مرزا انور بیگ
آج پھر صبح صبح وہی بس مل گئی تھی جس کا کنڈکٹر نہایت ہی کھڑوس قسم کا انسان تھا گویا اس کے اندر انسانیت و اخلاق نام کی کوئی چیز چھو کر نہ گزری ہو ۔ اسے دیکھتے ہی سفر کا سارا مزہ کرکرا ہو جاتا تھا اور سفر بھی وہ کہ دفتر جانا ۔دراصل ہم لوگ اسٹاف کے لوگ تھے اور صبح کی ہماری ڈیوٹی ہوتی تھی ۔ ہم سرکاری ملازم تھے لہٰذا ہمیں جو شناختی کارڈ ملتا تھا وہی ہمارے مفت سفر کرنے کا پروانہ بھی ہوتا تھا ۔ ہم اس کارڈ کے ساتھ جہاں تک ہماری کمپنی کی بسیں چلتی تھیں وہاں تک مفت میں سفر کر سکتے تھے اور یہ سہولت ہر ملازم کو حاصل تھی چاہے وہ جس درجے کا ہو ۔ ہمارا ایک مخصوص اشارہ تھا جو ہم ہاتھ سے کرتے تھے اور بس کنڈکٹر ہوں یا ڈرائیور اسے دیکھ کر سمجھ لیتے تھے کہ ہم اسٹاف کے لوگ ہیں اس لئے کنڈکٹر ٹکٹ نہیں لیتا تھا اور اگر سڑک پر آتی بس کو اشارہ کر دیتے تو ڈرائیور بس اسٹاپ نہ ہونے کے باوجود بس کی رفتار تھوڑی دھیمی کر دیتا اور ہم لپک کر بس میں سوار ہو جاتے ۔ لیکن وہ کنڈکٹر صبح صبح شناختی کارڈ مانگ کر موڈ خراب کر دیتا ۔ ہوتا یہ ہے کہ جس بس میں اکثر سفر کریں کنڈکٹر کو اسٹاف ہونے کا اشارہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود پہچان رکھتا ہے کہ یہ اسٹاف ممبر ہے لیکن وہ کنڈکٹر روزآنہ شناختی کارڈ طلب کرتا اور بس میں سوار سبھی اسٹاف کے افراد ناک بھوؤں چڑھا کر اپنا اپنا کارڈ دکھاتے ، کوئی طنز کستا ،کوئی گھور کر دیکھتا مگر مجبوری تھی اگر وہ بس چھوٹ گئی تو پھر لیٹ ریمارک لگتا تھا ۔ کوشش یہ ہوتی کہ جلدی نکل کر اس سے پہلے والی بس پکڑیں ۔ اس کنڈکٹر میں اور بھی کئی خرابیاں تھیں ۔ عمر خاصی تھی لیکن عوام سے اس کا برتاؤ بہت بیگانوں جیسا تھا ۔ اگر بس میں مسافر تعداد سے کچھ زیادہ سوار ہونے کی کوشش کریں تو روک دیتا تھا اس لئے اس کے ساتھی کنڈکٹر اسے اوپر کے ڈیک پر ڈیوٹی دیتے ۔ اوپر کھڑے ہو کر سفر ممنوع تھا اس لئے وہ مسافروں کو اوپر کے حصے سے نیچے بھیج دیا کرتا جس کی وجہ سے کافی زحمت بھی اٹھانی پڑتی ۔
دنیا میں نہ جانے ایسے کتنے کھڑوس لوگ ہوتے ہیں جن سے دوسرے لوگ پریشان رہتے ہیں ۔ ان کی شکل دیکھ کر ہی کئی لوگوں کا خون جل جاتا ہے جیسے اس کنڈکٹر کو دیکھ کر ہمارا جل جاتا تھا۔
میرا آپریشن تھا ۔ سرکاری اسپتال میں میں داخل تھا اور دو روز گزر چکے تھے سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا ۔ میں رات میں کھانے کے بعد وارڈ کی راہداری میں چہل قدمی بھی کر لیتا تھا ۔ تیسرے روز وارڈ میں عجیب قسم کی ہلچل تھی ، آج جو وارڈن آئی تھی اس کی کرخت آواز اور ڈانٹ ڈپٹ سے پوراوارڈ گونج رہا تھا ۔ نرسیں ادھر سے ادھر دوڑ رہی تھیں ، وارڈ بوائے بوکھلائے پھر رہے تھے ، صفائی کا عملہ ہاتھوں میں جھاڑو پونچھا لئے کونے کونے کی صفائی میں مصروف تھا ۔ کچھ دیر بعد پورے وارڈ میں سناٹے کا عالم تھا سوائے مریضوں کے کانکھنے اور کراہنے کے ۔ عملے کا ہر فرد اپنے کام میں مصروف تھا حالانکہ کام کل بھی ہو رہا تھا اور آج بھی عملہ اپنے فرائض انجام دے رہا تھا معمولی سے فرق کے ساتھ ۔ رات کو معمول کے مطابق میں راہداری کی طرف چہل قدمی کرنے چلا تو وارڈن نے میرا راستہ روک دیا اور وارڈ بوائے کو بلا کر وارڈ کا دروازہ بند کروا دیا ۔ میں نے کہا بھی کہ مجھے تھوڑا ٹہلنا ہے واپس آجاؤں گا مگر اس نے صاف منع کردیا کہ دس بجے کے بعد کوئی باہر نہیں جا سکتا ٹہلنا ہے تو وارڈ کے اندر ٹہلو ۔ خیر وارڈ بھی بہت بڑا تھا پچاس بستروں پر مشتمل۔ میں کچھ دیر وارڈ میں سست روی کے ساتھ ٹہلتا رہا پھر آ کر اپنے بستر پر بیٹھ گیا ۔ میرے دائیں طرف والے بستر پر ایک پرانا مریض لیٹا ہوا تھا۔ وہ یہ سب دیکھ رہا تھا مجھ سے پوچھنے لگا کہ کیا کہہ رہی تھی ۔ میں نے بتایا کہ دس بجے کے بعد اجازت نہیں ہے کہہ رہی تھی۔ وہ بولا یہ وارڈن بہت کھڑوس ہے ۔ لیکن ایک بات ہے جس دن اس کی ڈیوٹی ہوتی ہے وارڈ میں بہت ڈسپلن رہتا ہے ۔ صفائی والوں کو دیکھا نہیں کونے کونے کو صاف کر رہے تھے اور سارا دن کچھ نہ کچھ صفائی میں لگے ہی ہوئے تھے۔ اور نرسیں بھی کتنے ٹائم ٹو ٹائم دوائیں دے رہی تھیں، وارڈ بوائے کس طرح پھرتی سے کام کر رہے تھے ۔ بہت کھڑوس ہے یہ جس دن اس وارڈ میں اس کی ڈیوٹی رہتی ہے یہی سین رہتا ہے۔ میں خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا ۔ وہ کہتا رہا کہ وہ کھڑوس ضرور ہے لیکن اس کی وجہ سے صاف صفائی بھی رہتی ہے ۔
مجھے اس کھڑوس کنڈکٹر کا ایک روز کا واقعہ یاد آ گیا ۔ ہوا یہ کہ صبح صبح ایک مسافر سوار ہوا اس نے ٹکٹ کے لئے روپے کی نوٹ دی وہ کچھ پھٹی ہوئی تھی ۔ کنڈکٹر نے کہا دوسری دو یہ خراب ہے دوسرے مسافر نہیں لیں گے ۔ وہ غریب مسافر تھا اس نے کہا میرے پاس اور پیسے نہیں ہیں ۔ ہم اسٹاف کے لوگ ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ یہ مسافر تو کام سے گیا ۔ ابھی گھنٹی بجا کر اس کو یہ کھڑوس اتار دے گا ۔ لیکن کنڈکٹر نے اطمینان سے ٹکٹ کاٹا اور روپے کی نوٹ کے ساتھ اسے ٹکٹ دے دیا ساتھ میں ہاتھ سے اشارہ کیا کہ نوٹ بھی رکھ لے ۔ یہ دیکھ کر میرے احساسات یکسر بدل گئے۔
یہ تو دو کھڑوس تھے ایک اور کھڑوس کے بارے میں سنا ہے کہ سرکاری اسکول میں بیٹ آفیسر تھیں اور طلبا کے مستقبل سے کھلواڑ کرنے والے اساتذہ انہیں کھڑوس کہتے تھے ۔ لیکن جنہیں اپنا فرضِ منصبی پتہ تھا وہ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔
دو کھڑوس
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS