ٹرمپ کے فیصلے کا بنیادی پروجیکٹوں پر تشویشناک اثر: صبیح احمد

0

صبیح احمد

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ(یو ایس ایڈUSAID/) کے فنڈس منجمد کر دیے ہیں تاکہ امریکی غیر ملکی امداد کا از سرنو جائزہ لیا جا سکے۔ اس کی وجہ سے امریکہ کی جانب سے بیرون ملک چلائے جانے والے مختلف امدادی پروگرام آئندہ کچھ دنوں تک بجٹ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اس کا براہ راست اثر ہندوستان سمیت کئی ممالک پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یو ایس ایڈ کے تحلیل ہونے کا سب سے زیادہ اثر ’سب صحارا‘ افریقہ پر پڑے گا۔ بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے، ایبولا کے پھیلاؤ کو روکنے اور ایچ آئی وی سے متعلق پروگرام بند ہوجائیں گے۔ اسی طرح اس کا اثر لاطینی امریکہ پر بھی پڑے گا۔ جنوبی میکسیکو میں تارکین وطن کے لیے ایک مصروف پناہ گاہ سے ڈاکٹروں کو ہٹا دیا گیا ہے اور وینزویلا سے فرار ہونے والے ہم جنس پرست نوجوانوں کو ذہنی صحت امداد فراہم کرنے والے پروگرام کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

ٹرمپ کے اس فیصلے کا ہندوستان پر بھی کافی اثر پڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ’یو ایس ایڈ‘ نے ہندوستان میں تمام این جی اوز کو ہدایت دی ہے کہ وہ ان منصوبوں پر کام بند کر دیں جن کی وہ (یو ایس ایڈ) حمایت کرتی ہے۔ ٹرمپ کے نئے حکم کے بعد اس نے ہندوستان میں اپنے تمام پروجیکٹوں پر روک لگا دی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر صحت کے شعبے پر پڑسکتا ہے۔ کئی ریاستوں میں زچہ و بچہ صحت خدمات، پینے کا صاف پانی، صفائی ستھرائی اور صنفی بنیاد پر تشدد کی روک تھام جیسے پروگرام شامل ہیں۔ اس سے صحت، تعلیم، صنفی مساوات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے شعبوں میں کام کرنے والی تنظیموں میں تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ اس فیصلے کے بعد یو ایس ایڈ 90 دنوں کے لیے موجودہ گرانٹس کا جائزہ لے گا۔ یہ حکم عالمی امداد میں کمی کے وقت آیا ہے، جس سے این جی اوز کی مالی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ اس امدادی تنظیم نے اپنے شراکت داروں کو اس وقفہ کے دوران اخراجات کو کم سے کم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس ہدایت میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’وصول کنندہ اس معاہدہ کے تحت اس وقت تک کام دوبارہ شروع نہیں کرے گا جب تک کہ معاہدہ کے افسر (یو ایس ایڈ) کی طرف سے تحریری اطلاع موصول نہ ہو جائے۔‘ کہا جا رہا ہے کہ یہ ’اسٹاپ ورک‘ آرڈر 90 دن کی مدت کے لیے آیا ہے۔ اس عرصہ کے دوران موجودہ گرانٹس کا جائزہ لیا جائے گا۔یہ غیر یقینی صورتحال خوف و ہراس کا باعث بن رہی ہے۔

یو ایس ایڈ کی ویب سائٹ کے مطابق جنوری 2021 تک ایجنسی ہندوستان کی 6 ریاستوں میں ماں اور بچے کی صحت کے شعبے میں اقدامات کیلئے مدد کر رہی تھی۔ اس کی توجہ ماں اور بچے کی صحت کی خدمات کو بہتر بنانے پر تھی۔ یہ کئی شہروں میں پینے کے صاف پانی، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت تک رسائی کو بڑھا کر صحت کو بہتر بنانے کے اقدامات کو بھی فنڈ فراہم کر رہی تھی۔ اس کے علاوہ یہ ریاستوں اور نجی ایجنسیوں کے ساتھ ایسے پروگراموں کی حمایت کے لیے شراکت داری کر رہی تھی جو صنفی بنیاد پر تشدد کو روکتے ہیں اور معذور آبادی کی حفاظت اور مدد کرتے ہیں۔ ’یو ایس ایڈ‘ حکومتوں کے ساتھ مل کر امریکی حکومت کے فیڈ دی فیوچر، عالمی صحت اور عالمی موسمیاتی تبدیلی کے اقدامات کے ذریعہ اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تقریباً 10,000 افراد کو ملازمت دیتی ہے اور اس کا سالانہ بجٹ اربوں میں ہے۔ کانگریس (امریکی پارلیمنٹ) ہر سال یو ایس ایڈ کی فنڈنگ کی منظوری دیتی ہے جس کے بعد یہ کانگریس اور وہائٹ ہاؤس کے ساتھ مل کر سرمایہ کاری کی ترجیحات طے کرتی ہے۔ یو ایس ایڈ کی سرمایہ کاری کی ترجیحات محکمہ خارجہ کی خارجہ پالیسی کے رہنما خطوط سے ہم آہنگ ہیں۔ اس کے بعد وہ بجٹ کو گرانٹس، معاہدوں اور تعاون پر مبنی معاہدوں کے ذریعہ ملکوں میں تقسیم کرتی ہے۔ مالی سال 2023 میں یو ایس ایڈ نے 40 بلین ڈالر(تقریباً 3.44 لاکھ کروڑ روپے) سے زیادہ کا انتظام کیا تھا، جو کہ محکمہ خارجہ، غیر ملکی آپریشنز اور متعلقہ پروگراموں کے لیے مختص کل بجٹ کا ایک تہائی سے بھی زیادہ حصہ ہے۔

ہندوستان میں ’یو ایس ایڈ‘ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ امریکہ کے اس وقت کے صدر ہیری ٹرومین نے 1951 میں انڈیا ایمرجنسی فوڈ ایڈ ایکٹ پر دستخط کرکے ہندوستان کی ترقی کی حمایت شروع کی تھی۔ دہائیوں کے دوران یو ایس ایڈ کا کردار خوراک کی امداد سے لے کر بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اسکل ڈیولپمنٹ اور اقتصادی اصلاحات تک وسیع ہوگیا ہے۔ 1970 کی دہائی کے اواخر تک یہ پروجیکٹ دیہی بجلی، کھاد کی افزودگی، ملیریا پر قابو پانے، صحت کے پروگراموں اور آبپاشی کے پروگراموں تک پھیل گئے۔ اس طرح 1980 کی دہائی میں ہندوستان میں اس کی توسیع ہوئی۔ 1980 کی دہائی کے وسط تک توجہ سائنس، ٹکنالوجی اور پالیسی اصلاحات کی طرف منتقل ہو گئی۔ اسی طرح زرعی تحقیق، بایو میڈیسن، پانی کے انتظام اور خاندانی منصوبہ بندی کو تعاون حاصل ہوا اور ٹکنالوجی کی منتقلی کے ساتھ ادارہ جاتی صلاحیت کی تعمیر پر زور دیا گیا۔لیکن اب اس پر قدغن لگا دیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق سول سوسائٹی پہلے ہی فنڈس کی کمی کا دباؤ محسوس کر رہی ہے۔ عالمی امداد کے ذرائع کئی دہائیوں سے آہستہ آہستہ خشک ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ حالیہ برسوں میں فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (FCRA) کی طرف سے عائد پابندیوں نے مقامی تنظیموں کے لیے غیر ملکی عطیات وصول کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ یو ایس ایڈ کی فنڈنگ پر روک ایک بڑے عالمی رجحان کا حصہ ہے۔ سویڈن، جرمنی اور برطانیہ کی بڑی ایجنسیاں بھی ممالک کی امداد میں کٹوتی کر رہی ہیں۔ اس اقدام سے ہندوستان میں یو ایس ایڈ کی مالی اعانت سے چلنے والے پروجیکٹوں میں مصروف افراد میں تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ اس پابندی سے ان کے کام پر کیا اثر پڑے گا۔ ’یو ایس ایڈ‘ شراکت داروں کو اس وقفہ کے دوران اخراجات کو کم سے کم کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ فنڈنگ پر روک ایسے وقت میں آئی ہے جب عالمی امداد پہلے سے ہی کم ہو رہی ہے۔ اس نے ترقی پذیر ممالک میں این جی اوز کے لیے فنڈس اکٹھا کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ ایف سی آر اے کی پابندیوں نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، جس سے ہندوستانی تنظیموں کے لیے غیر ملکی عطیات وصول کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

’یو ایس ایڈ‘ پر پابندی کی وجہ سے ہندوستان میں مختلف پروگرام متاثر ہوں گے۔ یہ ہندوستان اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کو اعلیٰ کارکردگی، کم اخراج، توانائی کی حفاظت اور ان کی معیشتوں کو تبدیل کرنے میں مدد کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ اس میں صاف توانائی تک رسائی کو بہتر بنانا اور ہندوستان کی انرجی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے مواقع کو بڑھانا شامل ہے۔ یہ اور ہندوستان کا توانائی پروگرام جنوبی ایشیا کے خطہ پر مرکوز ہے اور امریکی حکومت کے انڈو پیسفک انرجی انیشیئٹیو کی حمایت کرتا ہے۔ اب ان منصوبوں کا کام لٹک سکتا ہے۔ اس پابندی سے ہندوستان میں اس کے تعاون سے چلائے جانے والے صحت کے پروگرام متاثر ہوں گے۔ ہندوستان میں اس کے صحت پروگراموں کا مقصد سالانہ 20 لاکھ اموات کو روکنا ہے، اس طرح ملک کی شرح اموات کو کم کرنا ہے۔ ہندوستان کو فی الحال صحت سے متعلق کئی چیلنجوں کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے،جس میں زچگی اور بچوں کی اعلیٰ شرح اموات، وسیع پیمانے پر تغذیہ کی کمی، تپ دق (ٹی بی)، ایچ آئی وی اور غربت کا بوجھ شامل ہیں۔ ایسے میں یہ تمام پروگرام متاثر ہو سکتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ آخر ہندوستان کے حوالے سے اتنے سخت بلکہ بعض دفعہ ہتک آمیز فیصلے کیوں لے رہا ہے جبکہ سرکاری سطح پر لوگ امریکہ کی دوستی کے گن گاتے نہیں تھکتے؟ ’گلبہیاں‘ (گلے میں باہیں ڈالے) پارٹنرشپ سے فرد واحد یا لوگوں کے ایک گروپ کو تو فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن ملک کے عام لوگوں کو ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیںملتا۔ بحیثیت ایک قوم وقار حاصل کرنے کے لیے ریڑھ کو سیدھا اور باہوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ’یو ایس ایڈ‘ کی معطلی، انتخابی فنڈ پر روک، ’ٹیرف‘ (محصولات) میں غیر معمولی اضافہ اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈالے غیر قانونی ہندوستانی تارکین وطن کی واپسی اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ خواہ اپنی سبکی چھپانے کے لیے جو بھی جواز پیش کیے جائیں، لیکن حقیقت صاف شفاف آئینے کی طرح سب کے سامنے ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS