ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
اگلے زمانے میں ملکوں کی سرحدیں ان کے حکمرانوں کے زورِ بازو سے طے ہوتی تھیں جن کی حد بندیاں گھٹتی بڑھتی رہتی تھیں۔ آج بھی طاقت کے بل پر سرحدوں کو اور کسی ملک کے جغرافیہ کو توڑا اور بدلا جاسکتا ہے لیکن جب سے نیشن اسٹیٹ کے تصور نے مقبولیت حاصل کی ہے ہر ملک کی آزادی، حاکمیت اور اس کی اندرونی خود مختاری میں مداخلت کو بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کے خلاف تسلیم کیا جاتا ہے۔
ماضی میں نقل و حمل کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے ملکوں اور خطوں میں ایک ہی نسل، زبان اور قوم کے لوگ رہا کرتے تھے۔مگر جیسے جیسے ان سہولیات میں اضافہ ہوا تو ایک خطے کے لوگ جن کی زبان الگ تھی اور جن کا عقیدہ الگ تھا، وہ بھی ان ملکوں اور خطوں میں جاکر رہنے لگے۔ آج کی تاریخ میں دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک یا خطہ ہوگا جہاں ایک رنگ،نسل، زبان اور مذہب کے لوگ رہتے ہیں۔جو ملک جتنا بڑا اور خوشحال ہے، جس کی آب و ہوا اچھی ہے اور جہاں امن اور ترقی کے امکانات زیادہ ہیں وہاں آپ کو ہر علاقے اور نسل و تہذیب کے لوگ ملیں گے۔ اس کی وجہ سے کبھی کبھی ان کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔
نیشن اسٹیٹ کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اس کی تاریخ سترہویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔یوروپ میں30 سال کی طویل جنگ کے بعد 1648 میں ویسٹ فیلیا (Westphalia)امن معاہدے کے تحت قومی ریاست (Nation-State) کا تصور ابھر کر سامنے آیا جس کو عرف عام میں ویسٹ فیلیا نظام کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کی رو سے ایک عالمی ضابطہ یہ طے پایا کہ ہر ریاست اپنے علاقے اور اندرونی معاملات میں خود مختار ہوگی اور کوئی باہری طاقت اس ملک اور اس کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔کوئی ملک رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے چھوٹا ہو یا بڑا وہ ایک دوسرے کے برابر تسلیم کیا جائے گا۔
اس قومی ریاست کے چار اجزاء تسلیم کیے جاتے ہیں۔(1) اس کی متعین سرحد ہوتی ہے (2) اس کی مستقل آبادی ہوتی ہے (3) اس کی حکومت ہوتی ہے اور (4) اس کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ دوسری ریاستوں سے تعلقات اور معاہدات کرے۔ اور اس حیثیت میں ایک ریاست دوسری ریاست کے وجود کوتسلیم کرے۔
مندرجہ بالا تعریف کی رو سے دو اولین شرط یہ ہے کہ اس کی متعین سرحد ہو جس کو انگریزی میں Defined Boundary کہتے ہیں اور دوسری شرط مستقل آبادی ہو۔ بھارت اس اعتبار سے ایک نیشن اسٹیٹ ہے جو مندرجہ بالا تمام شرائط پوری کرتا ہے۔
بھارت کی تاریخ و تہذیب بہت پرانی ہے اوربھارت اپنی بعض خوبیوں کی وجہ سے عالمی نقشہ میں منفرد حیثیت رکھتا ہے جس پر علامہ اقبال نے بہت صحیح فرمایا ہے کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔ اس سے بہتر تعریف بھارت کی نہیں ہوسکتی ہے۔
ہم جس جدید بھارت میں رہ رہے ہیں اس کا جنم 15اگست 1947 کی درمیانی شب کو اس وقت ہوا جب سنٹرل اسمبلی میں یونین جیک اتار کر آزاد بھارت کا ترنگا جھنڈا پھہرایا گیا۔ اس وقت بھارت کے عبوری وزیر اعظم پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ’’ بہت سالوں پہلے ہم نے تقدیر سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ ہم اپنے وعدوں کو پورا کریں گے جبکہ ہم پرانے عہد سے نکل کر نئے عہد میں داخل ہورہے ہیں اور ہمیں اپنے جذبات کے اظہار کی آزادی مل رہی ہے۔ جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہم ہر آنکھ کے آنسو پونچھیں گے اور اپنے خوابوں کی تکمیل کریں گے۔‘‘ وہ خواب تھا ایک پرامن خوشحال اور محبت اور بھائی چارہ سے لبریز بھارت کا۔ ملک کا جو دستور 26جنوری1950 کو لاگو کیا گیا وہ تمام بھارت میں رہنے والے لوگوں کے اجتماعی آرزوؤں کا عکاس ہے جس کے لیے ملک میں ایک جمہوری اور سیکولر نظام کے قیام کو بنیادی پتھر مان کر نئے بھارت کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا۔
بھارت نے کوزے میں بند اپنے محدود تصورات سے کنارہ کرتے ہوئے اپنے عالمی کردار کی ادائیگی کے لیے سنسکرت کے اس اشلوک کو اپنا اصول بنایا جس میں واسودھیو کٹمبھکم کی بات کہی گئی ہے اور جی20- کے اجلاس میں اس نعرے کو نئی معنویت دیتے ہوئے اس کو ون نیشن ون ورلڈ میں تبدیل کرکے اپنے عالمی کردار کا اظہار کیا۔یہ تصور اس اسلامی تصور کا چربہ ہے جس میں الخلق عیال اللّٰہ کی بات کہی گئی ہے یعنی پوری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔اور اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ و ہ لوگ ہیں جو اللہ کے اس کنبہ کا خیال رکھیں، ان کی بھلائی کے لیے کوشاں ہوں، ان کو امن، برابری اور انصاف دلانے میں سرگرم ہوں ۔ اسلام کے نزدیل کوئی پرایا نہیں ہے بلکہ سب اپنے ہیں، کیونکہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ اور ان کی خیرخواہی اور بھلائی مسلمانوں کا مقصدِ وجود ہے۔ اگر ایک شخص اپنے اس فرض منصبی سے غافل ہے گویا وہ اپنے مقصد وجود سے غافل ہے۔ اور جب تک وہ اپنے اس اصلی کردار کی طرف لوٹ کر نہیں آجاتا ہے اس وقت تک اس کا ایمان و اسلام ناقص ہے۔ لہٰذا مسلمان کبھی دنیا یا کسی ملک پر بوجھ نہیں بن سکتا بلکہ وہ اپنے سیرت و کردار اور اخلاق و اعمال کے لحاظ سے سورج، چاند، دھرتی، ہوا اور پانی کی طرح اتنا ہی مفید ہے کہ دنیا اس کے مثبت کردار کے بغیر امن، انصاف، خوشحالی اور خیرسگالی کے مقاصد کو کبھی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔
ہندوستانی مسلمان اس عالمی انسانی مشن کا حصہ ہے۔ لہٰذا اس کا تصور دین اور تصور انسانیت زمین پر کھینچی گئی فرضی اور تصوراتی حد بندی کی قائل نہیں ہے۔ وہ جس ملک، مقام اور علاقے میں رہتا ہے وہ اس کا لازمی اکائی بن کر رہتا ہے جس کو کسی بھی طریقے سے اس خطہ اور آبادی سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
بدقسمتی سے قوم پرستی کے محدود تصور نے نہ صرف پوری عالمی برادری کو مصنوعی خانوں میں بانٹ رکھا ہے بلکہ خود ایک ملک اور خطہ ارض کے اندر رنگ، نسل، زبان، مذہب اور نہ معلوم اور کن کن بنیادوں پر ایک دوسرے کے درمیان دیوار کھڑی کررکھی ہے۔ جس نے متحدہ قومیت اور مشترکہ انسانیت کے تصور کو پارہ پارہ کردیا ہے، جس کو Parochialismکہتے ہیں جو ذہن کو اتنا محدود کردیتا ہے کہ ہم بڑی اور مکمل تصویر دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور ہماری سوچ اتنی محدود ہوجاتی ہے کہ ہم کنویں کے مینڈک بن جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے بھارت میں یہ تصور اس وقت کی غالب سیاست ہے جس نے مسلمانوں کے بارے میں ایسے ایسے تصورات گڑھ لیے ہیں جس کا حقائق سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ مسلمان باہری ہیں، گھس پیٹھیے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ ان کی جنم بھومی تو یہاں ہے مگر ان کی پنہ بھومی یہاں نہیں ہے، اس لیے وہ بھارت ماتا کی سنتان نہیں ہیں۔ اس ملک سے ان کی وفاداری مشکوک ہے۔ ان سے اکثر سوال پوچھا جاتا ہے کہ آپ پہلے بھارتیہ ہیں یا پہلے مسلمان ہیں۔ آپ کو بھارت ماتا کی جے کہنے میں کیا اعتراض ہے اور وندے ماترم بولنے سے کیوں کتراتے ہیں۔ اس لیے آپ کی بھارتیتا اور آپ کی دیش بھکتی مشکوک ہے۔ ان سارے سوالات کے پیچھے اکثریت کے عقائد کو تھوپنے کی کوشش ہے۔ دھرم اور راشٹریہ کے بیچ گھال میل کی وجہ سے یہ سارے سوالات ابھرے ہیں اور ان سوالوں کو جان بوجھ کر اس لیے اٹھایا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو پھنسایا جائے اور پھر یہاں کی ہندو اکثریت کو یہ باور کرایا جائے کہ مسلمان اس دیش کے وفادار نہیں ہیں۔ لہٰذا ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے ا ور ان کو کسی اعلیٰ منصب اور حساس عہدوں پر بحال کرنا خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ یہ بات آج سے نہیں سردار پٹیل کے زمانے سے چل رہی تھی۔ وہ جب ملک کے نائب وزیر اعظم اور ہوم منسٹر تھے تو انھوں نے ایک خفیہ سرکلر ہوم منسٹری میں جاری کیا تھا کہ مسلمانوں کو حساس عہدوں پر بحال نہ کیا جائے اور سینٹرل سکریٹریٹ میں جو مسلمان اعلیٰ افسران بحال تھے باضابطہ ان کے گاڑیوں کی چیکنگ ہوتی تھی۔ بھارت میں یوپی فرقہ وارانہ سیاست کا گڑھ رہا ہے اور ہندو مسلم کشمکش کا آغاز زیادہ تر اسی ریاست سے ہوا ہے پھر اس کے بعد یہ بھارت کی دوسری ریاستوں میں پھیلا ہے۔(جاری)
abuzarkamaluddin.com