ایک دور تھا جب عراق مغربی ایشیا کی ایک بڑی طاقت تھا اس کے لیڈروں کا دبدبہ اور قوت فیصلہ نہ صرف یہ کہ ان خطے میں تھا بلکہ عرب ملکوں میں بھی ان کا وقار قائم تھا اور یہ اپنی پالیسی کی وجہ سے خارجی طاقتوں کو بھی دور کا رکھتے تھے۔ یہ طاقت ایک زمانے میں صدام حسین سے منسوب رہی ۔ اس کے علاوہ پڑوسی ملک ایران میں رضا شاہ پہلوی خاندان کا بھی یہی دبدبہ تھا ، مگر انہوں نے مغربی ممالک سے بھی مراسم قائم کیے ہوئے تھے بلکہ کافی حد تک ان ملکوں کا ساتھ دیا تھا۔ اس وقت جب ایران نے اسلامی انقلاب نہیں آیا تھا مغربی ممالک میں رضا شاہ پہلوی خاندان کی بڑی پذیرائی ہوتی تھی۔ یہ خاندان نہ صرف یہ کہ امریکہ کے منظور نظر تھا بلکہ اس کی پالیسیاں کافی حد تک اسرائیل کو بھی استحکام فراہم کرتی تھی۔ بعد ازاں رضا شاہ پہلوی کے زوال اور ایران میں اسلامی انقلاب نے ایک نیا نعرہ دیا ’’ لاشرقیہ ، لا غربیہ، اسلامیہ اسلامیہ ‘‘ ۔ اس نعرے نے نئی نسل کے مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کیا ۔
مسلم دنیا میں اس نعرے کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مغرب کے ہاتھ پیر پھول گئے اور انہوںنے ایران کے پڑوسی ملک عراق کو شہہ دینی شروع کردی۔ عراق کے قوم ایک بہادر مضبوط اعصاب کی حامل قوم تھی جس کے حکمرانوں نے عوام پر یہ لازم کردیا تھا کہ وہ ایک خاص عمر تک پہنچنے کے بعد لازمی طور پر فوج کی تربیت حاصل کریں۔ اس طرح عراق ایک مضبوط قوم اور ملک بن گیا مگر مغرب کی پھوٹ ڈالو حکومت کرو کی پالیسی نے ایسے حالات پیدا کردیے کہ دونوں پڑوسی ملک عراق اور ایران ایک دوسرے کے ساتھ بھڑ گئے اور دونوں ملکوں میں طویل عرصہ تک جنگ چلی اور انسانی حقوق کی وہ بے حرمتیاں ہوئیں جس کی مثال نہیں ملتی۔
بہر کیف مغرب سے شہہ پا کر صدام حسین اس قدر آپے سے باہر ہوگئے کہ انہوںنے ایک اور پڑوسی ملک کویت پر حملہ کردیا اور 1991میں چند گھنٹوں کے اندر اندر صدام حسین نے کویت کو سرکرلیا۔ عراق کے صدر صدام حسین کی یہی بے لگامی ان کو لے ڈوبی اور کویت کے علاوہ دیگر پڑوسی عرب ملکوں کو یہ لگا کہ اگر صدام حسین اسی طریقے سے اپنی مملکت بڑھانے میں لگے تو کسی بھی ملک کا تحفظ ممکن نہیں ہوسکے گا۔ لہٰذا تمام پڑوسی عرب ملکوں نے مل کر ایک لائحہ عمل تیار کیا جس کو آج ایک بڑی طاقت کے روپ میں ہم دیکھتے ہیں۔ خلیجی ملکوں کی تقریباً آدھا درجن ملکوں کی تنظیم جی سی سی بنائی گئی اس کا مقصد ان پر کسی بھی خارجی طاقت کا مقابلہ کرنا تھا۔
جی سی سی کے قیام کے علاوہ ان ملکوں نے مغربی ممالک سے بڑے پیمانے پر ہتھیار خریدے اور ایک مضبوط اکائی بنا کر صدام حسین کی قماش کے لوگوں کو ایک سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ کویت کے حملے کے بعد امریکہ نے اپنے حلیف کویت کو آزاد کرانے کے لیے ایک فوجی مہم شروع کی جس کا نام ڈیزٹ اسٹارم رکھا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب امریکہ میں جارج بش صدر تھے جن کا صدام حسین اور ان کے خاندان کے ساتھ چھتیس کا آنکڑا ہوگیا۔ دونوں صدور میں اختلافات اور نفرت اس قدر بڑھی کہ امریکہ نے کویت کو آزاد کرانے کے بہانے عراق کے پورے حکومتی نظام اور تانے بانے کے منتشر کردیا۔ اگرچہ ان واقعات کے بعد کی تاریخ بہت طویل ہے مگر اس کا لب لباب یہ ہے کہ عراق میں صدام حسین کے زوال کے بعد ایسے افرا تفری مچی جو آج تک تادم تحریر ختم نہیں ہوپائی ۔ عراق آج قرب وجوار کی طاقتوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔
سماجی تانا بانا تو کیا اس ملک کا اقتدار اعلیٰ تک محفوظ نہیں ہیں۔ امریکہ ، ایران ، برطانیہ ، شام وغیرہ کی فوجیں آج بڑی تعداد میں اپنے اثرورسوخ کو بچانے اور بڑھانے کی کوشش میں ہیں اور اس ملک میں کسی بھی پر امن سماجی نظام کا قیام ابھی تک ناممکن نظرآرہا ہے۔ ملک کو متحد کرنے والی کوئی معتبر اورمستحکم طاقت نہیں ہے اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ اور اس کے حواریوں نے کرد غلبہ والے علاقوں میں اپنی نگرانی میں ایک خودمختار کرد علاقہ وضع کردیا ہے اور اس کی فوجیں اس ملک کے اندر ایک ذیلی نظام طاقت بنا کر ملک میں افرا تفری کا موجب بنی ہوئی ہے۔ ایران کی حمایت یافتہ فوجی گروپ کے علاوہ شام کے فوجی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں ۔ اگرچہ شام میں خود بھی کچھ علاقوں پر امریکی حمایت یافتہ فوجی گروپوں کا دبدبہ ہے تو کچھ علاقوں میں ترکی کی فوجوںنے اپنے ملک میں سرگرم کرد باغیوں کی سرکوبی کے نام پر اپنی فوجیں تعینات کررکھی ہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جس میں پورے مغربی ایشیا کو اپنی زد میں لے رکھا ہے۔ عراق ہی نہیں بلکہ شام میں بھی کم وبیش یہی صورت حال ہے۔ بعض علاقوں میں تو عراق سے بھی زیادہ خراب حالات ہیں۔ عراق میں فی الحال الشیعہ السوڈانی کی قیادت والی حکومت ہے مگر مغرب بطور خاص امریکہ ، فرانس اور برطانیہ کے دبائو میں کام کررہی یہ حکومت خانگی خلفشار کو کسی حد تک کنٹرول کیے ہوئے ہیں مگر خانہ جنگی کے شکار اس ملک میں غیر ملکی افواج کی موجودگی اس عظیم ملک کو ایک مستحکم مکمل اقتدار اعلیٰ والا ملک بننے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اس کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اس خطے میں کوئی بھی ملک خارجی مداخلت سے محفوظ نہیں ہیں۔ یہاں کے ممالک یا ان ممالک کے سرگرم بااثر اور خونخوار فوجی ایک دوسرے کے ملک میں حالات کو پراگندہ کرنے اور اپنے وفادار گروپوں کی حمایت کررہے ہیں اور کوئی بھی طاقت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ان خطے کو تشدد ، خانہ جنگی اور عدم ا ستحکام سے پاک ہو۔
عراق کے موجوہ وزیراعظم الشیعہ السوڈانی کے سامنے اس وقت سب سے بڑا چیلنج اپنے ملک کے وقاراور اقتدار اعلیٰ کو بچانے کا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوںنے پچھلے دنوں اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی شام سے ملی ہوئی سرحد کی حفاظت کے لیے ایک خصوصی فوج بنائیں گے۔ جس کا نام انہوںنے فیڈرل بارڈر گارڈ رکھا تھا۔ فی الحال ترکی اور عراق سے ملی ہوئی سرحد پر کرد فورسیز کا کنٹرول ہے۔
کرد علاقے اگرچہ خود مختار ہیں مگر عراق کی فوج کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت خود کریں نہ کہ کسی خودمختار علاقے کی مسلح افواج کو اس کی ذمہ داری دے دی جائے۔ الشیعہ السوڈانی کے منصوبے کے پیچھے پڑوسی ملک ترکی کے ساتھ کرد خود مختار علاقے کی افواج کو پیچھے دھکیل کر ترکی اور عراق کے سرحد پر ترکی کے ساتھ تصادم کو ٹالنا ہے ۔ کردوں کے ساتھ ترکی کے تعلقات خراب ہیں ۔ ترکی کا الزام ہے کہ وہ اس کے ملک کے داخل ہو کر دہشت گردانہ وارداتیں انجام دیتے ہیں اور ترکی کے نظم ونسق کے لیے خطرہ ہیں۔ ترکی یہ فکر ان معنوں میں صحیح ہے کہ ایک طویل عرصے سے کرد باغی ترکی میں ایک علیحدہ ترک ملک بنانے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔ ترکی کا یہ بھی الزام ہے کہ یہ باغی طیب اردگان کی پارٹی کی حکومت کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ بہر حال یہ صورت حال اس پورے خطے کو غیر مستحکم بنانے والی ہے اور مستقبل قریب میں حالات بہتر ہوجائیں اس کی امید بھی زیادہ نہیں ہے۔ مگر پھر بھی دوسرے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے وزیراعظم الشیعہ السوڈانی عراق کی سلامتی اور خلفشار کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ چند برسوں میں وہ کس حد تک اپنے ملک کو ایک مستحکم نظام دے پائیں گے۔
rvr
ترکی ، عراق تنازع اور داخلی سیاست کی موشگافیاں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS