صدیوں پہلے ایرانی شاعر سعدی شیرازی نے کہا تھا کہ بنی آدم ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔ ان کی تخلیق ایک سی خوشبو سے ہوئی ہے۔ جب ان میں سے کسی کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا سکون سے نہیں رہ سکتا۔ اگر آپ دوسروں کو دکھوں میں دیکھ کر بھی ہمدردی نہیں کرتے، پھر یہ ٹھیک نہیں ہے کہ آپ کو انسان کہا جائے۔ ممکن ہے، یہی بات کوئی اور زیادہ بہتر انداز میں کہے مگر خلاصہ کلام یہی ہے کہ انسان کسی انسان کو دکھ میں دیکھ کر پرسکون نہیں رہ سکتا۔ اس کا بے چین ہونا فطری ہے۔ اگر وہ بے چین نہیں تو پھر وہ انسان کہلانے کا حقدار نہیں۔ ہندوستان کے لوگ یہ بات زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ اس ملک کے لوگوں نے صدیوں سے ’وَسودھیو کٹم بکم‘ کے فلسفے پر یقین کیا ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے، ’یہ دنیا ایک فیملی ہے‘۔ اس ملک کے لوگوں نے آج بھی اس فلسفے کو نظرانداز نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی آفت آئے، حکومت ہند کی یہ کوشش رہتی ہے کہ تعاون کا ہاتھ دراز کرنے اور امداد پہنچانے میں تاخیر نہ ہو۔ 25 اپریل، 2015 کو نیپال میں آئے زلزلے میں ہندوستان کی طرف سے دی جانے والی فوری مدد ہو یا 6 فروری، 2023 کو ترکیہ اور شام میں آئے زلزلے کے متاثرین کی امداد یا اس سے قبل کورونا کے عروج کے دنوں میں اس وائرس سے حفاظت کے لیے متعدد ملکوں کو ویکسین اور دیگر اشیا کی سپلائی ہو، ہندوستان نے ہمیشہ یہی ثابت کیا ہے کہ وہ ہر سکھ دکھ میں دنیا کے ساتھ ہے، دنیا سے الگ نہیں۔ قدرتی آفت کے وقت وہ صرف ضرورتمند لوگوں کی عملی مدد کرنے میں یقین رکھتا ہے، دکھ کے زبانی اظہار میں نہیں۔ ترکیہ میں امدادی ٹیم بھیجنے میں اس نے تاخیر نہیں کی جبکہ کشمیر ایشو پر ترکیہ نے بار بار پاکستان کے سُر میں سُر ملایا ہے، خود کو پاکستان کا حامی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے مگر رشتہ دیکھے بغیر اور بلا سیاست مددہندوستان کو عظیم بناتی ہے اور وہ ممالک بھی اس کے اس کردار کو ماننے پر مجبور ہورہے ہیں جو عام طور پر ہندوستان سے قربت کا زیادہ اظہار نہیں کرتے، چنانچہ اس پر حیرت نہیں ہے کہ ترکیہ نے زلزلہ متاثرہ ترکوں کی بروقت مدد کے لیے ہندوستان کا ایک بار پھر شکریہ ادا کیا ہے۔ ہندوستان میں ترکیہ کے سفیر فرات صونال نے لکھا ہے، ’شکریہ انڈیا، ہر ٹینٹ،ہر کمبل، سلیپنگ بیگس بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ہزاروں زلزلہ متاثرین کے لیے ان کی بڑی اہمیت ہے۔ ‘یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ ’آپریشن دوست‘کے تحت ساتویں پرواز بھی بھیجی جا چکی ہے۔
زلزلہ متاثرین کی بروقت امداد ہندوستان اور ترکیہ کو قریب لے آئی ہے اور اس سلسلے میں ترکیہ نے کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔ فرات صونال نے اس سے پہلے کہا تھا، ’ترکیہ اور ہندوستان دوست ہیں۔ آپریشن دوست نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو اور مضبوط کیا ہے۔‘ اسی لیے پاکستان بے چین نظر آ رہا ہے۔ دراصل پاک حکومت نے ترکیہ میں زلزلہ آنے کے بعد ترک متاثرین کی مدد میں جلدی کرنے کے بجائے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ ترکیہ کے ساتھ کھڑی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ ذی ہوش ترکوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ زلزلہ متاثرین کے لیے انہیں امداد کی ضرورت ہے، اس کی نہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف خود ترکیہ آکر ترک صدر رجب طیب اردگان سے بنفس نفیس ملاقات کریں۔ اردگان ابھی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ کسی ملک کے سربراہ مملکت سے ملاقات اور اس کی مہمان نوازی کے لیے وقت نکالیں، ان کے لیے اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ کتنے لوگوں کو بچانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں، کتنے لوگوں کو بروقت امداد پہنچا پاتے ہیں۔ یہ بات ان کی فہم سے بالاتر نہیں کہ امداد بہم پہنچانے میں ذرا سی چوک ان کے لیے اقتدار میں واپسی مشکل بنا دے گی، کیونکہ اسی سال 18 جون کو ترکیہ میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ اگر اردگان کے اشارے کو اہمیت دی جائے تو عام انتخابات ذرا پہلے 14 مئی، 2023کو ہی ہوجائیں گے۔ غالباً اسی وجہ سے مریم اورنگ زیب کے اس ٹوئٹ کے باوجود کہ شہباز شریف 8 فروری کو ترکیہ کے دورے پر جائیں گے۔ پاک وزیراعظم کو دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ ٹھیک اسی دن دورہ ملتوی کرنا پڑا جس دن انہیں ترکیہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ کیا اس کی وجہ یہ رہی کہ خود ترک حکومت نے انہیں ترکیہ کا دورہ کرنے سے منع کردیا؟ وجہ چاہے جو بھی ہو، یہ سبکی ان کے لیے باعث پریشانی ہوگی، خاص کر اس صورت میں جبکہ حکومت ہند کی ترک زلزلہ متاثرین کی مدد کی تعریف ترکیہ کی طرف سے کی جارہی ہے اور ہندوستان میں ترک سفیر فرات صونال نے یہ قبول کیا ہے کہ ’آپریشن دوست‘ نے ترکیہ اور ہندوستان کے تعلقات کو اور مضبوط کیا ہے۔
[email protected]