عام انتخابات 2024سے قبل مودی حکومت کا آخری مکمل بجٹ آج وزیرخزانہ نرملا سیتارمن نے ملک کے سامنے پیش کیا۔ بلند بانگ دعوئوں اور سہانے خوابوں کے گوٹے کناروں سے سجے اس بجٹ کو خاتون وزیرخزانہ نے پہلا امرت کال بجٹ کانام دے کر اپنی پیٹھ آپ تھپتھپائی ہے۔اس بجٹ میں سات اہداف مقرر کرکے انہیں سپت رشی سے معنون کیاگیا ہے۔ جامع ترقی، پسماندہ افراد کیلئے ترجیح، بنیادی ڈھانچہ اور سرمایہ کاری پرزور، صلاحیت میں توسیع، سبز ترقی، یواشکتی اور مالیاتی شعبہ کے ارد گرد گھومنے والے ان اہداف کے حصول کیلئے کئی نئی اسکیمیں بھی وزیرخزانہ نے بیان کی ہیں۔ وزیر خزانہ کا دعویٰ ہے کہ ابھی ہندوستان کی معیشت ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے اور ان کی بیان کردہ اسکیموں کی تکمیل کے بعد ہندوستان 5کھرب امریکی ڈالر کی معیشت بن کر ’سورج کی حیثیت‘ سے تمام دنیا کو خیرہ کردے گا۔بجٹ میں ملازم پیشہ افراد کو راحت دینے کا اعلان کرتے ہوئے 7لاکھ تک کی سالانہ آمدنی کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیاگیا ہے۔ پین کارڈ کو شناختی کارڈکی حیثیت بھی حاصل ہوگئی ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کیلئے مختص رقم میںاضافہ کرتے ہوئے اسے 79 ہزار کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ دفاعی بجٹ بھی دوگنا ہوگیا۔ریلوے کی مد میں خرچ کیلئے بھی 2.4 لاکھ کروڑ روپے مختص ہوئے ہیں، چھوٹے کاروباروں کیلئے کریڈٹ گارنٹی اسکیم میں9ہزار کروڑ روپے مزید ڈالنے کا اعلان ہے۔ 50نئے ہوائی اڈے اور 157نئے نرسنگ کالج بنانے کا بھی اعلان ہے۔ خواتین کیلئے مہیلا سمان سیونگ سرٹیفکیٹ جیسی سرمایہ کاری کی اسکیم متعارف کرانے کی بات کہی گئی ہے۔معمر افراد کیلئے کئی خوش کن اعلانات کیے گئے ہیں۔ بنیادی ضرورت کی کئی چیزیں مہنگی کی گئی ہیں تو عیش و طرب کے سامان کی قیمت گھٹا کر صنعت کاروں کیلئے منافع کا میدان وسیع کیاگیا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم کے اخراجات کو گھٹا کر اسے60ہزار کروڑ روپے کردیاگیا ہے۔
بجٹ پیش ہونے کے بعد جس طرح سے حکومت کے وزرا اور حکمراں جماعت کے لیڈران اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہے ہیں، اس سے بظاہر یہ محسوس ہورہاہے کہ ہندوستان سے غربت، بے روزگاری، ناخواندگی، بیماری سب کچھ ختم ہوگیا ہے اور ہندوستان آج سے ایک ایسے نئے سنہرے دور میں داخل ہورہا ہے جہاں معیشت اور صنعت کی ترقی کے تمام ثمرات کا بہائو ملک کے غریب اور محنت کش عوام کی طرف ہوگا،کسی نوجوان کو روزگار کیلئے خوار نہیں ہوناپڑے گا اورنہ کسی کو خالی پیٹ سونے کی نوبت آئے گی، نہ کوئی علاج سے محروم ہوگا اور نہ جہالت کے اندھیرے ہی وسوسے بن کر لوگوںکو ڈسیں گے۔ لیکن کیا حقیقت بھی یہی ہے۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔اس بجٹ میں نہ تو منریگا کا ذکر ہے نہ غریب مزدوروں کیلئے کسی گنجائش کا اعلان کیاگیا ہے۔ بیروزگاری اور مہنگائی جیسے بنیادی سوالات کا جواب بھی اس بجٹ میں نہیں مل رہا ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کیلئے رقم میں معمولی اضافہ افراط زر کے مقابل کتنا ٹکائو ثابت ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ترجیحی خاندانوں کیلئے مفت اناج اسکیم کی مدت میں اضافہ کرکے سیاسی فائدہ کی کامیاب کوشش ضرور کی گئی ہے۔
وزیرخزانہ کی حیثیت سے نرملا سیتارمن کایہ پانچواں بجٹ اوران کے مطابق پہلا امرت بجٹ ہے۔ مرکز کی مودی حکومت اب تک ملک کے سامنے9بجٹ پیش کرچکی ہے۔ پہلے بجٹ میں حکومت نے کہا تھا کہ2022تک ملک کے ہر شہری کا اپنا گھر ہوگا، کسانوں کی آمدنی دوگنی ہوجائے گی۔ 80کروڑ نوجوانوں کو روزگار ملے گا لیکن 9برس گزرجانے کے باوجود یہ اہداف حاصل نہیں ہوپائے ہیں۔ان اہداف کے حصول میں مکمل ناکامی کا داغ مٹانے کیلئے وزیرخزانہ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ 2014 سے حکومت کی کوششوں سے تمام شہریوں کی زندگیوں میں بہتری آئی ہے اور فی کس آمدنی دوگنی سے زیادہ بڑھ کر 1.97 لاکھ روپے ہوگئی ہے۔ لیکن اس کے مقابل افراط زرکی شرح اور مہنگائی و بے روزگاری جس نے عوام کو ایک دہائی پیچھے دھکیل دیا ہے، اس کا کوئی ذکر انہوں نے نہیں کیا۔ آج کی دنیانتائج کے دور میں جی رہی ہے۔ اعلانات، وعدے، کوششیں اگر نتیجہ خیز نہیں ہیں تو یہ بے معنی ہیں۔حکومت کی سطح پر ہونے والے اعلانات اور وعدوں کی تکمیل نہ ہو تو یہ عوام سے کھلا دھوکہ ہی کہاجائے گا۔
[email protected]