اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ : مسلم شناخت پر حملہ اور بی جے پی کا فسطائی ایجنڈا

0

اتراکھنڈ میں بی جے پی حکومت نے یکساں سول کوڈ (UCC) نافذ کر کے دراصل مسلمانوں کے مذہبی،سماجی اور قانونی حقوق پر کھلا حملہ کیا ہے۔ یہ نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ مسلم دشمنی کا بدترین مظاہرہ بھی ہے۔ یو سی سی کے نفاذ کی آڑ میں بی جے پی نے اپنے ہندوتو ایجنڈے کو عملی جامہ پہنایا ہے،جس کا مقصد ملک کے اقلیتی طبقے کو بے بس کرنا اور انہیں اکثریتی رنگ میں رنگنا ہے۔

بی جے پی اسے خواتین کے حقوق کی پاسداری اور اصلاحات کا نام دے رہی ہے،لیکن درحقیقت یہ اقلیتوں کو دبانے اور مسلمانوں کو ان کے شرعی قوانین سے محروم کرنے کی ایک گھنائونی چال ہے۔ آئین کے آرٹیکل 44 کا سہارا لے کر بی جے پی نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ریاستی حکومتوں کو یو سی سی نافذ کرنے کا اختیار حاصل ہے،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آئین میں ریاست سے مراد مرکزی حکومت ہے،نہ کہ کوئی مخصوص ریاستی حکومت۔ لہٰذا،یہ قدم آئینی اصولوں کی سیدھی خلاف ورزی ہے۔

یو سی سی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ مسلم پرسنل لا کو ختم کر کے ہندو قوانین کو پورے ملک پر مسلط کرنے کی ایک سازش ہے۔ مسلم معاشرت میں شادی ایک مقدس معاہدہ ہے، جو مخصوص اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔ اسی طرح طلاق اور وراثت کے معاملات بھی قرآن و سنت کے تحت طے کیے جاتے ہیں۔ لیکن یو سی سی کے ذریعے بی جے پی حکومت زبردستی مسلمانوں پر ایک غیر اسلامی قانونی ڈھانچہ تھوپنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ جب درج فہرست قبائل کو ان کے روایتی قوانین پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے تو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں؟ آرٹیکل 25 اور 26 تمام شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دیتے ہیں، مگر بی جے پی حکومت نے ان دفعات کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ یہ دراصل ایک سنگین آئینی بحران ہے،جس کا مقصد صرف مسلمانوں کو دبانا اور ان کے تشخص کو ختم کرنا ہے۔

سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ یو سی سی کے نام پر بی جے پی حکومت نے ایک نیا اخلاقی پولیسنگ کا حربہ متعارف کرایا ہے۔ لیو ان ریلیشن شپ کا لازمی رجسٹریشن اور اس پر سخت سزائیں دراصل نجی زندگی میں حکومت کی غیر ضروری مداخلت کی راہ ہموار کرتی ہیں اور شہری آزادیوں کو محدود کرنے کا ایک اور بہانہ ہیں۔ یہ تمام اقدامات بتاتے ہیں کہ بی جے پی نے اپنے نظریاتی ایجنڈے کو نافذ کرنے کیلئے آئین کی دھجیاں بکھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

جمعیۃ علماء ہند اور دیگر مسلم تنظیموں نے یو سی سی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ یہ قانون صرف آئین کے خلاف نہیں،بلکہ جمہوری اقدار کو روندنے کی بھی ایک مکروہ کوشش ہے۔ جمہوری نظام میں کسی بھی بڑے قانونی فیصلے سے پہلے تمام فریقین کو اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے،لیکن بی جے پی حکومت نے اس بنیادی اصول کو بھی نظر انداز کر کے یو سی سی کو زبردستی مسلط کر دیا۔ اپوزیشن کو مسودہ پڑھنے تک کا وقت نہیں دیا گیا اور انتہائی غیر جمہوری طریقے سے اسے پاس کر دیا گیا۔ یہ وہی حکمت عملی ہے جو زرعی قوانین کے نفاذ میں اپنائی گئی تھی اور عوامی مزاحمت کے نتیجے میں بی جے پی کو وہ قوانین واپس لینے پڑے تھے۔

سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یو سی سی پورے ملک کیلئے ضروری ہے تو اسے قومی سطح پر نافذ کیوں نہیں کیا جا رہا؟ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال مسلم پرسنل لا کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ایک گھر میں دو قوانین نہیں چل سکتے،تو ملک میں دو قوانین کیسے چلیں گے؟ لیکن اب ان کے اپنے زیرسایہ ایک ریاست میں الگ قانون نافذ کر دیا گیا ہے،جب کہ دیگر ریاستوں میں مختلف قوانین موجود ہیں۔ کیا اب وہ خود اپنے قول پر عمل کریں گے؟

یہ درحقیقت بی جے پی کے ہندوتو ایجنڈے کو نافذ کرنے کا ایک اور گھناؤنا حربہ ہے۔ اس کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے مذہبی تشخص سے محروم کرنے اور اکثریتی طبقے کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر مقصد واقعی اصلاحات ہوتیں تو حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ تمام طبقات سے مشاورت کرتی اور ایک ایسا متفقہ قانون بناتی جو سب کیلئے قابل قبول ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا،بلکہ اکثریتی طبقے کے نظریات کو زبردستی اقلیتوں پر نافذ کر دیا گیا۔

اتراکھنڈ میں یو سی سی کا نفاذ بی جے پی کے فسطائی ایجنڈے کی پہلی کڑی ہے،جسے وہ دیگر ریاستوں میں بھی دوہرانے کی کوشش کرے گی۔ اگر اس کے خلاف مضبوط مزاحمت نہ کی گئی تو یہ پورے ملک میں مسلط ہو سکتا ہے اور پھر آئین کی مزید دفعات کو نظر انداز کر کے اقلیتوں کے حقوق مکمل طور پر سلب کر لیے جائیں گے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS