عبدالعزیز
مشہور فقہائے اربعہ، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ کی وہ علمی آراء (جو قرآن وسنت کے نصوص کی تفہیم اور احکام خداوندی کی تشریح میں منقول ہیں) کو مسلک سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چونکہ ان کی آراء میں باہم اختلاف ہے اور اسی وجہ سے ان کے متبعین میں بھی اختلاف رونما ہوتا ہے، جس کی وجہ سے امت مسلمہ کئی گروہوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ تا ہم ائمہ مجتہدین کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ قصور، در اصل بعد میں ہونے والے ان کے متبعین کا ہے۔ فقہائے کرام اور ائمہ مجتہدین نے قرآن و سنت پر غور خوض کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مطلوب و منشا کو پانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس پر وہ اَجر کے مستحق ہیں، مگر کسی امام کا یہ دعویٰ نہیں تھا کہ حق اسی کے مسلک میں محصور ہے اور دوسرے ائمہ کا قول غلط ہے۔ لہٰذا میرے ہی مسلک کی ہر حال میں اتباع کو لازم سمجھا جائے اور دوسرے مسلک کی مخالفت کی جائے، مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ انھوں نے ایک امام کی تقلید کو ہر حال میں واجب قرار دے لیا ہے اور دوسرے مسلک کے قول کی مخالفت کو ضروری سمجھ لیا ہے۔ اس کی وجہ سے مسلکی عصبیت پیدا ہوئی اور ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی گئی۔ مسلمانوں میں مسلکی عصبیت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ اس سے کئی اسلامی تعلیمات مجروح ہونے لگی ہیں۔
قرآن مجید میں سارے مومنوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے، مگر مسلکی عصبیت نے لوگوں کو بتایا کہ یہ ساری تعلیمات اپنے ہم مسلکوں سے متعلق ہیں اور دوسرے مسلک والوں سے ویسا ہی معاملہ کرنا بجا ہے جیسا کہغیرمسلموں اور ذمیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسلام نے غیرمسلموں اور ذمیوں تک کے بھی حقوق بتائے ہیں، مگر مسلکی عصبیت اس سے بھی آگے بڑھ گئی اور اَب دوسرے مسلک والے اس کے بھی مستحق نہ رہے کہ ان سے ذمیوں جیسے سلوک کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ لڑائی اور فساد کی کیفیت ہے اور اس کی وجہ سے بعض لوگ سرے سے مسلک کو ہی انتشارِ ملت کا سبب قرار دے رہے ہیں۔
اس وقت اتحاد، عالمِ اسلام اور مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ ہے اور تمام ضرورتوں و ترجیحات پر برتری اور اہمیت رکھتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اتحاد کی ضرورت کو نہیں سمجھتے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کا اتحاد ایک ناقابل انکار ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو فرقہ وارانہ تنگ نظری، گروہی تعصب اور قومی و نسلی امتیازات کی بنا پر معرض وجود میں نہیں آ سکی، جبکہ سامراجی ملکوں کی سازشیں بھی مسلمانوں کو متحد ہونے سے روکنے میں موثر رہی ہیں۔ بے شک حالیہ صدیوں میں مسلمانوں کی عدم پیش رَفت اور پسماندگی کا سبب اختلافات اور آپسی تفرقے ہیں۔ ان کے قومی اور مذہبی اختلافات نے انہیں مختلف قوموں سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جب دوسرا عیسوی ہزارہ شروع ہوا تھا تو مسلمان علمی اور سائنسی لحاظ سے سب سے پیش رفتہ تھے۔ ان کے شہر علم و سائنس و صنعت و تجارت کا مرکز سمجھے جاتے تھے۔ مسلمان علماء اور دانشوروں کو اس زمانے کا راہنما مفکر سمجھا جاتا تھا۔ عالم اسلام سیاسی، اقتصادی اور علمی و سائنسی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ آج عالم اسلام کی اس شوکت و عظمت کو کیا ہوا؟ مسلمانوں کی وہ یکجہتی کہاں گئی؟ مسلمانوں کی عظمت، عزت و سربلندی سب کچھ اختلافات کی نذر ہو گئی۔ اگر مسلمان تعلیماتِ وحی پر کاربند رہتے اور اپنے سیاسی و سماجی اتحاد کی حفاظت کرتے تو ان کا آج یہ حشر نہ ہوتا۔ آج بھی اگر مسلمان ایک پرچم تلے آ جائیں اور اپنے اختلافات پر بے سود وقت ضایع کرنے کے بجائے تھوڑا سا وقت امت کی فلاح و بہبود کیلئے نکالیں تو آج بھی ایک عظیم طاقت کے طور پر نمایاں ہو سکتے ہیں۔ ہمارے علماء اور دانشوروں کا فریضہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو اتحاد و یکجہتی کی اہمیت سے آگاہ کریں۔
اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم کی ترقی اور اعلیٰ اہداف کے حصول نیز سربلندی اور کامیابی میں معجزانہ کردار رکھتا ہے۔ آج اسلام کے دشمن متحد اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ہے۔ اسلام کے دشمنوں کا اتحاد اسی نکتے کی افادیت سے بخوبی آگاہی پر مبنی ہے اور انہوں نے اسلام کو مشترکہ دشمن قرار دے کر اسے اپنے سامراجی اہداف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا ہے اور اسی بنا پر دشمنوں نے اپنے تمام نظری، نسلی، علاقائی اور سیاسی اختلافات بھلا کر ایک دوسرے سے نزدیک ہو کر اسلام کو مٹانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنے تمام تر بڑے شدیدمسلکی اختلافات بھلا کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہو کر کام کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ عیسائی جو یہودیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اب اس الزام کو بھلا بیٹھے ہیں اور آپس میں متحد ہو کر اسلام کے خلاف میدان میں کود پڑے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تمام اسلامی فرقوں کے درمیان بنیادی و اعتقادی قدریں مشترک ہیں۔ اسلامی عقائد کا سارا نظام انہی مشترک بنیادوں پر استوار ہے۔ مسلمانوں میں سے کو ئی بھی نہ تو کسی اور نبی یا رسول کی شریعت کا انکار کرتا ہے نا ہی اسلام کے سوا کسی اور دین کو مانتا ہے۔ سب مسلمان توحید و رسالت، وحی اور کتب سماوی کے نزول، آخرت کے انعقاد، ملائکہ کے وجود، حضورؐ کی خاتمیت، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃکی فرضیت وغیرہ جیسے مسائل پر یکساں ایمان رکھتے ہیں۔ اگر کہیں کو ئی اختلاف ہے تو صرف فروعی حد تک اور وہ بھی ان کی علمی تفصیلات اور کلامی شروحات متعین کرنے میں ہے، کیونکہ اس سے عقائدِ اسلام کی بنیادوں پر کو ئی اثر نہیں پڑتا۔ جب کو ئی اثر نہیں پڑتا تو آخر کیا وجہ ہے کہ ایک خدا، ایک نبی، ایک کتاب، ایک دین اور ایک کعبہ کے ماننے والوں کے درمیان دینِ الٰہیہ کی سر بلندی کیلئے اتحاد و یگانگت کے لازوال رشتے قائم نہ کئے جاسکے اور ’’ملت واحدہ‘‘ کا تصور ایک زندہ جاوید حقیقت نہ بن سکے ؟
قرآن مجید مسلسل لوگوں کی ضمیروں کو جھنجوڑ رہا ہے کہ تم ایک ملت اور ایک ہی دین کیلئے منتخب کئے گئے ہو۔’’(خالقِ کائنات نے ) تمہارے لیے وہی دین مقر ر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور (جو بذریعہ وحی) ہم نے تمہاری طرف بھیج دی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا ‘‘۔
منافرت – یہودی ہتھکنڈہ: تاریخی حقائِق سے معلوم ہوتا ہے کہ آپس میں اختلاف پیدا کرنا یہود و نصاریٰ کا پرانا طریقہ ہے کیونکہ یہودی حضرت موسیٰؑ کے بعد فرقوں میں بٹ گئے اور عیسا ئی حضرت عیسیٰؑ کے بعد فرقوں میں! قیامت یہ ہے کہ مسلمان، اتنی ہدایتوں کے باوجود حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے، جس کا سبب یہی ہے کہ مسلمان تو ضرور ہیں، لیکن صحیح معنوں میں اسلام و تسلیم کو سمجھے ہی نہیں، اگر سمجھ گئے ہوتے تو اس کے نافذ کردہ قوانین پر عمل پیراں ضرور ہوتے اور اس طرح فرقوں میں نہ بٹتے !اور اس کے قوانین سے ہرگز سرتابی نہ کرتے، اس لیے کہ جب رہبر انسانیت، ہادی برحق سرکار دو عالمؐ، منجی بشریت، محبوب خدا، حضرت محمد مصطفیؐ نے رشتہ اخوتِ میں باندھ دیا تھا تو پھر اس سے فرار کیسا!قریش و انصار جو ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے جب ان میں حضور دو عالمؐ نے محبت و الفت پیدا کر دی تو پھر ہمارے درمیان افتراق کیسا؟ہمارا تو کبھی دشمنی کا سابقہ ہی نہیں رہا! ہم تو شروع سے ہی ایک دوسرے کے معاون و مددگار رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ ’’ اتحاد‘‘ ایسی شئے ہے کہ نہ فقط عالم انسانیت سے بلکہ اگراسے پوری کائنات سے چھین لیا جائے تواس و سیع عالَم کا نظام منٹوں میں درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ آپس میں اختلاف پیدا کرنا گویا ایک شخص کا زہر کو کھا لینے کی مانند ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ زہر کشندہ ہے اور جسم کے اعضاء کو پارہ پارہ کر دیتا ہے یادوسری مثال بجلی کی ہے، ہر عاقل انسان اس سے واقف ہے، کبھی غلطی سے بھی اسے ہاتھ نہیں لگاتا کہ ہاتھ لگاتے ہی یہ پٹخ دیتی ہے، اس کے باوجود اگر کوئی اسے چھوئے تو لامحالہ اسے اس کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا۔ اسی طرح مسلمان یا تو اسلام و اتحاد سے واقف نہیں یا پھر واقف ہونے کے باوجود کسی خاص غرض جیسے بغض و عناد، کفر و نفاق، جاہ و منصب طلبی کے پیشِ نظر اسلام دشمن عناصر کی دسیسہ کاریوں میں مبتلا ہو جا تے ہیں اور آیات و روایات کے پیغام سے سر تابی اور غفلت برتتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان انتشار و افتراق کو ہوا دینے لگتے ہیں۔ وہ قرآن کی تلاوت تو کرتے ہیں لیکن اس کی حقیقت ان کے دلوں میں رسوخ نہیں کرتی اوراس کی نورانیت ان کے قلوب کو جلا نہیں بخشتی۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن مجید جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، انسان کو ہر بے راہ روی سے روکتا ہے، خوف خدا ایجاد کرتا ہے، انسان کے مادی و معنوی مسائل کو حل کرتا ہے، پر ایمان رکھنے کے باوجود کوئی اتحاد سے غافل رہے۔ واضح رہے کہ اسلام کی اصل عقلی اور فکری ہونے کے ساتھ ساتھ عملی بھی ہے۔ چنانچہ صرف وہی عقیدہ اسلامی اہداف کی تکمیل کرتا ہے جو عمل کے ہمراہ ہو ورنہ محض عقیدہ جو عمل سے عاری ہو، انسان کو ہدایت سے سر شار نہیں کر سکتا۔
تقویٰ و برادری (اخوت)دو ایسے اصول ہیں جن کی پیروی میں امت مسلمہ کی نجات مضمر ہے، ہر متقی انسان اتحاد پسند بھی ہو گا؛ کیونکہ تقویٰ و اتحاد دونوں حق کا لازمہ ہیں اور افتراق کا تعلق باطل سے ہے۔ ان دو چیزوں (تقویٰ و اخوت )سے انحراف کرنا گمراہی، ضلالت، ذلت، رسوائی، خونریزی، پراگندگی، تفرقہ بندی، ایک دوسرے پر تہمت و الزام تراشی وغیرہ میں مبتلا کر سکتا ہے۔ چنانچہ جب ایک منصف مزاج انسان فرقہ بندی کی تاریخ اٹھا کر دیکھتا ہے تو اس کے سامنے یہی دو چیزیں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں؛ کیونکہ صدر اسلام میں آپسی، خاندانی، فکری اور ذہنی اختلافات کے باوجود سب کا مرکز اطاعت اور محور عقیدت ایک ہی ذات تھی جو صاحب قرآن، محبوب خدا اور سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفیؐ تھے۔ جس کی بنیاد پر جنگیں اس طرح سر کی گئیں کہ اس دور میں مٹھی بھر مسلمان ہزارہا دشمنانِ اسلام پر حاوی تھے، لیکن آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد اب تک جب شخصیات کے نام پر مختلف دبستانِ فکر معرض وجود میں آنے لگیں تو اطاعت و عقیدت کے یہ مرکز و محور بھی تبدیل ہو گئے اور یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیے کا آغاز شروع ہوا‘‘۔
mail:[email protected]
اتحادِ امت وقت کی اہم ضرورت : عبدالعزیز
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS