’غیرا خلاقی و غیر جمہوری حکومت ‘

0

ایکناتھ شندے کے وزیراعلیٰ بن جانے کے بعد بھی مہاراشٹر کا سیاسی طوفان تھمتا ہو ا نظر نہیں آرہاہے۔ اب تو ایسا لگ رہاہے کہ نئی حکومت شیوسینا کے ادھو ٹھاکرے گروہ کو پوری طرح ختم کرکے ہی دم لے گی۔ پیر کے روز اسمبلی میں اکثریت کا امتحان پاس کرنے کے بعد وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے اعلان کیا تھا کہ وہ انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ہیںلیکن ادھوٹھاکرے گروہ کے خلاف ہونے والی کارروائیاں کچھ اور ہی کہانی سنارہی ہیں۔اسمبلی میں شندے گروہ کی جانب سے نامزد شیو سینا کے چیف وہپ بھرت گوگاوالے نے اسمبلی اسپیکر راہل نارویکر کے سامنے شیو سینا کے 15 ایم ایل ایز کی رکنیت منسوخ کرنے کی درخواست دائر کی ہے۔گوگاوالے نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ شندے گروہ کو دو تہائی سے زیادہ ایم ایل ایز کی حمایت حاصل ہے، اس لیے انہیں وہپ جاری کرنے کا حق ہے۔ انہوں نے بی جے پی اور شندے گروہ کے امیدوار کی حمایت کیلئے شیوسینا کے 15 ایم ایل ایز کو بھی ایک خط لکھا تھا لیکن انہوں نے وہپ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مہا وکاس اگھاڑی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دیا، اس لیے ان کے خلاف پارٹی مخالف سرگرمیوں کیلئے کارروائی کی جانی چاہیے اور ان تمام ایم ایل اے کی رکنیت منسوخ کی جانی چاہیے۔
شندے کی بغاوت کے بعداب شیو سینا میں یہی15ایم ایل اے رہ گئے ہیں جو ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہیں اگر ان کی رکنیت بھی منسوخ کردی جاتی ہے تو اسمبلی میں ادھو ٹھاکرے کے ساتھ کھڑا ہونے والا شیوسینا کا کوئی رکن باقی نہیں بچے گا۔
ایکناتھ شندے بھلے ہی وزیراعلیٰ بن گئے ہوں لیکن یہ ایک کھلا راز ہے کہ بغاوت سے لے کر وزیراعلیٰ بننے اور اس کے بعد شروع ہونے والی ان کی تمام سرگرمیوںکے پس پشت بھارتیہ جنتا پارٹی ہے۔ ڈھائی سال قبل شیو سینا کا بڑے بھائی بننے کے اصرار کی وجہ سے بی جے پی حکومت سے باہر رہ گئی تھی لیکن اب اس نے چھوٹے بھائی کا کردار قبول کرکے مہاوکاس اگھاڑی اتحاد کی حکومت کو ہی اکھاڑ پھینکا ہے اور ایکناتھ شندے کے سہارے ہی اسمبلی سے شیوسینا کے خاتمہ کا بھی ڈول ڈال دیا ہے۔
ایک طرف یہ سرگرمیاں ہیں تو دوسری جانب یہ پیش قیاسی بھی زوروں پر ہے کہ یہ نئی حکومت بہت جلد گر جائے گی۔ مہاوکاس اگھاڑی میں شامل نیشنلسٹ کانگریس پارٹی(این سی پی)سربراہ شرد پوار شندے حکومت کی مدت حیات صرف 5سے 6 ماہ ہی بتارہے ہیں، یہی پیش قیاسی ترنمول کانگریس کی سربراہ اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے بھی کی ہے۔ سیاست کے ان دونوں گرگ باراں دیدہ لیڈران کا کہنا ہے کہ بہت سے ارکان اسمبلی نے بربنائے خوف ادھو ٹھاکرے سے بغاوت کی ہے اور وہ صورتحال سے مطمئن نہیں ہیں۔ان کا یہ عدم اطمینان نئی حکومت میں قلم دانوں کی تقسیم کے وقت ہی سامنے آجائے گا اور بہت ممکن ہے کہ بے اطمینانی کے عالم میں بہت سے باغی ارکان اپنی اصل پارٹی میں واپس آ جائیں۔ اس کے بعد حکومت گر بھی سکتی ہے، اس لیے مہاراشٹر کے لوگوں کو وسط مدتی انتخاب کیلئے تیار ہوجاناچاہیے۔ممتا بنرجی کا بھی کم و بیش یہی کہنا ہے کہ ادھو ٹھاکر ے کی حکومت کو پیسے، ای ڈی اور سی بی آئی کی طاقت کے زور پر گرایا گیا ہے، یہ ایک غیر اخلاقی اورغیر جمہوری حکومت ہے جو بہت جلد گر جائے گی۔
اب ان لیڈران کا یہ قیاس کرسی نشیں ہوتا ہے یا نہیںیہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ مہاراشٹر پر قبضہ کیلئے بھارتیہ جنتاپارٹی اوراس کی شہ پر ایکناتھ شندے نے جو حکومت قائم کی ہے، اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کیلئے جس طرح سے ارکان اسمبلی کو بغاوت پر اکسایا گیا، شیوسینا کے باغی ارکان اسمبلی کو آسام میں بھارتیہ جنتاپارٹی نے پیسے اور دیگر چیزیں فراہم کیں، جو ارکان اسمبلی پیسہ پر راضی نہیں ہوئے انہیں خوف دلایاگیا، یہ جمہوریت اور عوام کے مینڈیٹ کا مذاق بنانا ہے۔ جہاں تک حکومت گرنے کی پیش قیاسی کا معاملہ ہے، اس کی فی الحال کوئی بنیاد نہیں نظرآرہی ہے۔ ’ آپریشن لوٹس ‘کی کامیابی کیلئے جس طرح سے دولت اور طاقت کا استعمال ہوا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس غیر اخلاقی اور غیر جمہوری حکومت کو بچانے کیلئے بھی پوری طاقت جھونک دی جائے گی اور اس کا آغاز ادھو ٹھاکرے خیمہ کے 15 ارکان اسمبلی کی رکنیت منسوخ کرنے کیلئے درخواست دے کر پہلے دن سے ہی کردیاگیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS