ترکیہ: سلطنت عثمانیہ کی جانب بڑھتے قدم: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

رجب طیب اردگان ایک مرتبہ پھر ترکیہ کے صدر منتخب ہو گئے۔ کچھ ممالک اسے اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کی فتح بتا رہے ہیں توکچھ اسے مذہبی جنون کے نام پر حاصل کردہ جیت کہہ رہے ہیں۔ صہیونی طاقتوں کی شہ پر اردگان کو ہرانے کے لیے حزب اختلاف کی چھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کمال قلیچ داراغلو نام کے ایک ایسے سیاستداں کو عہدۂ صدارت کے لیے مشترکہ اُمیدوار بنایا گیا تھا،جو ظاہری طور پر مسلمان اور اندرونی طور پر کمیونسٹ ذہن کا مالک ہے۔مغربی ممالک اورعالمی میڈیا اسٹریم کی تمام تر کوششوں اور قیاس آرائیوں کے باوجود اردگان نے شاندار فتح حاصل کی۔ اس الیکشن پر پوری دنیا کی نظریں مرکوز تھیں۔ ناٹو اور زیادہ تر یوروپی ممالک یہ مان کر چل رہے تھے کہ اس بار اردگان کو شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اگر ایسا ہواتو ترکیہ میں مصطفی کمال پاشا کے دور کا جمہوری نظام قائم ہوجائے گا۔ دوسری جانب عالم اسلام میں رجب طیب اردگان کی فتح کے لیے دل سے دعائیں مانگی گئیں۔ حزب اختلاف نے اس فتح کے پیچھے سیاسی انجینئر،منظم سیاسی مہم،کنٹرولڈ میڈیا، سوشل میڈیا پر سخت گرفت اور مذہبی ووٹوں کی بھرپور حمایت بتایا۔ گزشتہ دو دہائی سے ترکیہ کے عوام کے دلوں پر حکومت کرنے والے رجب طیب اردگان نے 1992 سے اب تک کسی الیکشن میں ناکامی کا منہ نہیں دیکھا۔جرمنی، فرانس، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور برطانیہ سمیت غیر ممالک میں مقیم ترکیہ کے شہریوں نے اسلام کو قوت دینے کے لیے رجب طیب اردگان کی جی جان سے مدد کی۔ترکیہ کی حکومت نے60ملکوں کے123سفارتی دفاترمیں ترکیہ کے شہریوں کے لیے پولنگ مراکز قائم کیے تھے۔ کچھ لوگوں کے ذریعہ اس فتح کو سلطنت عثمانیہ کے قیام کی جانب بڑھتا قدم تسلیم کیا جا رہا ہے۔ رجب طیب اردگان کی مقبولیت کا اندازہ اسی سے ہوجاتا ہے کہ مسلسل تیسری مرتبہ کامیابی کے بعد3جون2023کو منعقد حلف برداری کی تقریب میں78 ممالک کے سربراہان اور نمائندوں نے شرکت کی۔یہ جیت اس بات کی بھی عکاس ہے کہ تباہ کن زلزلے میں50 ہزارشہریوں کی موت اور لگاتار بڑھتی مہنگائی کے باوجود عوام نے اردگان کو اپنی پہلی پسند بنایا۔اردگان کی فتح نہ صرف بنیاد پرست اسلام کی جیت ہے،بلکہ اس سے طویل عرصے سے چل رہی عوامی تحریک کی بنیاد کا کمزور پڑنا بھی طے ہے۔ 28مئی کو ایک طاقتور اپوزیشن اتحاد کے خلاف فیصلہ کن رن آف(Run off)میں کامیابی حاصل کرنے والے رجب طیب اردگان نے ترک پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا، ’میں رجب طیب اردگان صدر کے طور پر عظیم ترک قوم کے سامنے اپنی عزت اور سالمیت کی قسم کھاتا ہوں۔میں ریاست کے وجود اور آزادی کے تحفظ کے لیے اپنی پوری طاقت سے کام کروں گا اوراپنی ذمہ داری غیر جانب دارانہ طریقے سے ادا کروں گا۔‘ سرکاری نتائج کے مطابق اردگان نے52.24 فیصد اور ان کے قریبی حریف کمال قلیچ داراغلو نے 47.79 فیصد ووٹ حاصل کیے۔رجب طیب اردگان نے30مئی کو انقرہ میں یونین آف چیمبرز اینڈ کمودٹی ایکس چینجز کی79ویں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عہد کیا تھاکہ ترکیہ اَب دنیا بھر میں امن و سلامتی کے لیے اقدامات کرے گا۔ ہمارا مقصد پوری دنیا اور بالخصوص یوروپ سے بحیرۂ اسود تک اور مشرقی وسطیٰ سے شمالی افریقہ تک سلامتی و امن قائم کرنا ہے۔
رجب طیب اردگان کی پیدائش 26فروری 1954 کو ترکی کے شہر استنبول میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کی شروعات مدرسہ قاسم پاشا سے کرتے ہوئے1981میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ سینٹ جانز، گرنے امریکن یونیورسٹی، جامعہ سرائیوو، جامعہ فاتح،جامعہ مال پتہ،جامعہ استنبول اور جامعہ حلب کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند سے نوازے جانے والے رجب طیب اردگان کو 2004 میں جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول اور فروری 2009 میں ایران کے دارالخلافہ تہران نے اعزازی شہریت سے نوازا۔ اکتوبر2009میں دورۂ پاکستان کے موقع پر پاکستان کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز ’نشان پاکستان‘ سے سرفراز کیاگیا۔ وسیع النظر اور روشن خیال جوان رجب طیب اردگان نے 1983میں رفاہ پارٹی کی تاسیس کے ساتھ بڑی طاقت کے ساتھ سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ 1984میں استنبول کے ضلع بایو غلو کی ایک تحصیل کے صدر اور بعد میں استنبول کے شہر صدر منتخب ہوئے۔ 1985میں رفاہ پارٹی کے مرکزی قرارداد کمیٹی کے رکن مقرر ہوئے۔مردو خواتین کو سیاست کی جانب راغب کیا اور قومی مفادات کے لیے اہم اقدامات اٹھائے۔اسی کے ساتھ رفاہ پارٹی نے واضح برتری حاصل کرتے ہوئے 1989 میں ضلع بایو غلو کے لوکل انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ 27مارچ 1994 میں ہونے والے لوکل الیکشن میں رجب طیب اردگان ملک کے سب سے بڑے شہر استنبول کے گورنر منتخب ہوئے اور امن، ترقی، پانی، بجلی اور کوڑاکرکٹ اور کچرے کے مسائل کو حل کرتے ہوئے دنیا کے دیگر مشہور شہروں کی طرح ایک خوبصورت شہر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ 1994 سے 1998تک استنبول کے میئر بھی رہے۔آج استنبول کی آبادی 1.60 کروڑ ہے۔ 2001 میں عبداﷲ گل کے اتحاد میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی بنائی۔ 9مارچ 2003 کے پارلیمانی انتخابات میں سیرت شہر سے الیکشن لڑکر85فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ منتخب ہو کر وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 2014 میں ترکی میں پہلی مرتبہ صدارتی انتخابات کرائے گئے۔ الیکشن میں واضح کامیابی حاصل کرنے کی بنا پر اگست2014میں ترکی کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اس سے قبل ترکی کے ممبران، پارلیمنٹ کے صدر کا انتخاب کرتے تھے۔ 16اپریل 2017 کے ایک متنازع ریفرنڈم میں51.41 ووٹوں کے ساتھ ایک بڑی کامیابی حاصل کی اور ملک میں کئی آئینی تبدیلیاں لائے۔ریفرنڈم میں مقابلہ اتنا سخت تھا کہ آئینی تبدیلی کے حامیوں کی تعداد51 فیصد اور مخالفین کی تعداد 49فیصد رہی۔اردگان کی مقبولیت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ جولائی 2016 میں جب فوجی جنرل کی قیادت میں فوج نے حکومت کا تختہ پلٹنے کے لیے بغاوت کی تو اردگان کے ایک پیغام پر عوام اپنے گھروں سے باہر نکل آئے اور راستوں میں بسیرا کرتے ہوئے فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے۔ فوجی ناکام بغاوت میں240افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بغاوت کے ناکام ہونے کے بعد اردگان نے اس کے ذمہ داران اور مخالفین کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کراکر انہیں جیلوں میں ڈلوایا۔ مغربی ممالک نے اردگان کی اس کارروائی کو ناپسند کرتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ 2018 میں اردگان دوبارہ پانچ برس کے لیے ملک کے صدر منتخب ہوئے۔انہیں براہ راست نائب صدور اور وزرا سمیت بڑے عہدوں پر سرکاری ملازمین تعینات کرنے، قانونی نظام میں مداخلت کرنے اور ضرورت کے حساب سے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے جیسے اختیارات حاصل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ریاستوں کے اداروں میں کافی تبدیلیاں کرتے ہوئے اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کیا۔ جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کے بعد وہ واحد ایسے رہنما ہیں،جنہوں نے ترکی کی تشکیل نو کے لیے سب سے زیادہ کام کیا۔ اُن کے اقتدار میں آنے کے بعد مجموعی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ملک نے کافی ترقی کی۔
رجب طیب اردگان فتح یاب تو ہوگئے، لیکن ان کے سامنے معا شی بدحالی اور زلزلے کی تباہ کاری کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے، مہنگائی پر قابو پانے، شہریوں کی زندگی بہتر بنانے، شام کی سرحد پر باڑ لگانے،تناؤ کم کرنے اور 36لاکھ شامی پناہ گزینوں کا مستقبل بہتر بنانے جیسے ایشوز کا زبردست چیلنج ہے۔ یہ کہنا درست ہے کہ اردگان کی قیادت میںترکیہ نے خانگی اور بین الاقوامی پالیسیوں کو تشکیل دینے کا کام کیا ہے۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ اپنی 100ویں سالگرہ منانے والے ترکیہ میں دینی فضائیں قائم رہیں گی اور ترقی کے نئے زینے طے کیے جائیں گے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS