یکساں سول کوڈ: نیا جال لائے پرانے شکاری، مسلمان اس سے بچیں

0

عبیداللّٰہ ناصر

کہتے ہیں ’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘، یہ کہاوت آج بی جے پی اور اس کی اعلیٰ قیادت پر پوری طرح سچ ثابت ہو رہی ہے۔ہماچل پردیش اور کرناٹک اسمبلی الیکشن میں زبردست ہار اور اب مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ ہی نہیں راجستھان سے بھی اسے اچھی رپورٹیں نہیں مل رہیں جس سے اس کی بوکھلاہٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ ادھر راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے بعد کانگریس میں نئی جان آگئی ہے۔ راہل گاندھی کی مقبولیت کا گراف چڑھ رہا ہے۔ سونے پرسہاگہ اپوزیشن متحد بھی ہو رہا ہے اور2024کا لوک سبھا چناؤ بھی کوئی خوش کن منظر نہیں پیش کر پارہا ہے جس کا اندازہ آر ایس ایس کے ترجمان ہفت روزہ ’پنچ جنیہ‘ کے اس مضمون سے لگ سکتا ہے جس میں اس نے صاف کہا ہے کہ2024کا عام چناؤ جیتنے کے لیے صرف ہندوتو اور مودی کا چہرہ ہی کافی نہیں ہے۔بی جے پی میں مودی کے عروج کے بعد پارٹی کے باقی سارے چراغ گل ہو گئے ہیں اور گرام سبھا سے لے کر لوک سبھا تک کے سارے الیکشن بی جے پی مودی کے ہی نام سے لڑتی ہے اور کامیابی بھی پاتی رہی ہے لیکن ہماچل پردیش جہاں ہندوؤں کی آبادی 98فیصد کے آس پاس ہے اور کرناٹک جہاں ہندوؤں کی آبادی87فیصد کے آس پاس ہے، ’پنچ جنیہ‘ کے اس مضمون کی صداقت ثابت کر رہے ہیں کہ صرف ہندوتو اور مودی کے چہرے پر ہی چناؤ نہیں جیتے جا سکتے۔اور یہ ایک فطری تجزیہ ہے۔ ظاہر ہے منفی جذبات کی عمر زیادہ نہیں ہوتی، فرقہ پرستی، نفرت، تشد د، لاقانونیت کا راج10سال چل گیا، یہی بہت ہیں ،اب عوام کوا ن منفی جذبات سے باہر نکل کر اپنے اصل مسائل روزگار، گرانی اور پر سکون ماحول کی ضرورت کا احساس ہونے لگا ہے اور عوام کے دلوں میں ان جذبات کا پیدا ہونا ہی مودی، امت شاہ، یوگی آدتیہ ناتھ، ہیمنت بسوا سرما جیسوں کی سیاست کی موت ہونا ہے۔
لیکن بی جے پی کی مجبوری یہ ہے کہ عوام کے سامنے اپنا کون سا کارنامہ لے کر جائے۔بی جے پی کے سینئرترین لیڈر جو پارٹی کے سابق صدر اور مرکزی وزیر بھی رہ چکے ہیں، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی سے ایک بار کسی صحافی نے پوچھا تھا کہ مودی سرکار کو آپ دس میں کتنے نمبر دیں گے تو انہوں نے کہا تھا کہ جب کاپی میں کچھ لکھا ہوگا تبھی تو نمبر دیے جائیں گے، یہ بات گوکہ چار پانچ سال پرانی ہو گئی لیکن آج بھی سچ ہے۔اس بات کا احساس بی جے پی کے سبھی لیڈروں کو ہے تبھی تو وہ اپنے کسی کام پر عوام سے ووٹ نہیں مانگتے ہیں بلکہ کانگریس پر جھوٹے سچے الزام لگا کر ماضی کو کرید کر اور فرقہ وارانہ ماحول پیدا کر کے ووٹ مانگتے ہیں۔اگلے سال کے لوک سبھا چناؤ کے لیے بھی مودی حکومت کی اپنی اسی کم مائیگی کی بنا پر ان کے پاس فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگلے سال جنوری میں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر مکمل ہو جائے گی جس کا افتتاح مودی جی کریں گے اور اس کے بعد پورے ملک میں نعرہ لگایا جائے گا ’’جو رام کو لائے ہیں ہم ان کو ستا میں لائیں گے‘‘لیکن شا ید اتنے بھر سے کام نہ چلے کیونکہ رام مندر عدالت کے حکم سے بن رہا ہے یہ سبھی جانتے ہیں، اس لیے فرقہ وارانہ تقسیم کو اور دھاردار بنانے کے لیے یکساں سول کوڈ کا ایشو بھی اچھال دیا گیا ہے۔یہ ایک جال ہے جو ناگپور سے پھینکا گیا ہے، اگر اس جال میں مسلمان پھنستے ہیں اور اس پر زوردار احتجاج، دھرنا مظاہرہ وغیرہ کرتے ہیں، ٹیلی ویژن کی لاحاصل اور بیہودہ بحثوں میں پڑتے ہیں تو بی جے پی کا کام آسان ہوجائے گا لیکن اگر خاموش رہ کر تدبر، حکمت عملی اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو بی جے پی اسے بھنا نہیں پائے گی اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو جائے گا۔
یاد دلا دیں کہ2018میں لا کمیشن نے کہہ دیا تھا کہ ملک میں یکساں سول کوڈ کی ضرورت نہیں ہے لیکن کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ریتو راج چودھری کی قیادت میں تشکیل شدہ نئے لا کمیشن نے اس جن کو پھر بوتل سے نکالنے کی بات کہی ہے اور اس کے لیے عوام اور مذہبی تنظیموں سے سجھاؤ طلب کیے ہیں۔ یہ وہی جسٹس ریتو راج چودھری ہیں،جنہوں نے کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی کے ریاستی حکومت کے احکام کو جائز قرار دیا تھا اور لا کمیشن کے سربراہ بنتے ہی ملک میں راج دروہ (حکومت سے بغاوت) قانون میں سخت سزا دینے کی سفارش کی۔ حالانکہ سپریم کورٹ کہہ چکا ہے کہ جمہوری ملک میں ایسے کسی قانون کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ حکومت کی مخالفت جمہوریت کا جزو لا ینفک ہے یہ قانون انگریزوں نے تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے بنایا تھا اور اسے آزادی کے وقت ہی ختم کر دیا جانا چاہیے تھا لیکن آر ایس ایس کے ایجنڈے کو لاگو کرنے کے لیے یہ سفارش کی گئی۔یکساں سول کوڈ کے لیے تجاویز اور سجھاؤ طلب کرنا بھی ناقابل فہم ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لا کمیشن مجوزہ یکساں سول کوڈ کا مسودہ تیار کر کے اسے عوام کے سامنے رکھتا اور اس پر رائے و تجاویز طلب کرتا۔ ادھر بی جے پی کی اتراکھنڈ سرکار نے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے لیے محترمہ جسٹس رنجنا دیسائی کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل کی تھی جس نے اپنی رپورٹ سرکار کو پیش کر دی ہے۔ عمومی خیال یہ ہے کہ اتراکھنڈ سرکار اسے نافذ کر دے گی، اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بی جے پی کی گجرات اور اترپردیش کی سرکاریں بھی اسے نافذ کر دیں گی، پھر معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا مگر تب تک بی جے پی کا کام ہوجائے گا اور وہ پارلیمانی الیکشن میں سینہ ٹھونک کر کہے گی کہ ہم نے رام مندر بنوا دیا، ایک نشست میں تین طلاق ختم کر دیے، کشمیر سے دفعہ370ہٹا دی، اب ہم ہندو راشٹر سے محض چند قدم دور ہیں، اس لیے ہمیں ووٹ دو۔
ویسے بھی اگر لکیر کی فقیری سے ہٹ کر تھوڑا دور اندیشی اور معاملہ فہمی سے سوچا جائے تو یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا مسلمانوں پر بہت کم اور ہندوؤں پر زیادہ اثر پڑے گا کیونکہ ملک گیر سطح پر جتنے متنوع عائلی قوانین اور رسم و رواج ہندوؤں کے ہیں، اتنے مسلمانوں کے نہیں ہیں، ہندوؤں میں شادی بیاہ کے کئی رسم و رواج اور طریقے ہیں جبکہ مسلمانوں میں تو لڑکا لڑکی گواہوں کے سامنے ایک دوسرے کو قبول کر کے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں، باقی اور جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ سب رسم و رواج ہیں۔ ایک نشست میں تین طلاق غیر قانونی ہو ہی چکی ہے، طلاق کے بعد گزارہ بھتہ کے لیے اگر معاملہ عدالت میں جائے تو وہ قانون کے حساب سے فیصلہ کرے گی، لیکن اگر یہ نوبت نہ آنے دی جائے اور افہام و تفہیم سے منصفانہ حل نکال لیا جائے تو کوئی بھی قانون ہو، اس کا اثر نہیں پڑے گا۔چار شادیوں کی اجازت تو ہے مگر وہ لازمی نہیں ہے اور شاید ہی کسی کی چار بیویاں ہوں، مجھے تو دو بیویوں والے بھی اپنے خاندان اور حلقہ احباب میں نہیں دکھائی دیتے، اس لیے اگر ایک سے زائد شادی کے معاملہ کو ریگولیٹ کیا جاتا ہے تو اس پر اعتراض کا کوئی جواز نہیں دکھائی دیتا، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم کسی اسلامی ریاست میں نہیں بلکہ ایک سیکولر ملک میں رہتے ہیں، کثرت ازدواج کو تو اسلامی ملکوں میں بھی ریگولیٹ کیا گیا ہے۔ہاں اصل مسئلہ وراثت کے قانون میں کھڑا ہو سکتا ہے کیونکہ اسلام میں گود لینے کا کوئی تصور نہیں ہے اور یہ حقیقی رشتوں کے ساتھ نا انصافی ہے، مثال کے طور پر ایک لا ولد بھائی کسی دوسر ے لڑکے لڑکی کو گود لے لے تو اس کی ساری جائیداد اس گود لیے لڑکے لڑکی کی ہو جائے گی اور بھتیجوں بھتیجیوں بھانجے بھانجیوں کا حق مارا جائے گا، اس پر بحث ہونا چاہیے مگر آئین اور قانون کے دائرہ میں رہ کر، سڑک پر شور ہنگامہ کرنے اور ٹیلی ویژن کی بھونڈی بحثوں سے اجتناب لازمی ہے۔
کل ملا کر یکساں سول کوڈ کا مسئلہ پورے طور پر ایک فرقہ وارانہ اور سیاسی شعبدہ ہے، یہ ایک جال ہے جس سے مسلمانوں کو ہر حال میں بچنا چاہیے، یہی دور اندیشی اور معاملہ فہمی کا تقاضہ ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS