وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے

0

عبیداللّٰہ ناصر

جارح ہندو احیا پسندی اور نام نہاد راشٹرواد کی وجہ سے پوری دنیا میں ہندوستان کی وہ عزت خاک میں ملتی جا رہی ہے جو بابا ئے قوم مہاتما گاندھی کی قیادت میں تحریک آزادی کے دوران ان کے مرتب کردہ اصولوں سچ، عدم تشدد، باہمی میل ملاپ، سبھی مذہبوں،سبھی فرقوں، سبھی طبقوں کو ساتھ لے کر چلنے جیسے آدرشوں کی وجہ سے ملک نے کمائی تھی اور جسے پنڈت نہرو کے زیر قیادت ہندوستان نے عالمی امن و استحکام اور پنچ شیل جیسے اصولوں کے ذریعہ ایک نوآزاد معاشی طور سے کمزور بھکمری کے شکار ملک کو دنیا کا قائد بنا دیا تھا اور یہ ثابت کر دیا تھا کہ صرف اپنے ملک ہی نہیں بلکہ عالمی برادری کے دلوں پر راج کرنے کے لیے فوجی اور معاشی طاقت نہیں بلکہ انسانی قدروں، اخلاقی طاقت اور باہمی محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سنگاپور کے وزیراعظم لی سین لونگ نے اپنے ملک کی پارلیمنٹ میں جمہوریت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوے جمہوریت کے سلسلہ میں ہندوستان کے پہلے وزیراعظم اور ہندوستان میں جمہوری نظام کو نافذ ہی نہیں بلکہ مستحکم کرنے والے پنڈت جواہر لعل نہرو کو یاد کیا اور اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ آج پنڈت نہرو کے ا سی ہندوستان کی پار لیمنٹ میں 43فیصد ممبروں پر سنگین فوجداری دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔مسٹر لی سین لونگ کے اس بیان پر مودی حکومت اتنی چراغ پا ہوئی کہ اس نے سنگاپور کے سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے اس پر احتجاج درج کرایا۔ سفارتی آداب کے تحت کسی ملک کے سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے احتجاج درج کرانا سنگین سفارتی اصولوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر ہی ہوتا ہے، یہاں یہ سمجھ پانا مشکل ہو رہا ہے کہ مودی حکومت کی ناراضگی مسٹر لی سین کے ذریعہ پنڈت نہرو کا نام لینے سے ہے یا نصف سے کچھ کم ہندوستانی ممبران پارلیمنٹ کی اصلیت اجاگر کرنے سے ہے کیونکہ آر ایس ایس اور اس کے کارکنوں کے نزدیک پنڈت نہرو ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں جن کے کارناموں کو وہ کمتر بنا کر پیش کرتی ہے اور یہی اصل وجہ سمجھ میں آتی ہے کیونکہ ممبران پارلیمنٹ پر مجرمانہ دفعات کے تحت درج مقدموں کی تفصیل تو ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم(اے ڈی آر) نامی تنظیم ہر الیکشن کے بعد جاری کرتی ہے جو انہی ممبروں کے ذریعہ دی گئی اطلاعات پر مبنی ہوتی ہے جو نہ جھوٹ ہوتی ہے نہ سیاسی الزام تراشی اور نہ ہی کوئی خفیہ رپورٹ۔یہ تو الیکشن کا پرچہ داخل کرتے ہی امیدوار کو خود اخباروں میں شائع کرکے بتانے کی قانونی پابندی ہوتی ہے، پھر کسی شخص کے ذریعہ اسے دوہرانے پر ناراضگی کیوں اور وہ بھی ایسے انداز میں کہ سفارتی اصولوں اور اخلاق کو ہی بالائے طاق رکھ دیا جائے۔اگر مودی حکومت کو مسٹر لی سین کے بیان پر اعتراض ہی تھا تو وزارت خارجہ کے ترجمان سے ایک وضاحتی بیان جاری کرا دیتی ۔اللہ اللہ خیر اللہ
مودی جی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے خاص کر لوک سبھا میں مکمل اکثریت کی بنا پر آرایس ایس کو اپنے نظریہ کے مطابق ملک کو ڈھالنے کا موقع مل گیا اور اس کی تقریباً سو سال کی محنت اور لگن ثمر آور ہونے لگی اور اسے وہ سب کرنے کا موقع مل گیا جو وہ اٹل بہاری واجپئی کے دور حکومت میں نہیں کر سکی تھی۔ اس کی دو خاص وجوہ تھیں اول اٹل جی کی شخصیت ،دوسری لوک سبھا میں اس کی اکثریت نہ ہونے کی بنا پر دوسری پارٹیوں کی حمایت پر اس کی حکومت کا انحصار لیکن مودی جی کے روپ میں اسے اس کا مسیحا مل گیا۔ گجرات فسادات کے بعد سیاسی حالات میں بڑی تبدیلی آئی اور مودی جی آر ایس ایس اور بی جے پی میں بڑے لیڈر کے طور پر اُبھرے۔ حالاں کہ بی جے پی کو اس مقام پر پہنچانے میں سب سے اہم کردار اڈوانی جی کا تھا لیکن وہ مودی کے مقابلہ کمزور پڑگئے کیونکہ مری سے مری حالت میں بھی انہیں انسانی اور جمہوری قدروں کا کچھ پاس و لحاظ رہتا تھا۔مودی کی قیادت والے ہندوستان میں گزشتہ سات برسوں میں ہندوستان میں وہ سب کچھ ہوا جو ہمارے تصور سے باہر تھا اور جو کوئی مہذب سماج سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اسلاموفوبیا اپنی بدترین شکل میں سامنے آیا۔سرکار کی سرپرستی میں ا سلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت بلکہ تشدد کی مہم چلائی گئی۔ جمہوریت کا محافظ سمجھا جانے والا میڈیا آر ایس ایس کے نظریات کا پرچارک بن گیا اور بہت سے معاملات میں عدلیہ تک سوالوں کے گھیرے میں آگئی۔ دیگر آئینی اداروں کا کیا رونا وہاں تو آر ایس ایس کے پرچارکوں یا اس کے نظریات کے حامی لوگوں کو بٹھا کر ان کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی اور وہ جمہوریت کا ستون بننے کے بجائے حکومت کا بازو بن گئے۔
ہندوستان میں جمہوریت شخصی آزادی اور انسانی حقوق کو لے کر عالمی برادری کی فکر بڑھتی جا رہی ہے، یہ ملک کے لیے شرم کی بات ہے لیکن اقتدار تعداد اور ملک کی ایک بڑی آبادی کو مذہبی جنون میں مبتلا کر دینے کے بعد بر سر اقتدار ٹولے کا تکبر اور غرور ساتویں آسمان پر ہے اور انہیں لگتا ہے کہ وہ عالمی رائے عامہ کو نظرانداز کرکے ہندوستان جیسے بڑے ملک کو شمالی کوریا ٹائپ کے ملک میں تبدیل کر دیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ حقوق انسانی کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں رہ گیا ہے، عالمی برادری خاص کر یوروپ، امریکہ وغیرہ کے عوام اس معاملہ میں بہت حساس ہیں، بھلے ہی ان کی حکومتیں مصلحت کوشی سے کام لیں۔
تازہ تنازع مسلم لڑکیوں کے حجاب کو لے کر شروع ہوا ہے۔ عقل حیران ہے کہ یہ تنازع کی وجہ کیوں بن گیا اور کرناٹک کے ایک خوبصورت چھوٹے سے شہر میں بلا وجہ کا شروع کیا گیا تنازع ملک گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر کیسے بن گیا!کرناٹک کے اس اسکول میں حجاب پر پابندی کیوں لگائی گئی، اس میں آر ایس ایس کے کارکن کیوں کود پڑے؟ پہلی نظر میں ہی یہ غیر قانونی اور غیر آئینی قدم عدالت میں اتنا لمبا کیوں کھنچ رہا ہے اور اس کو لے کر جو جارحانہ غیرمہذب و غیرانسانی رویہ اختیار کیا گیا اور جس طرح کرناٹک کی حکومت اس کو ہوا دے رہی ہے، فطری طور سے یہ معاملہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے زمرہ میں آگیا، یہاں تک کہ ہیومن رائٹس واچ نام کی عالمی تنظیم کو بھی اس معاملہ میں حکومت ہند کے رویہ کی نکتہ چینی کرنی پڑی اور حجاب کو مسلم لڑکیوں کا حق قرار دینا پڑا کیونکہ یہ ان کی پسند اور نا پسند کا معاملہ ہے، اگر حجاب زبردستی پہنانا غلط ہے تو اسے زبردستی اتروانا تو اس سے بھی بڑا جرم ہے لیکن ان مسلم دشمن عناصر کو دنیا کی تھو تھو سے کوئی مطلب نہیں ہے، ان کی غیرانسانی جبلت کو مسلمانوں کو ذہنی طور سے پریشان دیکھ کر ایک سڈسٹک پلیزر حاصل ہوتا ہے اور بی جے پی کو ووٹ کی فصل کاٹنے کا موقع مل جاتا ہے، بھلے ہی اس کی قیمت ملک کو کتنی بڑی ادا کرنی پڑے، اس سے ان کی صحت پر اثر نہیں پڑتا ۔
ان عناصر کی وجہ سے عرب ملکوں سے ہندوستان کے روایتی اور تاریخی تعلقات پر بھی اثر پڑرہا ہے۔ عرب حکومتیں تو سفارتی آداب کے تحت مصلحت سے کام لے رہی ہیں لیکن عرب عوام اور سیاسی شخصیات ہندوستان میں پھیل رہی مسلم اور اسلام دشمنی پر خاموش نہیں ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی شہزادی ہندہ القسام تو بہت پہلے سے ہی اس معاملہ میں کھل کر اپنا موقف واضح کرتی رہی ہیں۔ حجاب کے اس تازہ تنازع خاص کر مسکان خان نامی اس مسلم بچی جس کو آر ایس ایس حامیوں نے گھیر لیا تھا، اس کے معاملہ میں کویت کے ممبران پارلیمنٹ نے سخت موقف اختیار کیا اور اپنی حکومت سے یہاں تک مطالبہ کر دیا کہ بی جے پی سے وابستہ ہندوستانی شہریو ں کے کویت آنے پر ہی پابندی لگا دی جائے۔کویت میں تعینات ہندوستانی سفیر نے ششی تھرور کی ایک ٹوئٹ کے جواب میں بتایا کہ کویتی پارلیمنٹ میں یہ معاملہ ایک پاکستانی کی ایما پر اٹھایا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ نے آگ لگائی تو دھواں باہر جائے گا ہی۔ یہ ذمہ داری تو آگ لگانے والوں کی ہے کہ وہ اس کے نقصان کو سمجھیں۔
گزشتہ سات آٹھ برسوں میں سنگھی حکومت نے جس طرح ملک کو عالمی برادری میں رسوا کیا ہے اور جس طرح ہندوستان کی صدیوں پرانی نیک نامی کو ملیا میٹ کیا ہے، وہ لمحۂ فکریہ ہے۔ افسوس ہے کہ حکومت ہند اور ارباب اقتدار کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ ان کی توجہ کا واحد مرکز الیکشن جیتنا ہے، اس کے لیے ملک کا سماجی تانا بانا تباہ ہوتا ہے تو ہو، ملک کی ساکھ برباد ہو رہی ہے تو، ملک خانہ جنگی کے دہانہ پر پہنچ گیا تو کوئی فکر کی بات نہیں ہے، بس ان کا سیاسی مقصد پورا ہوتا رہے، یہ المناک ہے۔لمحوں کی اس خطا کا خمیازہ صدیاں بھگتیں گی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS