عمیر انس
ملک کی موجود سبھی فلم انڈسٹریز میں ہر سال کوئی ہزاروں فلمیں، ڈرامے، ڈاکیومنٹریز وغیرہ بنتی ہیں اور ہندوستانی مارکیٹ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے بازار میں اپنی مقبولیت درج کرا رہی ہیں۔ لیکن معمولی سی ریسرچ سے تین مشاہدے نوٹ کیے جا سکتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کو موجود فلم انڈسٹریز میں سرگرمی کے ساتھ شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے درمیان ایک اور فلم انڈسٹری کو جنم دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پہلا مشاہدہ یہ ہے کہ ان ہزاروں فلموں میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے کرداروں کی نمائندگی میں سخت نا انصافی عام ہو گئی ہے۔ مسلمان کردار اب صرف دہشت، فسادات، مغلیہ ظلم، پاکستان اور اسلامی انتہا پسندی کے موضوعات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں جیسے کہ مسلمان معاشروں میں نارمل کہانیاں ہوتی ہی نہیں، جیسے ان کے مردو خواتین نہ مذاق کرتے ہیں نہ شاپنگ کرتے ہیں، نہ نوکریاں کرتے ہیں نہ وہ سبھی انسانی جدوجہد کرتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی فلم بنانے والا فلم بناکر کمانے کی تحریک لے سکتا ہے، فلم بنانے والوں کو خوب معلوم ہے کہ ایسی کہانیاں ایک عام انسانی بات ہے لیکن اسے معلوم ہے کہ اس کی انڈسٹری میں مسلم کہانیوں کے لیے قبولیت نہیں ہے۔ ملک کا ماحول اس قدر منفی بنا دیا گیا ہے کہ کوئی کمپنی ایسی فلموں کو اسپانسر کرنے اور مشہور فلم اداکار ان کہانیوں کو قبول نہیں کرسکتے۔
دوسرا مشاہدہ یہ ہے کہ مسلمان کرداروں کو فلموں میں دکھانے کی موجود فلم انڈسٹریز کا طریقہ اب ایک منہج بن گیا ہے۔ خیر ٹیلی ویژن سے تو مسلمان کردار ایسے غائب ہو گئے ہیں جیسے کہ بیس کروڑ کی مسلمان آبادی ہندوستان میں ہے ہی نہیں۔ منہج یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس ملک میں انتہائی منفی کرداروں میں ہی دکھایا جائے، یہ منفی کردار اس وجہ سے ہو کیونکہ ان کا مذہب ہی خراب ہے یا وہ خود خراب ہیں یا ان کی تاریخ خراب ہے یا ان کے طور طریقے خراب ہیں۔ آپ ایک ہزار فلموں کی فہرست بنا کر یہ ڈیٹا جمع کریں کہ کس فلم میں مسلم کردار کو کتنا اسکرین ٹائم دیا گیا اور اس ٹائم میں مسلم کردار کو منفی یا نارمل کردار دیا گیا۔یقینا مسلمان مافیا، دہشت گرد اور مجرم ہونا ممکن ہے لیکن فلموں کے مسلمان کرداروں میں کالج جانے والا، عام نوجوانوں کی طرح بات چیت کرنے والا، مسجد جانے والا، ہر وہ کام کرنے والا جو ایک عام غیر مسلم نوجوان کو فلموں میں کرتے دکھایا جا سکتا ہے، ان کرداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی بمشکل ہوتی ہے۔ کیا مسلم کہانیوں میں خود کو فروخت کرنے اور مقبول ہونے والے کردار بغیر منفی ہوئے ممکن نہیں ہیں؟ آپ دیکھ سکتے ہیں مسلمان آرٹسٹ جنہیں موقع نہیں ملا، وہ مالیگاؤں اور حیدرآباد میں مزاحیہ پروگرام بنا کر خوب مقبول اور مشہور ہوئے ہیں۔ کتابوں میں تو مسلمانوں نے بہت ساری اچھی تخلیقات پیش کی ہیں جنہیں فلموں اور ڈراموں میں منتقل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ایک مبنی بر انصاف انڈسٹری میں ان کہانیوں کو اپنے آپ ہی موقع ملنا چاہیے لیکن کسی بھی ڈیٹا سے آپ یہ پتہ کرسکتے ہیں کہ ایسا بیس پچیس سالوں سے نہیں ہو رہا ہے یعنی کہ یہ ناانصافی کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک منہج بن چکا ہے، ظاہر ہے کہ اس کو چیلنج کیا جانا چاہیے۔ لیکن مسلم تخلیقی صلاحیت رکھنے والے نوجوانوں کو بھی اپنی تخلیق کو اسکرین پر لانے کے لیے ہر طرح کا سپورٹ دیا جانا چاہیے۔
تیسرا مشاہدہ جو زیادہ تکلیف دہ ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان کرداروں کو اسکرین پر منفی اور قابل نفرت کرداروں میں پیش کرنے کا رجحان کوئی اتفاق اور حادثہ نہیں ہے بلکہ ملک میں سنگھ پریوار کے نظریاتی استبداد کا نتیجہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستانی عوام فلموں کو ایک متبادل علم کی طرح لیتے ہیں اور بہت زیادہ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہندوستانی عوام کوئی امریکہ اور برطانیہ کے عوام نہیں ہیں جو فلموں کو فلموں کی طرح دیکھتے ہوں اور اس کو فلم ہال کے اندر بھلا کر باہر نکلتے ہوں۔ ہمارے یہاں فلموں کا استعمال ایک سیاست ہے اور سیاسی پروپیگنڈہ کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسے میں ملک میں ایک بہت بڑی سیاسی تبدیلی بلکہ انقلاب جاری ہے جس انقلاب میں ملک کی سیاست میں ایک پارٹی، ایک نظریہ اور ایک طرز سیاست غالب ہو رہی ہے اور ساری سیاسی جماعتیں صرف اور صرف ہندو رائے دہندگان کے جذبات اور احساسات کا خیال کرنا ضروری سمجھتی ہیں اور مسلمانوں کے احساسات اور جذبات کو وہ صرف بند کمرے میں خفیہ طریقے سے ہی سننا اور بات کرنا چاہتی ہیں۔ مسلمان کرداروں کو عوامی نفسیات میں قابل قبول شکل میں پیش کرنے کی اجازت دینا اس نظریے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے، یہ بات دیگر مذہبی اقلیتوں کے لیے تقریباً درست ہے، مسلمان کرداروں کو قابل نفرت بنانے کا عمل ایک بہت بڑی سیاسی ضرورت ہے جو رائے دہندگان کے ذہن کو ایک مخصوص قسم کا سیاسی اور سماجی فیصلہ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اتنا زیادہ کہ کوئی سنگھ پریوار کے نظریاتی کیمپ میں ٹریننگ میں جائے بغیر بھی صرف ایک دو فلمیں دیکھ کر کسی مسلمان کرائے دار کو اپنا گھر دینے سے منع کرسکتا ہے۔ یعنی نفرت کا کاروبار ایک آٹومیٹک گن کی طرح کام کرنے لگا ہے جس کے لیے کسی برے اور تلخ حادثے کے لیے سنگھ پریوار کے افراد اور ان کی تنظیموں کا وہاں ہونا کوئی ضروری نہیں رہا ہے۔
لیکن میرا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کو فلم انڈسٹریز کا سرگرم حصہ بننا چاہیے اور اس کے لیے صرف سنگھ پریوار کی نفرت کی سیاست اکیلی وجہ نہیں ہے، بلکہ سبھی انسانوں کی طرح مسلمانوں کو اپنے انسانی واقعات اور تجربات کو تخلیقی اظہار کے ہر فورم میں پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، ایک تخلیق کار کی کامیابی اور ناکامی اسی بات سے دیکھی جاتی ہے کہ وہ اپنی کہانی کتنے زیادہ سے زیادہ لوگوں اور کتنے زیادہ دلچسپ انداز بیان میں سنا سکتا ہے، تخلیقی اظہار کی انڈسٹری ہزاروں کروڑ کی ہے، اس میں مسلمان تخلیق کاروں اور فلم میکرز کو بھی جائز طریقے سے پیسہ کمانے اور مقبولیت حاصل کرنے کا مقابلہ کرنا چاہیے، کیا مسلمان کہانیاں ہندوستانی آڈینس تک پہنچنا ضروری ہے یا نہیں؟ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ مسلمانوں کو اس ملک میں برابر کے شہری ہونے کے لیے انہیں اس ملک کے سبھی میدانوں میں برابری کی شرکت کے ساتھ جانا چاہیے، اس سے اس ملک میں صرف سیاسی جمہوریت ہی نہیں بلکہ سماجی جمہوریت کو بھی تقویت ملتی ہے۔ ملک میں جہاں سیاسی جمہوریت کی ضرورت ہوتی ہے، سماجی جمہوریت اس سے بھی زیادہ ضروری ہوتی ہے کیونکہ سیاسی جمہوریت کو عوام ہی بناتے ہیں۔
مثال کے طور پر مسلمانوں نے اس ملک کی آزادی میں کیا کردار ادا نہیں کیے، ہمارے سبھی مجاہدین آزادی کی زندگیوں پر شاندار فلمیں دیکھنا ہمارا حق ہے جو موجودہ فلم انڈسٹری ہم سے چھین رہی ہے، تاریخی واقعات کو ان کے صحیح تاریخی نقطہ نظر سے پیش کرنا فلم انڈسٹری کے پروفیشنل اقدار کی ضرورت ہے لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے، ہزاروں پیروں اور صوفیاء نے اس ملک میں محبت اور امن کی تعلیم عام کی لیکن خواجہ اجمیری سمیت کسی بھی صوفی کے کردار کو ہم اسکرین پر دیکھنے کے لیے ترس رہے ہیں، ترکی اپنے صوفیاء کو مثلاً یونس امرے کو انتہائی شاندار طریقے سے پیش کر دیتا ہے، اگر مسلمان اس ملک کی فلم انڈسٹری میں برابر کا حق رکھتے تو ان کی کہانیاں بھی سنائی جاتیں اور عوام اس کو سنتے بھی اور داد تحسین بھی دیتے،لیکن ہندوستانی مسلمان کلچر سیاست میں پوری طرح یتیم بلکہ مظلوم بن کر رہ گئے ہیں جس کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ مسلمان تخلیق کار اور فلم آرٹسٹ موجودہ فلم انڈسٹری میں اپنی کہانیوں کو پوری تیاری سے بچانے کے کوشش کریں لیکن اگر ان کی کہانیوں کو کوئی موقع نہیں مل رہا ہے توکیا وہ ترکی، دبئی اور ایران کی فلم انڈسٹری سے مدد مانگنے جائیں گے کیا؟ ارتغل غازی کا ترکی ڈرامہ اسی لیے بہت مقبول ہوا تھا کیونکہ مسلمان اپنی کہانیاں سننے کے لیے ترسے ہوئے تھے، سالوں سے انہوں نے خود کو اچھے اور خوبصورت کرداروں میں نہیں دیکھا تھا، ترکی کی فلم انڈسٹری نے ثابت کیا کہ ایک مسلمان آرٹسٹ بھی ہر قسم کی اچھی کہانیاں اسکرین پر مقبول بنا سکتا ہے۔ اس ملک میں بھی ایسی فلموں کو سپورٹ کرنا ممکن ہے۔کیوں نہیں کوئی بڑا مسلمان سرمایہ دار کمزور لوگوں کے لیے دو چار فلم سٹی نہیں بنا لیتا جہاں فلم شوٹنگ سے لے کر پروڈکشن تک سستے سے سستے داموں میں ممکن ہو۔سیکڑوں نوجوانوں کو نوکریاں مل سکتی ہیں، سیکڑوں کہانی لکھنے والے مقبول ہونے کے لیے منتظر ہیں، ہزاروں شاندار نظمیں دنیا کو اپنی طاقت دکھائے بغیر کتابوں میں دفن ہیں، ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ آپ کی کہانی کون دیکھے گا، ایک دن آپ کی کہانی ضرور سنی جائے گی اور اس ملک کے عوام آپ کی فلموں پر کھڑے ہوکر شاباشی دیں گے،بس آپ مقابلے کے میدان میں ضروری ساز و سامان سے لیس ہوکر آجائیں!
[email protected]