ام المومنین حضرت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

0

شیخ عائشہ امتیازعلی، ناگپاڑہ

ام المومنین حضرت سیدہ ام سلمہؓ اور آپ کے شوہر عبداللہ بن عبدالاسد ابو سلمہؓکا شمار ان اولوالعزم لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اعلان نبوت کے کچھ ہی عرصہ بعد اسلام قبول کر لیا تھا۔ آپؐ کی دعوت اسلام پر ابھی صرف دس لوگ مسلمان ہوئے تھے آپ ؐ مسلسل محنت فرما رہے تھے۔ چنانچہ ایک دن آپؐ دارِ بنی اَرقم میں چند صحابہ کرام کے ہمراہ تشریف فرما تھے اسی دوران حضرت ابو سلمہ اپنی بیوی ام سلمہ کے ساتھ حاضر خدمت ہوئے۔ آپؐ نے ن کے آنے پر خوشی کا اظہار فرمایا اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، اور دونوں کو قرآن کریم کی چند آیات پڑھ کر سنائیں۔قرآن مجیدسننے کے بعد حضرت ابو سلمہؓنے کہا ’’ بھائی ہونے کے ناطے میرا بھی یہ حق بنتا ہے کہ میں بھی اس روشنی سے اپنی روح کو منور کروں جس سے دوسرے فیض حاصل کر رہے ہیں۔‘‘آپؐ نے ابو سلمہؓکے یہ الفاظ سنے توبہت خوش ہوئے، حضرت ابو سلمہؓ نے دوبارہ عرض کیا’’ ہم دونوں میاں بیوی کو مسلمان کر کے اپنی غلامی میں داخل کر لیجیے‘‘۔ چنانچہ کلمہ شہادت پڑھ کر مشرف باسلام ہوئے۔

صحابہ نے حضورؐ کی پیروی میں اپنی اپنی قربانیاں دیں اور احرام اتار کر سر منڈوا لیا۔ام المومنین حضرت سیدہ ام سلمہ ؓؓ کی دانشمندی اور عقل و ذہانت کی وجہ سے یہ مسئلہ حل ہو گیا- یہ آپؓ کی دانشمندی کی سب سے بہتر مثال ہے۔اللہ تعالی نے آپؓ کو خوبروئی، علم و ذہانت اور اصابت رائے کی نعمتوں سے کافی حصہ دیا تھا۔قرآن کریم کی قرات نہایت عمدہ طریقے سے کرتی تھیں اور آپ کی قرأت حضورؐ کی قرأت سے مشابہت رکھتی تھی۔

حبشہ کی طرف پہلی ہجرت :اعلان نبوت کے پانچویں سال رجب المرجب کے مہینے میں حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم ملا۔ چنانچہ11 مردوں اور4خواتین پرمشتمل چھوٹا سا قافلہ مکہ مکرمہ کو الوداع کہتے ہوئے حبشہ کی طرف روانہ ہوا۔اس قافلے میں آپ ا ور آپ کے شوہر ؓ بھی شامل تھے۔ اسی دوران آپؓکے گھر ایک بچہ سلمہ پیدا ہوا۔ والدین کو اپنے بچے سے بے حد محبت تھی۔ چنانچہ اسی کی وجہ سے دونوں میاں بیوی نے اپنی کنیت’’ ام سلمہ‘‘ اور’’ ابو سلمہ‘‘ رکھاآپؐ کا ایک جانی دشمن عبداللہ بن ابی امیہ تھاجو جنگ احد میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہواچونکہ ام سلمہ اور ان کے شوہر ابو سلمہ کو مشرکین اور ان کے رشتہ داروں کی طرف سے ناقابل برداشت اذیتیں پہنچائی جاتی تھیں۔ اس لئے انھوں نے سنہ5ھ میں کچھ دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ ہجرت کی۔ ایک مدت کے بعد جب یہ خبر ملی کہ مشرکین مکہ کی طرف سے اذیت و آزار میں کمی واقع ہوئی ہے اور بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے، تو ابو سلمہ اپنی بیوی کے ہمراہ مکہ لوٹے۔
آپ کے والد ایک دولتمند اور بے حد فیاض آدمی تھے، ان کی سخاوت اور دریادلی کی شہرت چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ بیسیوں لوگ ان کے دسترخوان پر پلتے، کبھی سفر کرتے تو اپنے تمام ہمراہیوں کی خوراک اور دوسری ضروریات کی کفالت ان ہی کے ذمہ ہوتی۔ ان فیاضیوں کی بدولت لوگوں نے انہیں ’’زاد الرکاب‘‘ کا لقب دے رکھا تھا، اور وہ تمام قبائلِ قریش میں نہایت عزت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے آپؓبھی اپنے باپ کی مانند بے حد سخی تھیں، دوسروں کو بھی سخاوت کی ترغیب دیتی تھیں، ناممکن تھا کہ کوئی سائل ان کے گھر سے خالی ہاتھ چلا جائے، زیادہ نہ ہوتا تو تھوڑا یا جو کچھ بھی ہوتا، سائل کو عطا کر دیتیں۔آپؓ کا پہلا نکاح آپ کے چچازاد بھائی ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومیؓسے ہوا۔ان ہی کے ساتھ وہ مشرف بہ اسلام ہوئیں اور ان ہی کے ساتھ پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور پھر وہاں سے مکہ واپس آ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ آپ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپ سب سے زیادہ ہجرت کرنے والی خاتون تھیں، حضرت ابو سلمہؓ غزوۂ احد میں شہید ہوئے۔
آپؓنے راہ حق میں جو مصیبتیں اٹھائی تھیں، حضورؐکو اس کا بے حد احساس تھا۔ چنانچہ عدت گزارنے کے بعد حضور اکرمؐ نے حضرت عمر ؓ کی معرفت آپؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا جس کوآپؓ نے قبول فرمایا۔ماہ شوال4ھ میں آپؓحضور ؐ کے نکاح میں آ گئیں۔ نکاح کے وقت آپ ؓ کی عمر26سال تھی،آپؓکو مہر میں حضورؐنے کھجور کی چھال سے بھرا ہوا ایک چرمی تکیہ، دو مشکیزے اور دو چکیاں عطا فرمائیں، جو کسی ازواج مطہرات کو عطا نہیں فرمائی تھی۔ نکاح کے بعد آپؓحضرت زینب بنت خزیمہؓکے گھر لائی گئیں۔ ایک دن حضرت نبی کریمؐ آپ ؓ کے گھر تھے، آیتِ تطہیرکا نزول ہوا۔ حضرت عائشہؓکے بعد ازواج مطہرات میں حسن و جمال کے ساتھ عقل و فہم کے کمال کا بھی ایک بے مثال نمونہ تھیں۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہؐ نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنی اپنی قربانیاں کر کے سب لوگ احرام کھول دیں اور بغیر عمرہ ادا کئے سب لوگ مدینہ منورہ واپس لوٹ جائیں، کیونکہ اس شرط پر صلح حدیبیہ ہوئی ہے، لوگ اس رنج و غم میں تھے، ایک شخص بھی قربانی کیلئے تیار نہیں تھا، حضور ؐ کو صحابہؓ کے اس طرز عمل سے روحانی کوفت ہوئی اور حضورؐ نے اس معاملہ کا ذکرام المومنین حضرت سیدہ ام سلمہ ؓؓ سے کیا توآ پؓ نے عرض کیا آپؐ خود قربانی ذبح فرمائیں، احرام کھول دیں اور سرمنڈوالیں۔ چنانچہ حضورؐ نے ایسا ہی کیا، صحابہ کرامؓنے یقین کر لیا کہ اب حضورؐ صلح حدیبیہ کے معاہدہ سے ہرگز ہرگز نہ بدلیں گے۔ صحابہ نے حضورؐ کی پیروی میں اپنی اپنی قربانیاں دیں اور احرام اتار کر سر منڈوا لیا۔ام المومنین حضرت سیدہ ام سلمہ ؓؓ کی دانشمندی اور عقل و ذہانت کی وجہ سے یہ مسئلہ حل ہو گیا- یہ آپؓ کی دانشمندی کی سب سے بہتر مثال ہے۔اللہ تعالی نے آپؓ کو خوبروئی، علم و ذہانت اور اصابت رائے کی نعمتوں سے کافی حصہ دیا تھا۔قرآن کریم کی قرات نہایت عمدہ طریقے سے کرتی تھیں اور آپ کی قرأت حضورؐ کی قرأت سے مشابہت رکھتی تھی۔آپؓ نے 43ھ میں وفات پائی اس وقت آپؓ کی عمر اسّی سال تھی۔ نماز جنازہ حضرت ابوہریرہؓ نے پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ امہات المومنین میں آپؓ سب سے آخر میں فوت ہوئیں۔q

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS