یوکرین پر روسی جارحیت کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان رقابت کا دائرہ پھیلتا ہی جارہا ہے۔ مغربی ممالک روس کے عمل دخل کو کم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ یوروپ میں صف بندی پہلے ہی ہوچکی ہے اور امریکہ کی حمایت اور مخالفت والے ممالک انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ امریکہ سرد جنگ اور موجودہ دشمن کو روس کے دائرہ کار کو دوسرے خطوں میں بھی محدود کرنے کی جستجو میں ہے۔ اس میں براعظم افریقہ کے بطور خاص دو اہم مسلم ممالک ہیں جہاں پر دونوں عالمی طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے برسرپیکار ہیں۔ امریکہ روس کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے اس قدر چراغ پا ہیں کہ اس نے اپنے حریف ممالک پر دبائو ڈالنا شروع کردیا ہے کہ لیبیا اور سوڈان میں روس کے فوجی عزائم کو آگے بڑھنے نہ دیں۔
خیال رہے کہ روس نے پچھلے دنوں لیبیا میں امریکہ کی دخل اندازی پر سخت رد عمل ظاہر کیا تھا اور روسی صدر ویلادیمر پوتن نے کہا تھا کہ اگر کرنل قذافی کے دور میں وہ روس کے حکمراں ہوتے تو وہ لیبیا کا وہ حشر نہ ہونے دیتے اور نہ ہی امریکہ کی قیادت والی محاذ کو یہ اجازت دیتے کہ وہ مغربی افریقہ کے اہم ترین خوشحالی ، پرامن اور طاقتور ترین ملک لیبیا کی اینٹ سے اینٹ سے بجا ڈالے۔
عالمی سفارتی ذرائع کے مطابق امریکہ کا جو بائیڈن انتظامیہ لیبیا اور سوڈان میں اثر ورسوخ رکھنے والے ممالک اور سفارت کاروں دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں سے روسی فوج اور اس کے پروردہ ویگنر گروپ کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرلے۔ خیال رہے کہ امریکہ انتظامیہ ، برطانیہ وغیرہ مسلسل اس بات کے لیے کوشش کرتے رہے ہیں کہ اقوام متحدہ ویگنر گروپ پر پابندیاں سخت کرے تاکہ یوکرین اور دیگر خطوں میں اس فوجی ٹھیکیدارکمپنی کے عمل دخل کو محدود کیا جاسکے۔ ویگنر گروپ کے سربراہ دولت مند ایووپر گوزنYeugeny Prigozhin روس کے صدر ویلادیمر پوتن کے بہت قریبی رفیق سمجھے جاتے ہیں ۔
امریکی وزارت فاع کا کہنا ہے کہ یہ گروپ روس کی وزارت دفاع کا اہم اعلیٰ کار ہیں۔ روس کے حکام ان خبروں کی مذمت کرتے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں موجودہ امریکی انتظامیہ نے مصر اور متحدہ عرب امارات کے ذریعہ سوڈان اور لیبیا کی حکومت اور بااثر افراد اور لیڈروں پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ ویگنر گروپ کے ساتھ روابط مقطع کرلے ۔ یہ بات سوڈان اور مصر کے اہم سفارت کاروں کے وسیلہ سے سامنے آئی۔ یہ سفارت کار اس بابت سرکاری طور پر کچھ بتانے سے انکارکرتے رہے ہیں ، ان کو اس بات کا مجاز نہیں اس خبر کی ترید یا تائید کرسکیں۔
مصر کے سفارتی ذرائع کا یہاں تک کہناہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جو بھی بات چیت ہوتی ہے اس میں یہ ایشو ایجنڈے کے ٹاپ پر ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ویگنر گروپ اس سے قبل سوڈان کے عمر البشیر کے ساتھ رابطے میں تھا ۔ عمر البشیر کے اخراج کے بعد اب موجودہ سربراہ عبدالفتح برہان کے رابطے میں ویگنر کے گروپ حکام ہیں۔ لیبیا ملیٹری کے کمانڈر خلیفہ حفتر ویگنر گروپ کے رابطے میں ہیں اور ویگنر گروپ میں ہزاروں کمانڈر لیبیا اور خاص طور پر مشرقی لیبیا میں تعینات ہیں۔ افریقہ اور مشرقی وسطیٰ کے کئی ممالک لیبیا ، سوڈان ، سینٹرل افریکن ری پبلک اور شام میں بھی وینگر گروپ کے فوجی تعینات ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ وینگر گروپ روس کے ساتھ تعاون کررہاہے ۔ خاص طور پر معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال علاقوں میں اس کے فوجی حکام اور ماہرین سرگرم ہیں ۔
مالے میں تو ویگنر گروپ کے فوجی(جن کو بھاڑے کا ٹٹو کہتے ہیں) سرکاری فوجی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر برسر پیکار ہیں اور روسی ماہرین کی موجود گی کی وجہ سے فرانس کو انخلا کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔ امریکہ کے سینٹرل فار اسٹریٹجک اینڈ انٹر نیشنل اسٹڈیز کا کہنا ہے کہ سوڈان میں سونے کی کانوں پر وینگر گروپ کا قبضہ ہے۔ پچھلے دنوں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس Willian Burns لیبیا اور مصر گئے تھے اور انہوںنے ان تمام امور پر گفتگو کی تھی اور حال ہی میں وزیر خارجہ امریکہ انٹونی بلکن بھی مصر کے صدر عبدالفتح السیسی سے ملے تھے ۔ ان دونوں افسران کی گفتگو میں روس کے اثرات اور ویگنر گروپ کی سرگرمیاں زیر بحث آئی تھیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ ویگنر گروپ کا سرگرم ہونا غیر صحت مندانہ قدم ہے۔
برنس اور بلکن دونوں روس اور ویگنر گروپ کے اثر ورسوخ کو ختم کرنے کے لیے مصر اور سوڈان پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ ویگنر گروپ سے دور رہے۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ سوڈان پر مصر اور خلیج کے کئی ممالک کے ذریعہ دبائو ڈالا جارہاہے اور خرطوم کو اپنے حرکتوں سے باز رہنے کے لیے کہا جا رہاہے ۔ سوڈان میں ویگنر گروپ کے اڈے ہیں اور وہ وہاں سے سینٹرل افریکن ری پبلک ودیگر ملکوں میں اپنی سرگرمیاں چلا رہا ہے۔ سوڈان میں 2017 میں پیرا ملیٹری گروپ ریپڈ سپورٹس فورس کو تربیت دینے میں اس گروپ کا ہاتھ بتایا جاتاہے۔ یہ گروپ جنوید دہشت گردوںسے نمٹنے کے لیے بنا یا گیاتھا۔ ریپڈ سپورٹس فورس Repid Support Force (آر ایس ایف)خلیج کے کئی ممالک کا مدد کررہا ہے اس میں مبینہ طور پر سعودی عرب اور یو اے ای بھی شامل ہیں۔ یہ گروپ ان مذکورہ بالا دونوں ممالک کے فوجی عزائم اور معاون اور مددگار ہیں۔ دار فور اور دریا نیل کے وادی میں وسائل سے مالا مال خطوں میںریپڈ سپورٹس فورس سرگرم ہے۔
پچھلے دنوں لیبیا میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس نے وزیر اعظم عبدالحمید الابیہ سے ملاقات کی تھی۔ امریکہ ان کی کھلے عام مدد کررہا ہے مگر اس کے علاوہ ان کے حریف خلفیہ ہفتر سے بھی ولیم برنس سے ملاقات کرکے ان پر دبائو ڈالا تھا کہ وہ ویگنر گروپ سے مدد لینا ختم کریں۔ لیبیا میں ویگنر گروپ 2018سے سرگرم ہے۔ ہفتر کا کہنا ہے کہ وہ مسلم دہشت گردوں سے مشرقی لیبیا سے سخت مقابلہ کررہے ہیں ۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ لیبیا میں جولائی اور ستمبر 2020 تک 2000ویگنر فوجی ماہرین موجود تھے جو فضائی اور زمینی سطح پر سرگرم ہیں اور روس کی فوج اس کی مدد کررہے ہیں۔
ہفتر کا کہنا ہے کہ اگر ترکی اور لیبیا کے دہشت گرد کی سرگرمیوں کو موقوف کردیا جائے تو وہ ان کو کافی مدد ملے گی۔ مصر نے پہلے ہی ہفتر کو وارننگ دی ہے کہ وہ ان کے سرحد کے قربے ویگنر گروپ کو نہ تعینات کریں۔ اب دیکھنایہ ہے کہ آج کے بدلے ہوئے حالات ہیں۔ روس اور اس کے حامی ویگنر گروپ امریکہ اور اس کے حلیف مغربی ممالک کس حد تک کنٹرول کرپائیں گے۔
rvr