تنی ہوئی رسّی پر چل رہا ہے ترکی

0

انقرہ (ایجنسیاں) : ترکی میں یوکرین کے سفیر نے جنگ کے آغاز ہی میں اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو شیئر کی تھی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ترکی کے فراہم کردہ ڈرونز سے روسی فوج کی گاڑیوں کے قافلے کو نشانہ بنانے کا منظر ہے۔ امریکی تھنک ٹینک جرمن مارشل فنڈ کے انقرہ میں ڈائریکٹر اوزگر انلوحسارجکلی کا کہنا ہے کہ اب تک یہی باتیں ہورہی تھیں کہ ترکی مغرب اور روس کے درمیان اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن اب یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ ترکی کھل کر یوکرین کی حمایت کرتا ہے اور یوکرین بھی اس سے راضی ہے۔کونسل کے 193 میں سے 114 ممالک نے اس قرارداد کی حمایت کی ہے جب کہ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش نے ووٹ دینے سے گریز کیا ہے۔ اس قرار داد کی منظوری کی بعد عالمی سطح پر روس سے تعلقات سے متعلق صف بندی کا عندیہ ملتا ہے اور اس میں یوروپ اور ایشیا کے اہم ملک ترکی کا کردار بھی تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ترکی نے سلامتی کونسل میں یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کی ہے اور اس سے قبل اتوار کو ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے بھی اسے باقاعدہ ’جنگ‘ قرار دیا تھا۔
اپنے ایک حالیہ بیان میں ترکی کے صدر طیب اردگان نے روس اور یوکرین سے فوری طور پر لڑائی بند کرکے مذاکرات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے قبل صدر اردگان یوکرین اور روس کو ثالثی کی پیش کش بھی کرچکے ہیں۔یوکرین پر روس کے حملے کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک سے وابستہ اپنے تجارتی، دفاعی اور اسٹریٹجک مفادات کی وجہ سے ترکی تنی رسی پر چلنے جیسی مشکل سے دوچار ہے۔
کینیڈین اخبار دی گلوب اینڈ میل کے لیے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے امور کی کوریج کرنے والی تجزیہ کار جینس ڈکسن کا کہنا ہے کہ صدر اردگان یوکرین اور روس کے درمیان ثالثی کی پیش کش کے ساتھ یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ وہ ناٹو ارکان کی توسیع کے مخالف نہیں ہیں اور یہی یوکرین اور روس کے درمیان اختلافات کی بنیادی وجہ ہے۔
یوکرین ناٹو میں شمولیت کا خواہاں ہے اور روس مغربی ممالک کے اس دفاعی اتحاد میں یوکرین کی شمولیت کو اپنے لیے ’سرخ لکیر‘ قرار دیتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان حالات میں ترکی یوکرین کی کھلی حمایت کرکے خطے کے طاقتور ملک اور اپنے ہمسائے روس کی ناراضی بھی مول نہیں لینا چاہتا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS