ٹرمپ کا غزہ پلان مغر بی ایشیا کو جہنم بنا دے گا: عبیداللّٰہ ناصر

کسی عرب حکمراں کی اسے قبول کرنے کی ہمت نہیں

0

عبیداللّٰہ ناصر

جیسے ہٹلر نے گر یٹر جرمنی بنانے کے شیطانی خواب کے چکر میں پولینڈ پر قبضہ کرنے کے لیے اس پر دھاوا بول کر دنیا کو دوسری جنگ عظیم کی آگ میں جھونک دیا تھا، اسی طرح امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی پڑوسی آزاد اور خودمختار ملک کناڈا کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی51ویں ریاست بنانے اور ڈنمارک کے خود مختار علاقہ گرین لینڈ کو ہڑپ کرنے اور پنامہ سے اس کی نہر چھین کر اسے امریکی نہر بنانا چاہتے ہیں، یہ سب ان کے اس انتخابی بیانات کی نفی کرتے ہیں جس میں انہوں نے دنیا میں جنگیں روکنے، امن قائم کرنے اور امریکہ کو جنگوں کے معاشی بوجھ سے بچانے کے لیے کیا تھا۔ غیر ملکی تارکین وطن کے ساتھ ظالمانہ رخ اختیار کرنے، انہیں پابہ زنجیر کرکے دوسرے ملکوں میں ٹھیلنے، میکسیکو کو آنکھیں دکھانے، تیسری جنس(ٹرانس جنڈرس ) اور دیگر لبرل خیالات کی نفی کر کے اور ٹیرف کے ذریعہ امریکہ کی معاشی بالادستی تھوپے رکھنے کی پالیسی اپنا کر ٹرمپ نے اپنا اصلی روپ دکھا دیا ہے ۔

مغربی ایشیا کے لیے تو انہوں نے ایسے خطرناک منصوبہ کا اعلان کیا ہے جو نہ صرف امریکہ کی سابقہ پالیسیوں کے خلاف ہے بلکہ وہ اس علاقہ کو ہمیشہ جہنم زار بنائے رہے گا۔ فلسطینیوں کو مصر اور اردن میں شفٹ کرکے پورے غزہ کو اسرائیل کے حوالے کر دینے کا ان کا پلان نہایت خطرناک انجام سامنے لائے گا۔ حسب توقع سعودی عرب، قطر، مصر اور اردن سمیت عرب لیگ اور سبھی عرب ملکوں و اسلامی تعاون کونسل نے ان کا یہ پلان مسترد کر دیا ہے اور آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے اپنے عہد کا اعادہ کیا ہے۔ دوسری جانب ٹرمپ نیتن یاہو کو امریکہ بلا کر ان سے اس منصوبہ پر تبادلہ خیال کرنے جا رہے ہیں۔دنیا خاص کر عرب اور مسلم ممالک سانس روک کر ٹرمپ اور نیتن یاہو کے اگلے قدم کا انتظار کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ فلسطین میں ابھی اور خون کی ندیاں بہیں گی۔

ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دنیا میں امن قائم کرنے، جنگیں بند کروانے اور امریکہ کی معاشی حالت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے دیگر ملکوں میں اپنے فوجی مستقر کم کرنے سمیت کچھ ایسے وعدے کیے تھے جنہوں نے ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا کیونکہ غزہ اور یوکرین میں انسانیت کو سسکتے دیکھ کرعالمی رائے عامہ جو بنیادی طور سے ہمیشہ جنگ کی مخالف رہی ہے، اس نے ٹرمپ کے بیان اور وعدوں میں امید کی کرن دیکھی تھی۔ حالانکہ اسرائیل کے سلسلہ میں ٹرمپ سبھی امریکی صدور کی طرح اس کے اندھے حامی رہے ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی اسرائیل نواز ہیں کیوں کہ کسی امریکی صدر نے1967 میں جنگ کے ذریعہ یروشلم پر اسرائیل کے قبضہ اور اسے اسرائیل کی راجدھانی بنانے کے اسرائیلی منصوبہ کو منظوری نہیں دی تھی لیکن ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں اسرائیل کے اس منصوبہ کو پورا کر دیا تھا۔ اپنی دوسری مدت کی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے جہاں غزہ میں جنگ بندی کا وعدہ کیا تھا، وہیں اسرائیل کی سرحدوں میں توسیع یا گریٹر اسرائیل کے منصوبہ کی بھی حمایت کی تھی لیکن جو بائیڈن کی اسرائیل پالیسی سے بیزار امریکہ کے مسلم ووٹروں نے بھی غزہ میں جنگ بند کرانے کے ٹرمپ کے وعدوں کو اہمیت دی اور پہلی بار اپنی روایتی روش سے ہٹ کر ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا۔ یہ درست ہے کہ غزہ کی جنگ بندی میں جہاں جو بائیڈن انتظامیہ کی مہینوں کی محنت، بھاگ دوڑ اور ڈپلومیسی کا دخل ہے، وہیں ٹرمپ کی نیتن یاہو کی گھڑکی نے بھی کا م دکھایا اور ایک ایسا سمجھوتہ ہوا جو اسرائیل کی ہر طرح سے شکست ہے، صرف یہ کہ ہزاروں بے گناہوں کی موت اور غزہ کی تباہی ہی اسرائیل خاص کر نیتن یاہو کے ہاتھ لگی ۔

دوسری مدت کی صدارت کا حلف لینے کے ساتھ ٹرمپ نے اپنے جن منصوبوں کا اعلان کیا ہے، وہ ان کے دنیا میں جنگ بند کرانے کے وعدوں کے بالکل الٹ ہیں، انہوں نے پڑوسی ملک کناڈا، پناما نہر، ڈنمارک وغیرہ کے لیے اپنے جن منصوبوں یا خوابوں کا ذکر کیا ہے، وہ ہٹلر کے پڑوسی ملکوں کو ہڑپ کر کے گریٹر جرمنی بنانے کے منصوبوں کی عکاسی کر رہے ہیں۔ظاہر ہے کوئی بھی ملک خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، اپنی سرحدوں کی حفاظت، اپنے اقتدار ا علیٰ، اپنی یکجہتی اور سب سے بڑھ کر اپنے وجود کی حفاطت ضرور کرے گا، اس سلسلہ میں کولمبیا کے صدر گستاوو پیڈرو نے انہیں ایک سخت خط لکھ کر آگاہ کر دیا کہ چھوٹا اور کمزور ملک ہونے کے باوجود وہ امریکہ کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں ہے۔ ان کا یہ خط سوشل میڈیا (ایکس )پر وائرل ہو چکا ہے جسے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔

لیکن ٹرمپ کو سب سے بڑا جھٹکا عرب ممالک سے لگا، جنہوں نے اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں ہو رہی فلسطینیوں کی نسل کشی پر تو مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن فلسطین کو ختم کر کے اسے پوری طور سے اسرائیل کے حوالے کر دینے اور غزہ کے خانماں برباد شہریوں کو مصر اور اردن میں بسا دینے کی شیطانی پیشکش کو نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ واضح کر دیا کہ بغیر آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے مغربی ایشیا میں امن اور استحکام نہیں آ سکتا۔در اصل ٹرمپ اندھی اسرائیل نوازی میں نہ تو فلسطین کی جنگ آزادی کی تاریخ جانتے ہیں اور نہ ہی فلسطینیوں کی مزاحمت، جذبہ قربانی اور ایمانی سے واقف ہیں۔انہیں نہیں پتہ کی گزشتہ ایک صدی سے اسرائیلی امریکی بربریت اور انسانیت سوز مظالم کے باوجود ان کے جذبہ حریت اور ایمان کو ڈگمگا یا نہیں جا سکا ہے۔ٹرمپ کو ان کوششوں کا بھی پاس و لحاظ نہیں ہے جو ان کے پیش رو امریکی صدر بل کلنٹن اور کارٹر نے یاسر عرفات مرحوم اور اسرائیلی وزیراعظم کے درمیان کرایا تھا، جس میں اسرائیل نے آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کومنظوری دی تھی لیکن بعد میں اسرائیل مکر گیا، نہ ٹرمپ کو 1967 کی سلامتی کونسل کی اس قرار داد کا خیال ہے جو امریکہ کی حمایت سے ہی منظور ہوئی تھی اور جس میں اسرائیل سے ان تمام علاقوں کو خالی کر دینے کے لیے کہا گیا تھا جوا س نے جون 1967کی جنگ میں قبضہ کرلیے تھے۔

مصر کے السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم سمیت کسی عرب حکمران کی اوقات نہیں ہے کہ وہ ٹرمپ کا شیطانی منصوبہ منظور کرلے۔فلسطینی اپنی سرزمین خاص کر یروشلم اور قبلہ اول کو لے کر کتنے حساس ہیں، اس کا علم بھی ٹرمپ کو نہیں ہے، انہیں شاید معلوم نہیں کہ ایک فلسطینی نے اردن کے موجودہ شاہ کے پر دادا شاہ عبد اللہ اول کو اس وقت موت کے گھاٹ اتا ر دیا تھا جب وہ مسجد اقصیٰ سے باہر نکل رہے تھے کیونکہ انہوںنے برطانوی منصوبہ کے تحت یروشلم کو اردن میں شامل کر لیا تھا جس پر1967کی جنگ تک اردن کا قبضہ تھا۔ اسی طرح مصری فوج نے اپنے صدر انور سادات کو بھری پریڈ کے دوران گولیوں سے بھون دیا تھا کیونکہ انہوں نے امریکہ کے دباؤ میں آ کر میدان جنگ میں جیتی ہوئی بازی شکست میں تبدیل کر دی تھی۔ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں ابراہیمی مفاہمت کے ذریعہ اسرائیل کو عرب ملکوں میں قبولیت دلانے کی کوشش کی تھی جسے فلسطینی جانبازوں نے بے مثال قربانیا ں دے کر خاک میں ملا دیا۔ ایک جاودانی حقیقت جسے ٹرمپ اور نیتن یاہو سمیت دنیا کے سبھی اناپرست، طاقت کے زعم اور خودسری میں مبتلا لیڈروں کو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا کی کسی قوم کے جذبہ آزادی کو دبایا نہیں جا سکتا۔ہندوستان کے عوام 200 سال تک برطانوی استعمار سے لڑتے رہے اور آخر کار 1947 میں کامیاب ہوئے،لیبیا نے10برس تک اٹلی کو ناکوں چنے چبوا کر آزادی حاصل کی، جنوبی افریقہ کے سیاہ فاموں کو کتنے برسوں تک سفید فام اقلیت کا غلام بنائے رکھا گیا لیکن انہوں نے آخر کار آزادی حاصل ہی کرلی۔فلسطینی بھی اپنا وطن واپس پائیں گے، یہ نوشتہ دیوار ہے۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں کو سمجھنا ہوگا کہ جنگ سے زیادہ امن اسرائیل کے تحفظ اور دفاع کا بہترین راستہ ہے۔ اسرائیل اور فلسطین دو آزاد، خود مختار ملک اچھے پڑوسیوں کی طرح رہ سکتے ہیں، یہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔100 سال کی فلسطینی مزاحمت کی تاریخ کو سامنے رکھ کر ٹرمپ اور نیتن یاہو اس راستہ پر چل کر ہی حقیقی امن اور استحکام حاصل کر سکتے ہیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS