ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
گزشتہ مہینہ اسی کالم میں ان اسباب پر روشنی ڈالی گئی تھی جن کیبناء پر ترکی کو فن لینڈ اور سویڈن کی ناٹو میں شمولیت پر اعتراض تھا۔ ترکی کا بنیادی موقف یہ تھا کہ ناٹو ایک ملٹری اتحاد کا نام ہے جس کا مقصد ممبر ممالک کو تحفظ کرانا ہے۔ اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترکی نے یہ کہا تھا کہ یہ بالکل فطری بات ہے کہ جو ممالک ناٹو میں شمو لیت کی رغبت رکھتے ہیں، ان کے لیے ان اصولوں کی پابندی بے حد ناگریز ہے اور چونکہ سویڈن اور فن لینڈ ناٹو کا ممبر بننا چاہتے ہیں، اس لیے ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جو جماعتیں، تنظیمیں اور افراد ترکی کی سیکورٹی کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور وہ ان دونوں ملکوں میں پناہ گزیں ہیں یا ان کی مالی مدد ہو رہی ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے، دہشت گردی میں ملوث افراد کو ترکی کے حوالہ کیا جائے اور دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون نہ کیے جانے کی یقین دہائی کرائی جائے۔ اگر سویڈن اور فن لینڈ کو یہ شرائط منظور ہیں تو ناٹو میں ان کی شمولیت پر رضامندی دینے کے لیے ترکی تیار ہے۔ جن تنظیموں کو ترکی نے دہشت گرد جماعتوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے ان میں کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی اور گولن جماعت بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ وائی پی جی کا تعلق معروف کرد جماعت پی کے کے سے ہے جس نے 1984 میں ترکی کے خلاف قدم اٹھایا تھا تاکہ ایک خود مختار اور آزاد کرد اسٹیٹ قائم کر سکے۔ ترکی نے اس جماعت کو ہمیشہ دہشت گرد گروپ کے طور پر شمار کیا ہے۔ پی کے کے پر امریکہ سمیت بیشتر مغربی ممالک میں بھی پابندیاں عائد ہیں کیونکہ وہ بھی انہیں دہشت گرد جماعت کے زمرہ میں رکھے ہوئے ہیں۔ البتہ پی کے کے سے وابستہ مسلح گروپ وائی پی جی کو امریکہ دہشت گرد نہیں مانتا کیونکہ شام و عراق میں امریکہ نے داعش کے خلاف جنگ میں اس ملیشیا گروپ سے بڑی مدد لی ہے بلکہ کوبانی کے علاقہ میں داعش پر امریکہ کو ملی پہلی فتح میں اس جماعت نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ترکی امریکہ کے اس عمل کو دوہرا معیار گردانتا ہے اور اسی وجہ سے ناٹو کے ممبران ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی بڑھتی رہی ہے۔ وائی پی جی کے مسئلہ کے علاوہ فن لینڈ اور سویڈن کے خلاف ترکی کی دوسری شکایت یہ ہے کہ 2019 میں مسلح کرد جماعتوں کے خلاف فوجی کارروائی کی پاداش میں ان ملکوں نے ترکی کے ہاتھوں اسلحہ فروخت کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی جو جائز قدم نہیں تھا۔ ترکی کا مطالبہ یہ تھا کہ ان دونوں مسئلوں پر سویڈن اور فن لینڈ نہ صرف یقین دہانی کروائیں بلکہ عملی اقدام کے ذریعہ یہ ثابت کریں کہ وہ اسلحہ فروختگی کے معاملہ میں ترکی پر عائد پابندیوں کو واپس لیں گے اور اس کے علاوہ ان تمام تنظیموں اور افراد کے خلاف کارروائی کریں گے جن کا تعلق دہشت گردی سے ہے۔ جو لوگ ترکی کے قانون کے مطابق ہیں انہیں ترکی کے حوالہ کریں تاکہ انہیں ان کے جرائم کے لیے قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ ترکی کے لیے یہ مسئلے اس قدر حساس ہیں کہ جب سویڈن اور فن لینڈ کی قیادت نے اپنے سفارتکاروں کو ترکی بھیج کر صدر رجب طیب اردگان سے ناٹو میں اپنی شمولیت کے مسئلہ پر گفتگو کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو صدر اردگان نے صاف لفظوں میں ان ملکوں سے کہہ دیا کہ اگر ترکی کے مطالبوں کو پورا کرنے کا عزم یہ ممالک نہیں رکھتے ہیں تو سفر کی زحمت گوارہ نہ کریں۔ اس پس منظر میں ترکی کے ساتھ سویڈن اور فن لینڈ کی خفیہ اور اعلانیہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ تینوں ممالک تاریخ کے ایسے موڑ پر کھڑے تھے کہ ایک دوسرے کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ ایک طرف جہاں یوکرین پر روسی جارحیت کی بدولت صدیوں کی ملٹری غیر جانب داری کے سایہ سے سویڈن اور فن لینڈ نکلنے پر مجبور تھے وہیں دوسری طرف ترکی کے سامنے اپنی اندرونی سلامتی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ناٹو کے ممبر ہونے کے ناطے روس جیسے دشمن کے مقابلہ میں ناٹو کے اتحاد کا بھرم قائم رکھنا بھی ضروری تھا۔ ترکی کا ارادہ یہ قطعاً نہیں تھا کہ سویڈن اور فن لینڈ کی ناٹو میں شمولیت کو روکا جائے۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترکی کے پاس کچھ اہم شرائط تھے جن کی تکمیل کے بغیر صدر اردگان سویڈن اور فن لینڈ کی شمولیت پر رضامندی دینا اپنے ملک کے لیے غیر مفید سمجھتے تھے۔ یہ معاملہ مئی میں شروع ہوا تھا جب سویڈن اور فن لینڈ نے ناٹو میں شمولیت کے لیے باضابطہ طور پر درخواست دی تھی۔ تب سے اس مسئلہ پر لگاتار بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔ کوئی حل سامنے نہیں آ رہا تھا۔ اسی دوران جرمنی میں جی-7 سربراہان کا اجلاس منعقد ہوا اور وہاں بھی روسی اور چینی خطرات اور چیلنجز پر گفتگو رہی۔ اس کے فوراً بعد ہی اسپین کے شہر میڈرڈ میں ناٹو کا اجلاس منعقد ہونے والا تھا۔ یہ اجلاس اپنی اہمیت کے اعتبار سے اس لائق تھا کہ روس کو واضح پیغام بھیجا جانا ضروری تھا کہ ناٹو کے تمام ممبران روس کی توسیع پسند پالیسی کے خلاف ہیں اور اپنے ممبر ممالک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر قیمت پر تیار ہیں۔ میڈرڈ میں منعقد ہونے والے ناٹو کے اس اجلاس میں بطور ممبر ترکی کی حاضری بھی ضروری تھی۔ صدر رجب طیب اردگان میڈرڈ روانہ ہونے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ اجلاس کی کارروائی شروع ہونے میں اب صرف چند گھنٹے ہی باقی تھے لیکن سویڈن اور فن لینڈ کی ناٹو میں شمولیت کے مسئلہ پر تعطل لگاتار قائم تھا۔ ناٹو کے اجلاس میں حاضر ہونے والے دیگر لیڈران اور صحافیوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ کیا ہونے والا ہے۔ یعنی آخری لمحہ تک ایسا ماحول تھا کہ کسی کو کچھ خبر نہیں مل پا رہی تھی۔ البتہ ناٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹنبرگ اس مسئلہ کو حل کرنے اور تمام فریقوں کے اعتراضات کا مناسب جواب ڈھونڈنے میں مشغول تھے۔ سویڈن اور فن لینڈ کے علاوہ ترکی کے وزراء خارجہ سے باتیں چل رہی تھیں۔ کچھ لمحوں کے بعد ترکی، فن لینڈ اور سویڈن کے لیڈران اسٹولٹنبرگ کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے نظر آئے جب کہ ان ممالک کے وزراء خارجہ ایک میمورنڈم پر دستخط کر رہے تھے۔ ترکی کے افسران کی تالیوں سے پورا ماحول گونج اٹھا لیکن اب تک کسی پتہ نہیں تھا کہ آخر معاملہ کیا تھا؟ دراصل جس میمورنڈم پر دستخط کیا گیا تھا اس میں سویڈن اور فن لینڈ کی ناٹو میں شمولیت کا پروانہ تھا۔ میمورنڈم کی جو تفصیلات میڈیا میں آئی ہیں اس کے مطابق سویڈن اور فن لینڈ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ ترکی کے مطالبوں کو پورا کیا جائے گا۔ دہشت گرد تنظیموں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے گی اور انہیں ترکی کے مفاد کے خلاف عمل کی اجازت نہیں ہوگی۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ترکی کے ہاتھوں اسلحہ کی فروختگی پر عائد پابندی کو ہٹایا جائے گا۔ اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترکی نے اپنے مفاد کی حفاظت میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی یہ بیان دیا ہے کہ ترکی کی سلامتی امریکہ کی سلامتی جیسی ہے۔ گرچہ ترکی اور امریکہ کے درمیان ایف-16 کے معاملہ پر تناؤ جاری ہے۔ حالانکہ مئی کے مہینہ میں جب ترکی نے اپنا اعتراض جتایا تھا اس وقت بھی تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ سویڈن اور فن لینڈ کی ناٹو میں شمولیت معاملہ پر جاری تعطل کو ختم کیا جا سکتا تھا اگر امریکہ ایف-16 ترکی کے ہاتھوں بیچنے پر راضی ہو جائے لیکن امریکی موقف یہ تھا کہ یہ معاملہ امریکہ اور ترکی کا نہیں ہے بلکہ ناٹو سے جڑا ہوا ہے اس لیے دونوں کو الگ الگ رکھنا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکی صدر نے دونوں نارڈک ملکوں کی ناٹو میں عضویت کے لیے ترکی کو منانے کا کام نہیں کیا۔ ایک امریکی افسر کے مطابق صدر بائیڈن کو تب تک استعمال نہیں کیا گیا جب تک یہ بالکل واضح نہیں ہو گیا کہ اب ان کی مداخلت کا صحیح وقت ہے۔
بہر حال ترکی کی رضامندی سے صرف سویڈن اور فن لینڈ کی ناٹو میں شمولیت کا راستہ ہی صاف نہیں ہو گیا ہے بلکہ ناٹو اپنے میڈرڈ اجلاس کے ذریعہ روس کو یہ پیغام دینے میں بھی کامیاب رہا ہے کہ وہ روسی جارحیت کے مقابلہ میں ایک متحد قوت ہے۔ اس مرحلہ میں امریکی قیادت والے یوروپی محاذ کو اس اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ یہ مانا جا رہا ہے کہ سویڈن اور فن لینڈ کی شمولیت ناٹو میں جس سرعت کے ساتھ ہو رہی ہے اس سے پہلے کسی کو اتنی جلدی ممبرشپ حاصل نہیں ہوئی ہے۔ ناٹو کے سکریٹری جنرل کے بقول بہت جلد ساری کارروائیاں مکمل کر لی جائیں گی۔ ایک اندازہ کے مطابق اس کے لیے ایک سال کی مدت درکار ہوگی۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں