرنے کے لئے رات دن محنت ولگن کیساتھ کوشش بھی کررہی ہے کہ سرسید احمدخاں کے بتائے ہوئے اصولوں پرصدفیصد کامیاب نظرآئے۔اورآج اس یونیورسٹی کے بورڈنگ ہائوس میں کم وبیش 28ہزار طلبہ تعلیم وتربیت سے فیض یاب ہورہے ہیں۔اوریونیورسٹی انتظامیہ کی دلچسپی ہے کہ ہمارے طلبہ دوسری یونیورسٹی کے طلبہ سے ممتاز رہیں۔ اس کے لئے مکمل پورے سال جدوجہد کرتی رہتی ہے،اوراپنی اس کوشش میں کامیاب بھی نظر آتی ہے۔
اس وقت یونیورسٹی میں طلبہ کی اقامت گاہیں بہت ہی منظم ہیں ،ان کے رہن سہن،اخلاق،عادات واطوار اورقیام وطعام کامستقل نظام ہے۔ان اقامت گاہوں (ہالوں ) کی تفصیل کچھ اس طرح ناظرین کے لئے پیش ہے:
ہال اورہاسٹل کے نام:
(1) سرسید ہال نارتھ:[ہاسٹل :ایس ایم ایسٹ اَپر،ایس ایم ایسٹ لور،عثمانیہ اَپر،عثمانیہ لور،ایس ایم این(A)، ایس ایم این(B)،سینٹرل اَپر،سینٹرل لور]سب سے پہلے پرووسٹ[پروفیسر محمدحبیب صاحب]تعداد طلبہ:900
(2) سرسید ہال سائوتھ:[ہاسٹل: ویسٹ ونگ،ویسٹ ہاسٹل،ایسٹ ونگ،ایسٹ ہاسٹل،نظیرہاسٹل،لطیف ہاسٹل] سب سے پہلے پرووسٹ(پروفیسر نفیس احمد )تعدادطلبہ:934
(3) آفتاب ہال:[ہاسٹل:ماریسن کورٹ،ممتاز ،آفتاب ،مکیڈانل]سب سے پہلے پرووسٹ[پروفیسر محمدحبیب صاحب] تعداد طلبہ:674
(4) سرضیاء الدین ہال :[ہاسٹل: رشید احمدصدیقی،محمدعمرفاروق،دھیان چند،ظفر احمد صدیقی] سب سے پہلے پرووسٹ[پروفیسر سیداختر حسین زیدی ، تعداد طلبہ:434
(5)وقارالملک ہال:[ہاسٹل: نصراللہ ،جبلی،میرس،مزمّل] سب سے پہلے پرووسٹ[ڈاکٹر عبد الما جد قریشی ] تعداد طلبہ:600
(6)محمدحبیب ہال:[ہاسٹل:چکرورتی،عمرالدین،حیدرخان] سب سے پہلے پرووسٹ[پروفیسر عبد الما جد صدیقی] تعداد طلبہ:705
(7)بی بی فاطمہ ہال: سب سے پہلی پرووسٹ[پروفیسر شگفتہ علیم] تعداد طلبات:195
(8)سروجنی نائیڈوہال:[ہاسٹل:نرسنگ ۔تعداد:54]سب سے پہلی پرووسٹ[ڈاکٹر سکینہ اے حسن] تعدادطالبات:300
(9) سرراس مسعودہال: [ہاسٹل: صدریارجنگ،اسمٰعیل خان،عبدالمجید،حبیب الرحمن]سب سے پہلے پرووسٹ[پروفیسر مصطفی خان] تعداد طلبہ: 759
(10) محسن الملک ہال: [ہاسٹل: امین،مولانا محمدعلی جوہر،حالی،شبلی،سیفی،مجاز]سب سے پہلے پرووسٹ[ڈاکٹر ایم ایچ قدوائی] تعداد طلبہ:1175
(11) ندیم ترین ہال:سب سے پہلے پرووسٹ[پروفیسر مسعودانورعلوی] تعداد طلبہ:400۰
(12) ہادی حسن ہال:[ہاسٹل:و لی محمد،سیدین،خواجہ حمید،پی جی ہاسٹل]سب سے پہلے پرووسٹ [پروفیسر ابرار مصطفی خان] تعداد طلبہ:500
(13)سرشاہ سلیمان ہال:[ہاسٹل:کشمیر ہائوس، آغا خان، حسرت موہانی،بھوپال ہائوس،جے کشن، محمود آباد، قدوائی ہائوس]سب سے پہلے پرووسٹ[پروفیسر رشیداحمدصدیقی] تعداد طلبہ:635
(14) عبداللہ ہال:[ہاسٹل:ممتاز جہاں،عزیزالنساء،سلطان جہاں،وحیدجہاں قدیم وجدید،ڈورمیٹری،بی اماں ہاسٹل]سب سے پہلی پرووسٹ[وحیدجہاں بیگم] تعداد طالبات: 1313
(15) عزیز النساء ہال: [ہاسٹل:سکندرجہاں بیگم،حمیدہ حبیب اللہ،قدم بینی گانگولی،بیگم حضرت محل،آنینا بلسنٹ،مادا کاما]سب سے پہلی پرووسٹ[پروفیسر صبوحی خان] تعداد طالبات:1500
(16) علامہ اقبال ہال:[ہاسٹل:Aبلاک،Bبلاک] موجودہ انچارج [مسٹرغفران احمد] تعداد طلبہ:892
(17) اندراگاندھی ہال:سب سے پہلی پرووسٹ[پروفیسر نجمہ کریم اللہ] تعدادطالبات:701
(18) بیگم سلطان جہاں ہال:[ہاسٹل:ونگ۔اے،بی،سی ،ڈی] تعداد طالبات:412
(19) این،آر،سی ہال:یہ ہال ان طلبۂ عزیز کے لئے ہوتاہے جن کی ہال میں اقامت گاہ نہیں ہوتی ہے۔
(20) بھیم رائو امبیڈیکر ہال:[ہاسٹل:اے بلاک لور،اینڈاَپر،جی بلاک لوراینڈاَپر،انیکسی]سب سے پہلے پرووسٹ[پروفیسر مشھر رضا ]تعداد طلبہ:478
ان قیام گاہوں کامقصد بھی بہت ہی اعلیٰ ترین تھا۔اس اعلیٰ مقصد کے حصول میں طلبہ کا اقامت گاہوں میں قیام بہت ہی ناگزیر تھا،ہالوں کی اہمیت وافادیت پرروشنی ڈالتے ہوئے الطاف حسین حالیؒ نے بڑی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔جس کومختصراً ناظرین کی خدمت میں پیش کیاجارہاہے۔اس سے ہمارے لئے بھی اورذمہ دارانِ ہال کے لئے منصوبہ بندی کرنے میں مزیدآسانی پیداہوگی۔جوطریقۂ کار مستقبل کی منصوبہ بندی کاپیش خیمہ ثابت ہو۔حالیؒ نے لکھاہے کہ :
’’(1) قومیت کاخیال: سب سے زیادہ ضرورت مسلمانوں کی موجودہ اورآئندہ نسلوں میں اتفاق ویکجہتی وقومی ہمدردی پیداکرنے کی ہے جس کے نہ ہونے سے تمام قوم روز بروز مضمحل اورتباہ وبرباد ہوتی جاتی ہے ، ان میں اتفاق پیداکرنے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ ان کی نسلیں اتفاق کے سایہ میں نشوونما پاتیں اوریہ تب ہی ممکن ہے جب وہ ایک مدت تک مختلف خاندانوں ،مختلف صوبوں اورمختلف مذھبوں کے لڑکے ایک ہال میں کھانا کھائیں۔ایک کالج میں پڑھیں اورایک احاطہ میںدن رات سگے بھائیوں کی طرح شیروشکر ہوکررہیں اوراس طرح اتفاق کی حلاوت ماں کے دودھ کی طرح ان کے رگ وپے میں سرایت کرجائے۔
(2) ریاضتِ جسمانی: ریاضت ِ جسمانی جس کاسامان محمڈن کالج میںہندوستان کے تمام کالجوں سے زیادہ مہیا کیاگیاہے…اس لئے اس کازیادہ اہتمام کیاگیاہے کہ جوطالب علم یہاں سے نکلیں وہ قوم میں مستعدی اورجفاکشی کی مثال ہوں اور سستی اورکاہلی جومسلمانوں کی ایک قومی خصلت کہی جانے لگی ہے بجائے اس کے وہ ان میں چستی وچالاکی کی بنیاد ڈالیں…جب وہ کالج کو چھوڑیں تولکھنے پڑھنے کے سواوہ دنیا کے تمام کاموں کے لائق ثابت ہوں۔
(3) وقت کاخیال: ایک اورفائدہ بورڈنگ سسٹم سے طالب علموں کے لئے سمجھا گیاکہ بورڈنگ ہائوس میں رہنے سے ان کوضبطِ اوقات کی عادت پڑتی ہے۔ہندوستان میں سب سے زیادہ مسلمانوں کی اولاد تضیع اوقات کرنے والی مشہور ہے…وقت کی پابندی بھی وعظ ونصیحت سے یاکتابوں میں اس کی خوبیاں پڑھنے سے یاکسی نفع کی امید یانقصان کے خوف سے نہیں ہوتی۔بلکہ ایک مدت تک اس کی مشق کرنے سے ہوتی ہے۔محمڈن کالج کے بورڈنگ ہائوس میں جوصغیرسن لڑکے ایک الگ وارڈ میں رہتے ہیں۔ان کی ابتداء ایسی ڈالی ہے جس سے امیدہوتی ہے کہ وہ کالج سے نکل کر ہمیشہ اوقات کے پابند رہیں گے۔
(4)اطاعت کی مشق: شریفانہ اورباقاعدہ اطاعت وفرمانبرداری جوہرقوم کااورخاص کر محکوم قوم کازیور ہے اس کی عادت ڈلوانے اورمشق کرانے کے جوذرائع اس بورڈنگ ہائوس میں موجود ہے ظاہراً ہندوستان کے کسی انسٹیٹیوشن میں موجود نہیں ہیں۔محمڈن کالج کے بورڈنگ ہائوس میں رہنے سے مسلمانوں کی اولاد ایک ایسی خصلت سیکھتی ہے ،جس پران کی تمام آئندہ کامیابیاں منحصر ہیں۔
(5) قومی لباس کاخیال: اس کے سوامسلمانوں میں قومیت کاخیال پیداکرنے کے لئے ایک اورچیز کی ضرورت ہے جس کو آج تک ہندوستان کے عام مسلمانوں نے قابل التفات نہیں سمجھا۔حالانکہ وہ ایک نہایت مہتم بالشان مسئلہ ہے ۔’’لباسؔ‘‘ جس کی نسبت ہمارے بزرگوں کایہ قول تھاکہ’’اَلنَّاس باللِّبَاس‘‘ اورجس سے ایک قوم کی دوسری قوم سے تمیز کی جاتی ہے۔ہندوستان کے مسلمانوں نے اس میں کوئی امتیاز نہیں رکھا ،اسی سبب سے سرسید ؒ کو ہمیشہ یہ خیال رہاہے کہ ہندوستان کے مسلمان بھی اورقوموں کی طرح اپنے لباس میں کوئی خصوصیت رکھیں اورمابہ الامتیاز پیداکریں۔اس لئے انہوں نے مسلمانوں کی ایک معزز ترین قوم یعنی ترکوں کا لباس اول خود اختیار کرکے قوم میں ایک مثال قائم کی اورپھرمحمڈن کالج کے بورڈروں کے لئے اس قاعدہ کے موافق جس پرقسطنطنیہ کی درسگاہوں میں عملدرآمد ہے۔یونی فارم کاقاعدہ جاری کرنے کاارادہ کیا۔مگربعض موانع کے سبب وہ قاعدہ جاری نہ ہوسکا۔لیکن محمڈن کالج کے طالب علم جوبورڈنگ ہائوس میں آکر رہتے ہیں بغیرکسی جبر کے اپنے ہم چشموں کودیکھ خودبخود ٹرکش لباس اختیار کرلیتے ہیں۔جوعلاوہ خوش قطع اورخوشنما ہونے کے ہرموسم اورہرحالت کے مناسب اورقواعد حفظ وصحت کے بھی موافق ہے،اورجب وہ کالج کوچھوڑ کرجاتے ہیں اوروہی لباس اپنے گھرمیں اپنے وطن میں پہنتے ہیں تواکثر قوم کے نوجوان ان کادیکھا دیکھی وہی لباس اختیار کرلیتے ہیں اوراس طرح محمڈن کالج ہندوستان کے مسلمانوں میں آہستہ آہستہ ایک قوم لباس کورواج دے رہاہے‘‘۔
بورڈنگ ہائوس کے نظام میں جن امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ امور یقینا آج کے حالات میں اس کی معنویت کہیں زیادہ ہے۔سرسید احمدخان ؒ اور ان کے ہم عصروں نے جس طرح کانظام تربیت دینے کی کوشش کی تھی وہ آج بھی افادیت واہمیت کاحامل ہے اوریہ مندرجہ بالا امور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کی شناخت بھی ہے اور دوسروں اداروں سے یہاں کے فارغین کوممتاز بھی کرتی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بورڈنگ ہائوس میں رہنے سے آج بھی بہت کچھ سیکھنے کوملتاہے۔آج بھی اس ادارہ میں مختلف المذاہب اورمختلف الفکر طلبہ کااجتماع ہوتاہے۔اوروہ طلبہ اپنے کسی بھی حرکات وسکنات سے یہ ظاہر نہیں ہونے دیتے ہیں کہ وہ کس مذہب ،کس ذات،کس ملک،کس صوبہ اوربرادری سے تعلق ہے۔روم سے لیکر ڈائننگ ہال تک،کلاس روم سے مولانا آزادلائبریری تک،کرکٹ کے میدان سے لیکر رائیڈنگ کلب تک،سرسید ڈے کے ڈینر سے ہال پروگرام تک بس وہ ایک لڑی میں پروئے ہوئے رہتے ہیں کہ ہم بس علیگ ہیں اورسرسید کے خوابوں کے امین ہیں۔یہاں طالب علموں کی تہذیب وثقافت ان کی زبان کی شیرینی،ان کااندازِ تکلم،ان کااپنے سینئرس کاادب واحترام،اپنے اساتذہ کاحددرجہ ادب،یہ سب اپنے بزرگوں کے بتائے ہوئے بورڈنگ ہائوس ضابطوں کامرہون منت ہے۔اگر ان میں کہیں کوئی کمی نظرآتی ہے تو ہم کو غوروفکر کرکے اس کے ازالہ کی تدبیر کرنی ہوگی،تاکہ اس یونیورسٹی کے اقامتی ہالوں کی انفرادیت برقرار رہے۔اورسرسید احمدخانؒ نے جس طرح کے خواب اقامتی ہالوں کے سلسلے میں دیکھا تھااس کوتمام ذمہ داران کوپوری کرنی ہوگی اورگاہے بگاہے اپنے محسنین کے اصول وضوابط پرنظر ثانی کرنی ہوگی تاکہ یہ ادارہ پوری دنیا کے لئے ایک مثال ثابت ہو۔
نورالحسن نقوی نے اقامتی ہالوں سے ہونے والے تہذیبی وثقافتی نشوونما پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’محمڈن کالج کے زمانۂ قیام سے لیکر آج تک اس تعلیمی ادارہ میں طلبہ وطالبات کی مکمل تعلیم اورہمہ جہت تربیت گویاشخصیت کی مکمل نشوونما اوران کی جملہ صلاحیتوں کافروغ منتظمین کا مطمح نظر رہاہے۔مختلف ادارے ،انجمنیں اورتنظیمیں اس مقصد کوحاصل کرنے کے لئے مصروف کاررہی ہیں۔لٹریری کلب،ڈراما کلب،میوزک کلب،فائن آرٹ کلب اورفلم کلب سرگرم عمل رہتی ہیں۔اورمذہبی رجحان کوزندہ رکھنے کے لئے جلسۂ سیرت النبیﷺ اورسیرت کمیٹی کے ذریعہ دینی حمیت کوبرقرار رکھنے کاعمل جاری رہتاہے۔اس کے علاوہ اسکولوں ،کالجوں،شعبوں اورہالوں میںبھی ایسی انجمنیں قائم ہیں جوطلبہ کو علمی، ادبی، جسمانی،روحانی،مذہبی،قومی اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور ان سے لطف اندوز ہونے کاپورا موقع فراہم کرتی رہتی ہیں‘‘۔
سرسید احمدخان کی تعلیمی نظریات اوراقامتی ہالوں نے جس قسم کے مسلمان طلبہ پیداکئے تھے،اس کی مثال ہفتہ وار’’صدق‘‘(لکھنؤ)کے مرحوم مدیرایڈیٹرمولانا عبدالماجددریابادیؒ کی زبانی سنئے۔انہوں نے لکھاتھا:
’’غالباً 1898 کاذکر ہے۔سرسید کی وفات یاتوہوچکی تھی یاعنقریب ہونے کوتھی۔علی گڑھ کی شہرت کرکٹ کے میدان میں ہندوستان گیرہوچکی تھی کہ ایک کرکٹ میچ،سول سروس والوں کے مقابلہ میں نینی تال میں قرارپایا۔میچ شروع ہوااور اتفاق کہ جمعہ کادن تھا۔سول سروس ٹیم کھیل رہی تھی اورعلی گڑھ کھلارہی تھی۔علی گڑھ کے شہرئہ آفاق بائولر اشفاق باؤلنگ کررہے تھے۔ایک مرتبہ جواشفاق نے گیند پھینکنے کے لئے ہاتھ اٹھایا تویکایک نمازِ جمعہ کی اذان کی آواز کان میں آئی۔معاً بلا توقف اس کااٹھاہواہاتھ نیچے گرگیا۔اشفاق نے اتنا بھی نہ کیا کہ بائولنگ پوری کرلیتا۔سول سروس والے اس پابندی احکام پرعش عش کراٹھے‘‘۔یہ تھے’’نیچری‘‘ سرسید کی درسگاہ کے تعلیم وتربیت یافتہ نوجوان۔فرمائیے؟سرسید کے خلاف طعن وتشنیع کے تیر برسانے والے ہزار ہاتھ اشفاق کے اس گرنے والے ہاتھ پر نچھاور کئے جاسکتے ہیں یانہیں؟۔‘‘
hamsraihan@gmail.com
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS