قطر پر اسرائیل نے حملہ کر دیا تو دوحہ میں عرب اور مسلم ملکوں کا سربراہ اجلاس بلا لیا گیا۔ مسلم ملکوں کے اتحاد کی باتیں کہی جا رہی ہیں۔ قطر کی طرف سے اس طرح ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے جیسے وہ اسرائیلی حملوں کے لیے تیار نہیں تھا مگر اسرائیل نے اس سے پہلے لبنان، شام، ایران پر حملوں سے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ غزہ جنگ کا دائرہ غزہ تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ اس کے باوجود قطر کو شاید یہ امید تھی کہ اس کے اسرائیل سے اچھے تعلقات ہیں، دوحہ میں امریکہ کا فوجی اڈہ ہے، ڈونالڈ ٹرمپ حال ہی میں دورے پر آئے تھے تو اس نے ایک ٹریلین سے زیادہ کی تجارت اور سرمایہ کاری کا یقین دلایا تھا، اس لیے اس پر کوئی اسرائیلی حملہ نہیں ہوگا۔ اسرائیل، قطر سے تعلقات کا خیال رکھے گا۔ اس نے نہیں رکھا۔ قطر کے سربراہ نے شاید یہ بھی سوچا ہوگا کہ دوحہ میں امریکہ کا فوجی اڈہ ہے تو اسرائیل قطر پر حملے کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ اب اس نے کتنی بار سوچا، سوچا بھی یا نہیں، معلوم نہیں۔ اسی سال جون میں امریکہ کو جواب دینے کے لیے ایران نے قطر میں العدید ایئر بیس پر میزائلوں سے حملہ کیا تھا تو امریکہ نے جوابی حملہ کرنے کے بجائے اسرائیل سے ایران کی جنگ ختم کرانے میں دلچسپی لی تھی۔ اب اسرائیل نے قطر پر حملہ کیا ہے تو اسرائیل پر امریکہ حملہ نہیں کرے گا، قطر اگر ایسا کرنا چاہے گا تو اسے بھی نہیں کرنے دے گا۔ امریکہ کے لیے اسرائیل سے زیادہ لاڈلا کون ملک ہے؟ کیا یہ بات قطر کے سربراہ نہیں جانتے تھے؟
حماس کے اعلیٰ لیڈروں کو نشانہ بنانے کے لیے دوحہ پر اسرائیلی حملوں پر امریکی صدر ٹرمپ نے شدید ناراضگی ظاہر کی تھی۔ ان کا کہنا تھا، ’یہ یکطرفہ کارروائی تھی جو نہ تو امریکی اور نہ ہی اسرائیلی مفادات کو آگے بڑھاتی ہے۔‘ ٹرمپ کے مطابق، اپنے ایلچی اسٹیو وٹکوف کو انہوں نے حملے کے بارے میں قطر کو باخبر کرنے کے لیے کہا تھا لیکن قطر کا کہنا ہے، ’اس وقت خبردار کیا گیا جب حملہ شروع ہو چکا تھا۔‘ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسرائیلی حملے کے بارے میں امریکہ کو معلوم تھا لیکن اسے روکنے کے لیے اس نے کیا عملی اقدامات کیے؟ امریکہ اور قطر دونوں کو حقائق کا اندازہ ہو گیا ہے اور غالباً اسی لیے امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے قطر اور امریکہ کے تعلقات کی تعریف کی ہے۔ قطر کو امریکہ کا ’عظیم اتحادی‘ قرار دیا ہے۔ اسی کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے، ’اسرائیلی حملوں کے بعد قطر کو سیاسی اعتبار سے زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔‘ کیا یہ انتباہ ہے؟ کیا قطر، اسرائیل اور امریکہ کا جواب ایک ساتھ دینے کی پوزیشن میں ہے؟ جواب دینا تو دور کی بات ہے، قطر، امریکہ کی ناراضگی برداشت کرلینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے، خاص کر ایسی صورت میں جبکہ خطے کے بیشتر ممالک امریکہ کی خوشنودی کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور اسی لیے وہ اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، ورنہ غزہ کے حالات کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے اتحاد کا مظاہرہ کر سکتے تھے لیکن سچ یہی ہے کہ جب کسی ملک پر پڑتی ہے تبھی وہ جواب دینے کے لیے بے چین ہوتا ہے۔ ایران نے اہل غزہ کی حفاظت کے لیے کتنی میزائلیں اسرائیل پر داغیں؟
ہاں! اسرائیل نے اس پر حملہ کیا تو اس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ ضرور کیا اور اسی لیے امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو جنگ ختم کرانے کے لیے کوشش کرنی پڑی، ورنہ غزہ جیسے حالات ہوتے تو وہ کیوں جنگ بندی کی کوشش کرتے؟ جنگ کو آگے نہ بڑھانے کے لیے اسرائیل پر دباؤ بناتے؟ کیا غزہ جنگ ختم کرنے کے لیے وہ اسی طرح کا دباؤ بنا رہے ہیں جیسا دباؤ ان کی طرف سے ایران جنگ ختم کرنے کے لیے بنایا گیا؟ رہی بات دوحہ میں مسلم اور عرب ملکوں کے سربراہ اجلاس کی تو اس طرح کے اجلاس ہوتے رہے ہیں، غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد بھی ہوئے ہیں۔ یہی لگتا ہے کہ غزہ پر حملوں کی باضابطہ ابتدا کے بعد کے اجلاس میں مسلم اور عرب ملکوں نے جس طرح کے اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا، اسی طرح کے اتحاد کا مظاہرہ اس اجلاس میں بھی کریں گے۔ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا ایران اور سعودی عرب یا سعودی عرب اور ترکیہ متحد ہو جائیں گے؟ کیا انہیں متحد کر دینے کے لیے غزہ جنگ کافی نہیں تھی؟ یہ امید کم نظر آتی ہے کہ وہ متحدہ طور پر حالات کا مقابلہ کریں گے یا حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں کچھ نیا ہوتا ہے، مسلم اور عرب ممالک متحد ہوتے ہیں تو یہ واقعی حیرت کی بات ہوگی۔
edit2sahara@gmail.com