پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
وزیر اعظم نریندر مودی سرکارنے زلزلہ کے بعد فوراً ہی ترکیہ میں فضائیہ کے ہوائی جہاز بھیج کر راحت کا سامان ڈاکٹر اور ماہرین نفسیات کو بھیج کر انسانیت دوستی کا مظاہرہ کیا۔ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے بھی وزارت خارجہ کے افسران ترکیہ اور شام میں مدد پہنچانے کے احکامات دیے۔ ترکیہ میں زبردست تباہی کے کیا اسباب تھے اور کیا وہاں ناکام ہوگیا اردگان کا پین کیک ماڈل- ترکیہ میں آئے زبردست تباہی والے زلزلہ نے ہر طرف تباہی مچائی ہوئی ہے۔ پورے ملک میں 50000سے زیادہ افراد کی موت ہوچکی ہے۔ اس میں ماحولیاتی تحفظ بھی ایک اہم سبب ہے۔ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان نے زیادہ اموات کی وجہ تعمیری سامان کی خراب کوالٹی کے سامان کو بتایا ہے۔ انہوںنے کہاکہ میونسپل اکائیوں ، ٹھیکیداروں نگرانی کرنے والے اداروں کو دیکھنا چاہیے تھا کہ ان کی لاپروائی ان اموات کا سبب ہیں۔ شام کے صدر بشارالاسد نے اپنے ملک میں اس سانحہ کے بعد فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کردی ہے ۔ دونوں ملکوں کے صدور اسپتال میں زخمیوں سے ملاقات اور ان کی مزاج پرسی کرنے جارہے ہیں۔
مالیتھس کی تھیوری آف پاپولیشن جس کو ماہرین ہلکے میں لیتے ہیں حقیقت میں اس اچھے نتائج ہیں۔ اس نے کہا ’ اگر آبادی پر کنٹرول نہیں کیا گیا تو یہ قدرت کی تباہ کن ہوگی۔ گجرات کے بھج میں بھی تباہ کن زلزلہ آیا تھا۔ اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے بھج میں تعمیر نو کا ایک بین الاقوامی ماڈل پیش کیاتھا۔
ترکیہ اور شام سے میں ملبہ سے متاثرین کے نکالنے کا کام لگاتار جاری ہے۔ منہدم عمارتوں کے اندر۔بی بی سی اور الجزیرہ نے نوزائیدہ بچوں کو ملبے سے زندہ نکالے جانے کے کئی واقعات کو دکھایا ہے مگر بارش اور برف باری کے باعث امدادی کاموں میں رکاوٹیں ہو رہی ہیں۔دنیا کے 70 سے زائد ممالک نے امدادی سامان اور امدادی عملہ ترکیہ بھیجے ہیں۔ ترکیہ کی زلزلہ میں منہدم عمارت کے ماڈل پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ترکیہ میں دو بڑے زلزلوں نے تباہی مچا دی۔پہلا زلزلہ شام کی سرحد کے قریب کے ہوا ۔اس زلزلے کی شدت ریختر پیمانے پر 7.8 تھی۔ برطانیہ تک محسوس کیا گیا۔ نو گھنٹے بعد ترکی ایک اور زلزلے سے لرز اٹھا جس کی شدت ریخترپیمانے پر 7.5 تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ زلزلہ Inter Secting Fault ’انٹرسیکٹنگ فالٹ‘ کی وجہ سے آیا ہے۔ یہ حالت اس وقت ہوتی ہے جب ایک ٹیکٹانک پلیٹ دوسری پر آنے کی کوشش کرتی ہے۔ ترکیہ حکومت کے مطابق اس تباہی میں 5000 سے زائد عمارتیں زمین بوس ہوگئیں۔ ان میں سے بہت سی ایسی جدید عمارتیں تھیں جو ’’پین کیک ماڈل‘‘ کی بنیاد پر تعمیر کی گئی تھیں لیکن یہ ماڈل زلزلے کے سامنے ناکام ثابت ہوا۔ کیا یہ زلزلے کی شدت کی وجہ سے تھا یا ان عمارتوں کی تعمیر میں کوئی خرابی تھی؟ ترکی میں زلزلے عام ہیں، کیونکہ یہ ملک زلزلے کے لحاظ سے انتہائی حساس علاقے میں واقع ہے۔ ایک ایسا خطے جہاں تین ٹیکٹونک پلیٹیں زمین کی سطح کے نیچے ایک دوسرے سے مسلسل رگڑتی رہتا ہے۔ ترکی کم از کم 2000 سالوں سے زلزلے کا سامنا کر رہا ہے۔
17ویں صدی میں ہونے والی اس تباہی میں بہت سے شہر تباہ ہو گئے تھے۔ زلزلے اکثر ’مشرقی اناتولیہ فالٹ‘ زون میں آتے ہیں۔ یہ دونوں پلیٹیں ہر سال 6 سے 10 ملی میٹر کی رفتار سے ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں۔ وقفے وقفے سے آنے والے زلزلوں کی وجہ سے اس خطے میں پیدا ہونے والا تناؤ کم ہو جاتا ہے۔ یہ بھی عیاں ہے کہ یہاں کا بنیادی ڈھانچہ بھی خطرے میں ہے۔ پچھلے 2000 سالوں میں، زلزلوں سے محفوظ عمارتوں کے بارے میں بہت کچھ سیکھا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس خطے اور دنیا کے دیگر حصوں میں عمارتوں کی تعمیر کو متاثر کرنے والے بہت سے عوامل ہیں۔
عمارتوں کی ناقص تعمیر سب سے بڑا عنصر دکھائی دیتی ہے۔ منہدم ہونے والی بہت سی عمارتیں کنکریٹ کی بنی ہوئی تھیں مگر ان میں زلزلہ سے تحفظ کے انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ اس علاقے میں عمارتوں کے لیے سیسمک کوڈ بتاتے ہیں کہ یہ عمارتیں اتنی مضبوط ہونی چاہیے تھیں کہ وہ زوردار زلزلوں کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ جھٹکے عام طور پر زمین کی عام سے 30 سے 40 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 7.8 اور 7.5 شدت کے زلزلوں کے نتیجے میں زلزلے کی شدت 20 سے 50 فیصد کشش ثقل کے درمیان تھی۔ یہ عمارتیں ’ڈیزائن کوڈ‘ سے کم شدت کے جھٹکے بھی برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ محفوظ عمارتوں کی تعمیر کو یقینی بنانا اور زلزلوں کے پیش نظر مناسب ’بلڈنگ کوڈز‘ پر عمل کرنا ترکی اور دنیا کے مختلف حصوں میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ترکی میں اس سے پہلے بھی تباہ کن سیلاب آچکے ہیں۔
1999 میں آفت کے قریب آنے والے زلزلے سے تقریباً 17,000 افراد ہلاک اور 20,000 عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔ 2011 کے زلزلے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بہت سی عمارتیں پہلے ہی تعمیر ہو چکی ہیں اور زلزلے کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدام یا تو مہنگے ہو سکتے ہیں یا دیگر سماجی اقتصادی چیلنجوں کی وجہ سے ان کو ترجیح نہیں دی جاتی۔
ترکی نے 2019 میں عمارتوں کو زلز لوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے ضابطے بنائے۔ ان ضابطوں کا خیرمقدم کیا گیا ہے لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ واقعی عمارتوں کے معیار کو بہتر بنائیں گے۔ زلزلے سے انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان کے ماحول پر دور رس اثرات کی توقع ہے۔ اس کے پیش نظر منصوبہ بندی کے ساتھ اقدامات کی ضرورت ہے کہ کہاں اور کس چیز کی تعمیر ہونی ہے تاکہ مستقبل کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔ فی الحال آفٹر شاکس آ رہے ہیں اور متاثرین اور کو بچانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ ایک بار جب نظام دوبارہ معمول پر آجائے گا، تعمیر نو شروع ہو جائے گی۔ لیکن کیا ہم زلزلہ کے لحاظ سے حساس ترکیہ میں ایسی مضبوط عمارتیں دیکھیں گے جو اگلے زلزلے یا دیگر آفات کو برداشت کر سکیں؟
یونیورسٹی آف میلبورن میں سیسمولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر مارک کیگلی نے کہا کہ “ترکی کی عمارتیں تاش کے ڈھیر کی طرح منہدم ہوگئیں، ماحولیاتی تحفظ کی خلاف ورزی”۔ وہ آپ کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ اس کی مثال جاپان میں بھی دیکھنے کو ملی۔ ہندوستان میں بھی لینڈ مافیا اور تعمیراتی ٹھیکیدار قدرتی نظام کو تباہ کر رہے ہیں۔ جنگل کاٹ کر بستیاں بنانا بہت خطرناک ہو گا۔ کورونا کے دور میں اتنی حالت زار کے باوجود انسان ایسے کیوں ہیں؟ ہر فرد، ریاست اور ملک کو ماحول اور موسمیاتی تبدیلی کے اقدام پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ ورنہ لالچ کے بہت سے نقصان دہ نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ دہلی،ممبئی،کولکاتا کوریڈور کی سیکورٹی کا بھی خیال رکھنا پڑے گا۔ اس کاریڈور کی تعمیر سے لوگوں کے لیے دہلی زیادہ دور نہیں رہے گا۔ کیا ہمیں اتراکھنڈ کی تباہ کن آفت کو بھول جانا چاہئے؟ ہم سب کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم ’ فطرت کی حفاظت کریں گے، ماحول کو صاف رکھیں گے، لالچ کو کم کریں گے اور سب کی حفاظت کریں گے، واسودیو کٹمبکم کو ثابت کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے‘۔ ہم ترکی اور شام میں جلد از جلد تعمیر نو اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی خواہش کرتے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی، مفکر، تجزیہ کار ہیں، سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
[email protected]