ضیاء المصطفیٰ نظامی
جنرل سکریٹری آل انڈیا بزم نظامی
سب سے پہلے حضوراکرمؐ کے عقد نکاح میں آنے والی خوش نصیب خاتون ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریؓ ہیں، آپ کا نام خدیجہ بنت خویلد ہے اور والدہ کا اِسم مبارک فاطمہ بنت زاہدہ ہے۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت خدیجہ بنت خویلد بن اسعد بن عبد العزی بن قصی۔ قصی پر پہنچ کر رسولِ کریمؐ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ آپ کی کنیت ام القاسم، ام ہند اور القاب الکبریٰ، طاہرہ اورسید قریش ہیں، آپ کی ولادت عام الفیل سے 15سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
آپ کے والد قبیلہ میں ممتاز حیثیت کے حامل اور مکہ کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ ام المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاایک کامیاب اور متمول تاجرہ تھیں آپ مکارمِ اَخلاق کی پیکرِ جمیل تھیں، رحمدلی، غریب پروری اور سخاوت آپ کی اِمتیازی خصوصیات تھیں۔حضرت ابن اسحاق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اْمّ المومنین حضرت خدیجہ کا شمار مکہ مکرمہ کی شریف ترین معزز اور مالدار خواتین میں ہوتا تھا۔ وہ مکہ مکرمہ کے دوسرے تاجروں کے ساتھ مل کر بطورِ مضاربت تجارت کرتیں اور اپنا تجارتی مال مکہ مکرمہ سے باہر بھیجا کرتی تھیں، جتنا سامانِ تجارت سارے اہل قافلہ کا ہوتا اتنا اکیلے سیّدہ خدیجہ عنہاکا ہوتا۔
ام المومنین سیدہ، طیبہ، طاہرہ، محسنہ اسلام حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے رسول کریمؐ کی شرافت، نسب، امانت، حسنِ اَخلاق اور راست بازی اور آپؐ پر اللہ تعالیٰ کی عنایات کی وجہ سے اْمّ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپؐ سے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی ،جب خود حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اِس پیشکش کا تذکرہ نبی کریمؐ نے اپنے چچا سے کیا تو حضرت امیر حمزہ،حضرت خدیجہ سے رشتے کا پیغام لے کر خویلد ابن اسعد کے پاس گیے جسے اْنہوں نے قبول کیا۔
اْمّ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا حضور سید کائناتؐ کی زوجیت میں 25سال گزارے۔ خواتین میں ہی نہیں بلکہ ساری کائنات میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔اپنا سارا مال راہِ خدا میں خدمت دین کے لیے خرچ کر دیااور رْبع صدی کی اس رفاقت میں ایک لمحہ کے لیے بھی رسول اکرمؐ کو ناراض نہیں ہونے دیا۔وہ واحد ہستی ہیں جنہیں ’خیرامت‘ کہا گیا، وہ ہمراز رسالت بھی ہیں اور غمگسار رسولؐ بھی۔
مذہب اسلام کی ترویج واشاعت کے لیے آپؐ نے مصائب وآلام کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔وہ صبرواستقامت کا پہاڑ تھیں،اخلاص وللہیت کاخزانہ ان کے دل ودماغ میں موجزن تھا۔ان کی قربانیوں پر خود رسول اللہؐ ان کے ممنون رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ذکر سیدہ خدیجۃ الکبریٰ سن سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رشک آیا اور انہوں نے عرض کیا کہ ’’…یارسول اللہؐ! آپ ہر وقت قریش کی بوڑھیوں میں سے ایک سرخ چہرے والی بڑھیا کا ذکر کرتے رہتے ہیں، حالانکہ ان کے انتقال کو ایک عرصہ گزر چکا ہے…‘‘ اس پرسرورکائناتؐ نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو خراج عقیدت یوں پیش فرمایا وہ ہماری اسلامی تاریخ میں منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ حضورؐ یوں بیان فرمایا:’’… خدیجہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگوں نے کفر کیا،… خدیجہ نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے میری تکذیب کی،… خدیجہ نے اس وقت مجھ کو مال خرچ کرنے کو دیا جب لوگوں نے مال کو روکے رکھا…اللہ تعالیٰ نے خدیجہ ہی کے ذریعے میری اولاد چلائی (یعنی ان کے بطن سے ہی مجھ کو اولاد عطا ہوئی) جب کہ کسی دوسری بیوی کے بطن سے میری اولاد نہیں ہوئی۔‘‘
حضورنبی کریمؐ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یاد میں ہرسال بکری ذبح کر کے اس کا گوشت خود کاٹ کاٹ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو بھجواتے تھے۔ اس عمل نبوی سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ وفات پا جانے والے احباب واقربا کی یاد منانا جائز ہی نہیں بلکہ سنت نبویؐ سے بھی ثابت ہے۔ مرحومین کی یاد میں تقریب منعقد کر کے اس کے دوست واحباب کو بلانا، انہیں ہدیہ پیش کرنا بھی جائز ہے۔اس سے سنت نبویؐ کااحیا بھی ہوگا اور متوفی کی روح کو بھی سکون نصیب ہوگا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ایک سہیلی جب بارگاہ نبویؐ میں حاضر ہوئی توحضورؐنے خود ان کو عزت عطا فرمائی، ان کی حوصلہ افزائی کی، ان کی خیریت دریافت کی، شفقت فرماتے رہے اور ان کے جانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ ’’… یہ خدیجہ کی ایک سہیلی تھی اور اسے ان سے محبت تھی…‘‘ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت کے آنے پر حضورؐ مسرور ہوئے اور کافی دیر اس کے پاس بیٹھ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ کرتے رہے۔ اس کے جانے کے بعد میں نے پوچھا یہ بڑھیا کون تھی؟ توارشاد فرمایا کہ یہ خدیجہ کی ہمشیرہ ہالہ بنت خویلد تھیں۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایاکہ ’’… خدیجہ کی مثل دنیا میں کوئی عورت پیدا ہی نہیں ہوئی… جبریل امین علیہ السلام نے اپنی طرف سے اور خود رب کائنات کی طرف سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے سلام پہنچایا اور جنت میں موتیوں والے ایک انوکھے اور جداگانہ محل کی بشارت دی۔
ام المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے10رمضان المبارک کووصال فرمایا۔ یہ وہ وقت تھا جب پیارے نبیؐ نے ان صدمات کا بے حد اثر لیا اور اِس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار فرمایا۔ تدفین کے وقت حجون کے قبرستان میں آپؐ خود لحد پاک میں تشریف لے گئے اورپھر اس میں حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کورب تعالیٰ کے سپرد فرمادیا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد حضوراکرمؐ اکثر ان کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور ذکر کے وقت آپؐ کی مبارک آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے تھے۔ رب کریم ہمیں ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے کردار پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اوران کے فیوض وبرکات سے مالامال فرمائے۔آمین یارب العالمین
ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریؓ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS