ٹوئٹرکا تنازع

0

ٹوئٹر کا تنازع گہر ا ہوتا جارہا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ سرکار کیلئے پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے ۔ٹوئٹر کی کارروائی سے اب کوئی بھی محفوظ نہیں رہا ۔مسلسل کچھ ایسا ہورہا ہے جس سے ٹکرائو بڑھتا جارہا ہے ۔25جون کو ٹوئٹر نے جس طرح مرکزی وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی روی شنکر پرساد اورآئی ٹی پر پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ ششی تھرور کے اکائونٹ کوایک گھنٹے کیلئے بلاک کردیا تھا ، اسے معمولی واقعہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔بعد میں ٹوئٹر کچھ بھی صفائی پیش کرے ، اسے دنیا میں جو پیغام دینا تھا ، دے چکا۔ ہربار ٹوئٹر کچھ ایسا کردیتا ہے، جو سرکار کیلئے ناقابل برداشت ہوتا ہے ۔ سرکار کچھ کہتی یا ہدایت دیتی ہے تو کسی نہ کسی بہانے یااپنی پالیسی اورامریکی قانون کا حوالہ دے کر ٹال مٹول کرتایا ماننے سے انکار کردیتا ہے۔ حکومت ہندکی پالیسی اورقانون کیا ہے ، مائیکروبلاگنگ سائٹ اس پر واضح طور پر کچھ بھی موقف اختیار کرنے سے کتراتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ٹوئٹر من مانی کررہا ہے ۔یہ تنازع کتنا طول پکڑے گا اورکہاں تک جائے گا ،کچھ نہیں کہا جاسکتا۔سرکار نے سوشل میڈیا کیلئے گائیڈلائن بھی جاری کی اوراسے اس کا پابند بنانے کیلئے قدم بھی اٹھایا لیکن لگتا ہے کہ بات نہیں بن رہی ہے ۔
سرکار اورٹوئٹر کے درمیان ٹکرائو کا آغاز امسال فروری میں کسان تحریک اور ٹول کٹ معاملے سے ہوا تھا۔ اس وقت سرکارنے کسان تحریک سے جڑے کئی اکائونٹ بند کرنے یافارمرس جینوسائڈہیش ٹیگ سے جڑے لنک ہٹانے کی ہدایت دی تھی لیکن ٹوئٹر نے آزادی اظہار رائے کا حوالہ دے کر ہدایت ماننے سے انکار کردیا۔ بات اس وقت اور بگڑگئی جب 18مئی کو بی جے پی کے ترجمان سنبت پاترا نے ایک اسکرین شاٹ کو کانگریس کا ٹول کٹ بتاکر ٹوئٹ کیا جس پر ٹوئٹر نے مینی پولیٹیڈمیڈیا کا ٹیگ لگا دیا۔سرکار نے ٹیگ ہٹانے کو کہا لیکن ٹوئٹر نے نہیں ہٹایا۔ سرکارنے سوشل میڈیا پر پالیسی بنائی اوردیگر کے ساتھ ٹوئٹر کو بھی اس کے مطابق کام کرنے کو کہا لیکن اس کی ایک ہی رٹ رہتی ہے کہ اپنی پالیسی کو فالوکرتاہے اور ہندوستان میں جو ذمہ دار ہے، وہ جوابدہ نہیں ہوتا ۔ یہ بات اس نے کئی مواقع پر اور گزشتہ ہفتہ وزارت آئی ٹی سے جڑی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے بھی کہی تھی، جس پر پارلیمانی کمیٹی نے سخت لہجہ میں اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے یہاں ملک کا قانون سب سے بڑاہے ، آپ کی پالیسی نہیں ۔اس وقت ٹوئٹر کا حال یہ ہے کہ کس کے ٹوئٹ یا ٹوئٹر ہینڈل کے خلاف کیا کارروائی کردے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ 5جون کو اس نے نائب صدرجمہوریہ ایم وینکیا نائیڈو کے آفیشیل اورذاتی دونوں ہینڈل اور آرایس ایس کے لیڈروں کے ٹوئٹر ہینڈل سے بلیو ٹک ہٹا دیا تھا۔ جب بازپرس کی گئی تو اتنے بڑے قدم کی یہ معمولی صفائی پیش کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کی کہ یہ اکائونٹ کافی دنوں سے لاگ ان نہیں ہوئے تھے۔ اگر اس کی یہی پالیسی ہے تواعتراض کے بعد بلیو ٹک کیوں بحال کیا گیا؟کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے جو ٹوئٹر بتانہیں رہا ہے۔ اس کی صفائی حلق سے نیچے نہیں اترتی اور اس کی وارننگ بہت کچھ کہتی ہے ۔ وزیرآئی ٹی نے اپنے اکائونٹ کو ایک گھنٹے کیلئے بلاک کرنے کو من مانی کی انتہا بتایا تو ٹوئٹر نے امریکی قانون ڈیجیٹل ملینیم کاپی رائٹ کے تحت شکایت ملنے کا حوالہ دے کر کارروائی کیلئے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔بحال بھی کیا تو یہ کہہ کر کیا کہ آگے شکایت ملتی ہے تو اکائونٹ بلاک کیا جاسکتا ہے۔ ٹوئٹر کا معاملہ پولیس سے لے کر پارلیمانی کمیٹی تک پہنچا اور جواب طلب کیا گیا لیکن کچھ بھی نہیں بدلا ۔
2006 میں لانچ ٹوئٹرکی مقبولیت مسلسل بڑھتی جارہی ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں 19کروڑ سے زیادہ اس کے ایکٹو صارفین ہیں۔ہر میدان کے لوگ خصوصاً سیاست داں اس کا سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔یہی ٹوئٹر کی آمدنی اور طاقت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔اس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا اکائونٹ ہمیشہ کے لئے بلاک کردیا اوروہ کچھ نہیں کرسکے ۔ رواں ماہ اس نے نائجیریائی صدر محمد بخاری کا ایک ٹوئٹ ڈیلیٹ کردیا جس پر وہاں کی سرکارنے بلاگنگ سائٹ پر پابندی لگادی لیکن ٹوئٹر نے سمجھوتہ نہیں کیا ۔آخر ٹوئٹرکے حوصلے کیوں بڑھے ہوئے ہیں ؟اس کو وسیع پس منظرمیں دیکھنا ہوگا تبھی کوئی حل نکل سکے گا ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS