جموں و کشمیر میں 2سال میں ڈھائی ہزار افراد گرفتار

0
Dawn

یواے پی اے کے تحت گرفتارلوگوں میں46فیصد اب بھی مختلف جیلوں میں
سری نگر( صریر خالد/ایس این بی) : آئین ہند کی دفعہ 370کو منسوخ کرکے جموں وکشمیر کو ریاست سے 2 یونین ٹریٹریز میں بدل دیئے جانے کے بعد سے سرکار نے سابق ریاست میں پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) اور ان لا فْل ایکٹیوٹیز(پرونشن) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت قریب ڈھائی ہزار افراد کو جیل بھیج دیا ہے۔ یہ انکشاف معروف انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے ایک رپورٹ میں کیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ کافی لوگوں کو ان سخت قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، بلکہ ان میں سے بیشتر اب بھی مختلف جیلوں میں بند ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جموں وکشمیر کے مختلف علاقوں سے مذکورہ بالا دونوں قوانین کے تحت قریب 2300افراد گرفتار کئے گئے ہیں اور ان میں سے ابھی تک نصف کے قریب لوگ جیلوں میں ہی پڑے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یو اے پی اے جیسے سخت قانون کے تحت گرفتار شدگان میں سے 46فیصد اور پی ایس اے کے تحت اْٹھائے گئے 30فیصد لوگ اب بھی مختلف جیلوں میں نظربند ہیں۔ خود پولیس کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2019میں پی ایس اے کے تحت 699 گرفتاریاں عمل میں لائی گئی تھیں، جبکہ اس کے اگلے سال اسی قانون کے تحت مزید 160 افراد کو گرفتار کر کے مختلف جیلوں میں بھیج دیا گیا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ رواں سال میں ابھی تک قریب 100 لوگوں کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا جا چکا ہے۔ 5اگست2019کو دفعہ 370کی تنسیخ کے ایک ماہ کے اندر ہی قریب 300 لوگوں کو پی ایس اے کے تحت جیل بھیج دیا جاچکا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں 3سابق وزرائے اعلیٰ، فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی، بھی شامل تھے،جہاں ہزار بھر لوگوں کو پی ایس اے کے تحت بند کیا گیا تھا، وہیں کم از کم 2,364 افراد کو یو اے پی اے کے سخت قانون کے تحت جیل بھیج دیا جاچکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2019میں 437 مختلف معاملات میں 918 افراد کو اس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، جب کہ 2020میں اسی قانون کے تحت 557 معاملات میں ملوث بتاکر 953 افراد کو گرفتار کیا گیا۔رواں سال میں ابھی تک 275 معاملات کے تحت 493 افراد کو جیل بھیجا جاچکا ہے۔ان میں سے گرچہ بعض عدالتی احکامات وغیرہ کے تحت چھوٹ چکے ہیں تاہم تقریباً1,100 افراد اب بھی مختلف جیلوں میں بند ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گرفتاریوں کے گراف میں جہاں پی ایس اے کے تحت پکڑے جانے والوں کی لکیر تنزل دکھا رہی ہے، وہیں یو اے پی اے کے تحت جیل پہنچنے والوں کو ظاہر کرنے والی لکیر بلند ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سرکار’مطلوبہ افراد‘ کو زیادہ سخت قوانین کے تحت بند کرنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ اس طرح پی ایس اے کے برعکس لوگوں کی نظربندی کو طول دینے کیلئے نظربندی کے دورانیہ میں اضافہ کرانے کی قانونی ضرورت کو پورا کرنے کی مجبوری بھی پیش نہیں آتی ہے۔ ان گرفتاریوں کے علاوہ سیکڑوں لوگوں کو ’احتیاطی حراست‘ میں لیا گیا ہے۔
جبکہ بعض لوگوں کا الزام ہے کہ مختلف پولیس تھانوں میں بعض اوقات کئی کئی لوگوں کو کئی کئی دنوں کیلئے بند کیا جاتا ہے اور اس کا کوئی باضابطہ ریکارڈ بھی نہیں ہے۔
گزشتہ ماہ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے جموں وکشمیر کے حوالے سے بلائی گئی کْل جماعتی میٹنگ میں نظربندوں کی رہائی کا معاملہ اٹھایا گیا تھا، تاہم بقول نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر کے، دیگر باتوں کی ہی طرح اس حوالے سے بھی ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ جہاں مین اسٹریم کے سبھی لوگوں کو رہا کیا جاچکا ہے وہیں شمالی کشمیر کے حلقہ انتخاب لنگیٹ سے 3بار ممبر اسمبلی رہے عوامی اتحاد پارٹی (اے آئی پی) کے صدر انجینئر رشید کو ابھی تک رہا نہیں کیا گیا ہے اور وہ ہنوز دلی کی تہار جیل میں بند ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS