مرکزی بجٹ 2025-26 ؛ صحت اور تعلیم کے اخراجات پر مزید اضافہ کی ضرورت : ڈاکٹر جاوید عالم خان

0

ڈاکٹر جاوید عالم خان

عام طور سے بجٹ سالانہ آمدنی اور اخراجات کی تفصیل پیش کرتاہے، لیکن بجٹ اخراجات کو سرکاری سطح پر 3 حصوں یا سیکٹر میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا سیکٹر جنرل یا عمومی سیکٹر ، دوسرا سیکٹر اقتصادی یا اکنامک سیکٹر اور تیسرا سیکٹر سماجی یا سوشل سیکٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سوشل سیکٹر کے تحت تعلیم ، صحت ، سماجی تحفظ ، عورتوں ، بچوں ، معذوروں ، دلتوں ، آدی واسیوں اور اقلیتوں کی ترقی کیلئے بجٹ خرچ کیا جاتا ہے۔ پچھلے بجٹ میں کل 48 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے اور پچھلے بجٹ سے لگ بھگ 7 فیصدکا اضافہ ہوا تھا۔ تاہم بجٹ میں سماجی شعبے کی ترقی پر زیادہ بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔ پچھلے بجٹ میں معمر افراد، بچوں، خواتین، دلت، آدیواسی، معذوری اور اقلیتوں سے متعلق اسکیموں پر کم توجہ دی گئی تھی۔ بجٹ میں فزیکل انفرااسٹرکچر اور سرما یہ کاری سے متعلق اخراجات(Capital Expenditure) پر زیادہ توجہ دی گئی تھی۔ مرکزی حکومت کا سالانہ بجٹ آمدنی اور اخراجات کے اعدادوشمار کی تفصیل اور ملک کے سماجی اور اقتصادی فریم ورک کے ساتھ تمام شعبوں کے لیے اگلے سال کے لئے ترقیاتی پالیسی کی سمت کو طے کرتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے بجٹ ملک کے مجموعی ترقی، پسماندہ کمیونٹیز اور سماجی شعبے کی ترقی کے لئے کافی اہم ہے۔ فی الحال دنیا کے سب سے زیادہ غریب ہندوستان میں رہتے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے میدان میں بھی دوسرے ملکوں کے مقابلے پچھڑے پن کا شکار ہیں۔ عالمی ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں ہندوستان کا درجہ 193 ملکوں میں 134 نمبر پر آتا ہے اس لئے بجٹ میں حکومت کو تعلیم، صحت اور روزگار کے سیکٹرس اور اسکیموں کو زیادہ دھیان دینا چاہیے تھا۔ سوشل سیکورٹی، صحت اور تعلیم پر سرکاری خرچ دوسرے غریب ملکوں کے مقابلے ہندوستان میں جی ڈی پی کی شرح میں بہت کم ہے۔ دراصل تعلیم میں جی ڈی پی کا 6 فیصد اور صحت پر 3 فیصد خرچ ہونا چاہیے تھا جبکہ موجودہ خرچ تعلیم 3 فیصد اور صحت فیصد 1.5 کے آس پاس ہی ہے۔ روزگار کی اسکیم منریگا) اس بجٹ میں صرف 60ہزار کروڑ( پر ضرورت کے حساب سے بجٹ مختص نہیں ہوا ہے اور شہری علاقوں میں منریگا کے طرز پراس بجٹ میں ایک نئی اسکیم چلانے کی ضرورت تھی تاکہ شہری علاقوں کیبے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے- عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ بجٹ مختص ہونے کے باوجود بھی اسکیموں کی کمزور نفاذ کی وجہ سے لوگ اس کا فائدہ پوری طرح سے نہیں اٹھا پاتے۔ صحت کی بہتر خدمات اور سہولیات کو یقینی بنانے کی بنیادی ذمہ داری ریاستی حکومتوں/UT انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ مرکزی بجٹ 2024-25 میں صحت کے شعبے کیلئے 98,461 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے۔ اس میں 2023-24 کے بجٹ سے 2.6 فیصد کا اضافہ ہوا تھا یہ اضافہ بنیادی طور پر آیوش کی وزارت کے بجٹ میں اضافہ کی وجہ سے تھا۔ جس کے مختص بجٹ میں 20 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ 2024-25 کے بجٹ میں وزارت برائے صحت اور خاندانی بہبود کیلئے مختص رقم میں صرف 3 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔قومی صحت کے نظام کے ساتھ آیوش کے بجٹ کو زیادہ توجہ دی گئی تھی۔ اور قومی آیوش مشن کے مختص بجٹ میں کافی اضافہ کیا گیا تھا۔

نیشنل ہیلتھ پالیسی 2017 اور 15ویں مالیاتی کمیشن کی سفارشات کے مطابق صحت پر کل عوامی اخراجات 2025 تک جی ڈی پی کے شرح میں 2.5 فیصد تک پہنچنا چاہئے، لیکن گزشتہ سالوں کے تجزیے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مرکز کے صحت کا بجٹ کل مرکزی بجٹ میں فیصد کے طور پر جمود کا شکار رہا ہے اور 2024میں GDP کے فیصد کے طور پر مرکزی بجٹ کا حصہ 0.29 فیصد ہے۔ تاہم ریاستوں کے معاملے میں 2024-25 میں جی ڈی پی کے فیصد میں صحت کے شعبے کے بجٹ میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ 2024-25 میں مرکز اور ریاستی حکومتوں نے صحت کیلئے جی ڈی پی کی شرح میں 2 فیصد سے کم بجٹ مختص کیا ہے۔

تعلیم سماجی خدمات کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہندوستان کے اسکول تعلیمی نظام میں 15 لاکھ اسکول، 26.5 کروڑ طلباء اور 95 لاکھ اساتذہ شامل ہیں۔ وہیں اعلیٰ تعلیم کی سطح پر تقریباً 43,796 کالج، 1,113 یونیورسٹیاں اور 11,296 اسٹڈیز کیلئے ادارے، 15.5 لاکھ فیکلٹی ممبران اور 4.14 کروڑ طلباء ہیں۔ اس وسیع تعلیم کے شعبے کی خدمت اور ضرورت کیلئے وزارت تعلیم کو 1,20,628 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے جس میں سے 61 فیصد محکمہ اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی اور 39 فیصد محکمہ اعلیٰ تعلیم کیلئے تھے جبکہ دونوں شعبوں نے مختص رقم میں 8 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ تعلیمی بجٹ کے ماہر ڈاکٹر پروتیوا کنڈو کے مطابق کل مرکزی بجٹ میں تعلیم کے مجموعی حصہ میں کووڈ سے پہلے کے سالوں کے مقابلے میں کمی دیکھی گئی ہے۔ جبکہ تعلیم پر کل عوامی اخراجات کے طور پر جی ڈی پی کے 6 فیصد کا مطالبہ (مرکز اور ریاستوں کے مشترکہ تعلیمی بجٹ) ہر پالیسی دستاویز بشمول قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP) میں بار بار دہرایا گیا ہے۔ وزارت برائے تعلیم کے بجٹ کی شراکت GDP کے شرح میں 0.37 فیصد کے برابر ہے۔ سی بی جی اے نئی دہلی کے ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ تمام 30 ریاستوں کے تعلیمی اخراجات کے مجموعی بجٹ کا تجزیہ ملک کے جی ڈی پی کے حصہ کے طور پر اگرچہ ایک مثبت رجحان کو ظاہر کرتا ہے لیکن مجموعی طور پر سرکاری اخراجات تعلیم پر قومی تعلیمی پالیسی کے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ناکافی ہیں۔

نیشنل اچیومنٹ سروے (NAS) 2021 کے مطابق تقریباً تمام مضامین اور گریڈوں کے طلباء کے سیکھنے کے نتائج میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح سے ایجوکیشنل سروے رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ بچوں کی بنیادی صلاحیت کی سطح میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ سرکاری یا پرائیویٹ اسکولوں میں کلاس 3 کے بچوں کا فیصد جو کلاس 2 کی سطح پر پڑھ سکتے ہیں 2018 میں 27.3 فیصد سے کم ہوکر 2022 میں 20.5 فیصد رہ گیا۔ 2030 تک مجموعی داخلے کی شرح (GER) کو 100 فیصد تک پہنچانے کیلئے 6 سے 17 سال کی عمر تک کے 3.22 کروڑ بچوں کو اسکول واپس لایا جائے گا۔ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے طلباء و اساتذہ کا تناسب 30:1 ہونا چاہئے جیسا کہ RTE ایکٹ 2009 میں بتایا گیا ہے کہ اس معیار کو اسکول میں ہر سطح پر یقینی بنایا جائے گا۔
لہٰذا ہندوستان کے اسکول ایجوکیشن سسٹم کے ذریعہ پیش کردہ معیاری تعلیم کو فروغ دینے کیلئے مرکز اور ریاستی حکومت کی شراکت ضروری ہے۔ آئندہ بجٹ سے یہ امید ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں تعلیم کے میدان میں سرکاری سرمایہ کاری کو بڑھانے کیلئے مل کر کام کریں تاکہ یہ سرمایہ کاری مجموعی جی ڈی پی کے 6 فیصد یا بجٹ اخراجات کے20 فیصد تک پہنچ جائے۔ اس لئے اس بجٹ اخراجات میں حکومت کو تعلیم کے سیکٹرس اور اسکیموں پر زیادہ دھیان دینا چاہئے تھا۔ تعلیم پر سرکاری خرچ دوسرے غریب ملکوں کے مقابلے ہندوستان میں جی ڈی پی کی شرح میں بہت کم ہے۔ تعلیم میں جی ڈی پی کا 6 فیصد سے زیادہ خرچ کیا جائے جبکہ موجودہ خرچ تعلیم پر 3 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ پارہا ہے۔ تجزیے سے یہ پتا چلتا ہے کہ ملک میں تعلیم اور صحت کے اخراجات کم ہونے کی وجہ سے ان شعبوں میں معیاری خدمات تمام عوام کو مہیا نہیں کرایا جاسکا ہے اور اس کے منفی اثرات غریب عوام اور پچھڑے طبقات جیسے دلت، آدی واسی، معذور، بچے، عورتوں اور اقلیتوں پر زیادہ پڑے ہیں اور اس کی وجہ سے ملک بہتر انسانی وسائل پیدا کرنے سے محروم ہورہاہے اور 2047 تک ہندوستان کو وکست بھارت بنانے کا ہدف پورا کرنا مشکل ہوگا۔

(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS