اے- رحمان
اتراکھنڈ کے بعد اب اتر پردیش نے بھی یکساں سول کوڈ وضع کر کے فوری طور پر اسے نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مرکزی حکومت پہلے ہی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے کر یکساں سول کوڈ کا بنیادی خاکہ بنانے کی ہدایت جاری کر چکی ہے۔ اس سلسلے میں ہو رہی پیش رفت کی تیزی دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ جلد ہی کوئی کچا پکا سول کوڈ سامنے آئے گا اور اسے قانونی شکل دے کر اس کے نفاذ کی کوشش کی جائے گی۔ ’کوشش‘ اس لیے کہ وطن عزیز میں ایسا سول کوڈ نافذ کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔لیکن بعض حقائق کو دیکھتے ہوئے اس پورے معاملے میں تناقضات بھی نظر آتے ہیں۔
بھارت ایک کثیر المذاہب ملک ہے اور دنیا کے تمام بڑے اور اہم ترین مذاہب کے پیرو یہاں آباد ہیں۔ اس بنیاد پر بھارت کو دنیا بھر میں مذہبی رواداری کی زندہ مثال ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔ پچھلے چار ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں مختلف النوع اور بعض اوقات باہم متصادم عقائد اور مسلک رائج رہے لیکن وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والی مشکلات کے باوجود یہاں تمام عقائد و مذاہب کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مورخین اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے کہ سیکولرازم کا تصور برطانوی تسلط کے ساتھ یہاں متعارف ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف اور متضاد مذہبی عقائد اور ثقافتی چلن کی موجودگی میں پر امن بقائے باہم کا نظام یہاں ہمیشہ سے موجود تھا۔آئین ہند کی ترتیب و تشکیل کے وقت آئین ساز اسمبلی نے دنیا کے جن آئین سے استفادہ کیا ان سبھی میں حکومت کو لامذہب رہتے ہوئے شہریوں کو مذہبی آزادی دیے جانے کی شق موجود تھی لہٰذا آئین ہند میں مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک کا تتبع کرتے ہوئے مذہب پر مبنی ’ پرسنل‘ قوانین کو ختم کرکے تمام سول معاملات کے لیے ایک ایسے ضابطے کی سفارش بھی کی گئی جس کا اطلاق بلا تخصیص مذہب تمام شہریوں پر مساویانہ طریقے سے کیا جا سکے۔ یہ سفارش آئین کی دفعہ 44 میں مذکور ہے جو ہدایت کرتی ہے کہ ریاست(بمعنی حکومت) پورے خلوص سے یکساں سول کوڈ تشکیل دے کر اس کا نفاذ کرنے کے سلسلے میں ضروری اقدامات کرے گی۔ جب آرٹیکل 44 کا مسودہ اور تجویزآئین ساز اسمبلی کے سامنے آئی تو تمام مسلم اراکین نے اس کی پوری قوت سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی شرعی قوانین نا قابل ترمیم ہیں او ر ان سے کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ برداشت نہیں کی جائے گی۔ اسمبلی کے چیئر مین ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے شرعی قوانین کے ناقابل ترمیم ہونے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کو معاشرتی اصلاح اور فلاحی مقاصد کے تحت مذہبی قوانین میں ترمیم و تنسیخ کا حق حاصل ہے اور ہونا چاہیے۔ حالانکہ انہوں نے بعد میں یہ بھی کہا ’’ مسلمان آرٹیکل 44سے غیر ضروری طور پر ہراساں ہو رہے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی حکومت اپنے اختیارات قانون سازی کو اس طور پر استعمال کرے گی کہ جس سے مسلمانوں میں جذبۂ بغاوت پیدا ہو۔ کوئی بے دماغ اور جنونی حکومت ہی ایسا کر سکتی ہے۔‘‘ (کیا موجودہ حکومت کو بے دماغ اور جنونی کہا جا سکتا ہے؟) واضح ہو کہ 1915 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی دفعہ 112 نے ہندوستانی عدلیہ بشمول عدالت علیا کلکتہ، مدراس اور بمبئی کو حکم جاری کیا تھا کہ وراثت ، موروثیت اراضی نیز کاروباری معاملت و معاہدات کے تمام ایسے مقدمات جن میں دونوں فریق ایک ہی پرسنل لا یا قانونی حیثیت کے حامل رائج الوقت چلن کے پیرو ہوں تو ان کا فیصلہ اسی پرسنل لا یا رائج الوقت رواج کے مطابق کیا جائے۔ اور جہاں فریقین مختلف پرسنل لا یا رواج سے متعلق ہو ںتو وہاں مدعا علیہ کے پرسنل لایا رواج کے مطابق کیا جائے۔ یہاں سے گویا تمام فرقوں کے اپنے عائلی قوانین( پرسنل لاز ) کا باضابطہ نفاذ شروع ہوا۔ 1937 میں برطانوی حکومت نے مسلمانوں کے ایما پر ’ مسلم پرسنل لا( شریعت) ایپلی کیشن ایکٹ‘ پاس کر کے نافذ کیا( جو آج تک نافذ ہے) جس کے تحت مسلمانوں کے شادی، طلاق اور وراثت وغیرہ کے تمام معاملات و مسائل اسلامی شریعت کی بنیاد پر فیصل ہوتے ہیں۔ بعد کو ہندو (جس تعریف میں سکھ، جین بدھسٹ شامل ہیں) عیسائی اور پارسی شہریوںکے لیے بھی ان کے عقائد کے مطابق عائلی قوانین بنا دیے گئے۔ آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کی ضمانت کا تقاضا بھی آئین کی دفعہ 25 کے مشمولات سے پورا ہو جاتا ہے۔ لیکن آرٹیکل 44 کی یکساں سول کوڈ کے سلسلے میں کی گئی تلقین کا اعادہ بھی سیاسی اور عدالتی سطح پر کیا جاتا رہا۔ عدالت عظمیٰ نے کئی مرتبہ حکومت وقت کو جھنجھوڑ کر یاد دلایا کہ یونیفارم سول کوڈ کی تشکیل اور نفاذ بھی اس کے آئینی فرائض میں شامل ہے۔ یہی نہیں سپریم کورٹ نے کبھی کبھی اپنے فیصلوں میں مخصوص عائلی قوانین یعنی پرسنل لا کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی سیکولر صوابدید کو بروئے کار لاکر انصاف کیا۔ مثال کے طور پر1979 میں بائی طاہرہ بنام علی حسین فصالی نام کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے طے کیا کہ مہر، نان نفقہ( دفعہ125 ضابطۂ فوجداری) کا متبادل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے بعد 1985 میں شاہ بانو مقدمے کے فیصلے کو تو مسلمانوں نے اسلامی شریعت میں راست مداخلت قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا جو اس حد تک گیا کہ راجیو گاندھی کی حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون بنا کر اس فیصلے کو کالعدم کرایا۔ لیکن مذکورہ دونوں مقدمات کے فیصلے کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومت وقت کو ہدایت دی کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ جلد از جلد ممکن بنایا جائے۔ 1971 میں شائع اپنی کتاب سیکولر ازم اور آئین ہندSecularsim and the Constitution of India میں ملک کے ایک سابقہ چیف جسٹس گجندر گڈکر نے لکھا تھا، ’’ آرٹیکل 44پر عمل در آمد نہ ہونے کو جمہوریت کی ناکامی سمجھا جائے گا۔ جتنی جلد اس سلسلے میں اقدامات کر لیے جائیں اتنا بہتر ہوگا کیونکہ ایک سیکولر نظام کے لیے یکساں سول کوڈ اساسی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘ سپریم کورٹ کے ہی ایک اور سابقہ جج جسٹس ہیگڑے نے لکھا۔’’ مبنی بر مذاہب عائلی قوانین قرون وسطیٰ کی دین ہیں اور جدید آفاقی نوعیت کے سیکولر معاشروں کے لیے قطعی بے معنی ۔ جب تک ہمارے قوانین مذاہب اور عقائد کے مرہون منت ہیں ہم ایک متحد اور یکجہتی معاشرے کے قیام کی امید نہیں کر سکتے۔ شاہ بانو مقدمے کا فیصلہ دیتے ہوئے بھی پانچ رکنی بنچ نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ ’یکساں سول کوڈ کی منزل کے سفر کی کم از کم ابتدا تو کر دی جائے۔‘‘
ملحوظ رہے کہ ملک میں تجارت، معاہدات، شراکت یعنی پارٹنر شپ، عام خرید و فروخت، انتقال جائیداد، تحدید(Limitation) ضابطۂ دیوانی اور ثالثی (Arbitration) وغیرہ سے متعلق مرکزی قوانین موجود ہیں جن کا اطلاق بلا تخصیص مذہب سبھی شہریوں پر ہوتا ہے۔ جہاں تک مختلف فرقوں کے پرسنل یا عائلی قوانین کا تعلق ہے تو شادی، طلاق اور وراثت جیسے موضوعات ہی ان قوانین کے دائرے میں آتے ہیں۔ ہندوؤں کے روایتی رسوم و رواج پر مبنی چلن کو ختم کر کے 1955-56 میں پارلیمنٹ نے شادی، طلاق، وراثت اور اولاد کومتبنیٰ کرنے سے متعلق قوانین بنا دیے تھے اور یہ بھی ایک وجہ ہے جس کی بنا پر اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں عیسائیوں اور پارسیوں کے عائلی قوانین یعنی پرسنل لاز کی مخالفت اور یکساں سول کوڈ کی حمایت کی جاتی ہے۔ اسلامی شریعت میں تو تعزیری قوانین بھی موجود ہیںجو نہ صرف دلی سلطنت اور مغلیہ دور بلکہ انگریزوں کی آمد کے بعد بھی کافی عرصے تک یہاں رائج رہے لیکن اب متروک ہیں۔ یہی کیفیت ضابطہ ہائے دیوانی و فوجداری اور قانون شہادت کی ہے، لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یکساں سول کوڈ سب سے زیادہ اسلامی شریعت کے جن قوانین کو متاثر یا تبدیل کرے گا ان کا تعلق شادی، طلاق اور وراثت سے ہے۔ مجوزہ سول کوڈ کی سب سے زیادہ مخالفت (کم از کم فی الوقت) مسلمانوں کی جانب سے ہو رہی ہے،اس واسطے یہ دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ مذکورہ موضوعات پر سول کوڈ کے ذریعے کی گئی ترامیم اسلا م کے بنیادی ڈھانچے یا مسلمانوں کی ’ آستھا‘ (عقیدت) کو کس حد تک مجروح کرے گی۔ کوڈ کے اطلاق اور نفاذ سے متعلق ذیلی مسائل تو سیکڑوں ہیں لیکن ان کا ذکر بعد میں ہو گا۔ (جاری)
[email protected]