حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ تبدیلی سے گھبرانا نہیں چاہیے، البتہ تبدیلی کئی بارتشویشناک ہوتی ہے جیسے یوروپی ممالک میں دائیں بازو کی بڑھتی مقبولیت تشویشناک ہے۔ یوروپی یونین کے انتخابات کے بعد فرانس کے پارلیمانی انتخابات نے بھی یہی اشارہ دیا ہے کہ یوروپ بدل رہا ہے۔ وہ بدل کر کیا روپ لے گا؟ یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ امریکہ کے بدلنے کا اشارہ ڈونالڈٹرمپ دیتے رہے ہیں۔ ان کی شکست کے بعد 2020 میں واشنگٹن کے کیپٹل ہل پر لوگوں کا دھاوا یہ اشارہ تھا کہ اب امریکہ پہلے والا امریکہ نہیں۔ وہاں جمہوری نظام تو ہے لیکن وہ چیزیں جگ ظاہر ہو گئی ہیں جو پہلے امریکی لیڈروں کے اپنے ملک کے جمہوری اقدار کا خیال رکھنے کی وجہ سے پنہاں تھیں۔ اسی لیے خارجہ پالیسی کی وجہ سے امریکہ کی مذمت کرنے والوں کے لیے بھی امریکہ ایک آئیڈیل ملک رہا ہے، دنیا بھر سے لوگ وہاں جانا، اس امید میں وہاں بس جانا پسند کرتے رہے ہیں کہ امریکہ میں مذہب کو سیاست سے الگ رکھا جاتا ہے، مذہب کے نام پر امتیاز نہیں برتا جاتا، ہر آدمی کو اس کی صلاحیت اور لگن کی مناسبت سے ترقی کرنے کا موقع ملتا ہے، سیاست میں کسی کے قسمت آزمانے پر یہ بات کوئی گمبھیر ایشو نہیں بنتی کہ وہ آیا کہاں سے ہے، دیکھا یہ جاتا ہے کہ وہ امریکہ کے لیے کتنا کارآمد ہے۔ اسی لیے حالات، بڑھتی عمر یا کسی اور وجہ سے صدارتی انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا تو بائیڈن نے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کے لیے کملا ہیرس کا نام پیش کیا۔ کملا کے امیدوار بننے کی تائید بل کلنٹن کی بیگم ہلیری کلنٹن نے کی۔ فی الوقت کملا ہیرس ہی امریکہ کی نائب صدر ہیں اور اگر وہ صدر بن جاتی ہیں تو یہ کوئی حیرت کی بات نہ ہوگی، البتہ کیپٹل ہل کے واقعہ کے مدنظر ٹرمپ کا مذہبی کارڈ اگر امریکہ کے اس صدارتی انتخاب میں نہیں چل پاتا ہے اور کملا ہیرس جیت جاتی ہیں تو واقعی یہ بڑی بات ہوگی اور اگر وہ ہار جاتی ہیں تو پھر یہ سمجھنا مشکل نہیں رہ جائے گا کہ وقت نے امریکہ کو بدل دیا ہے۔ یہ صورت حال ان لوگوں کے لیے ہی تشویشناک نہیں ہوگی جو عالمی ایشوز کے نمٹارے کے لیے امریکہ سے توقعات وابستہ کیے رہتے ہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی تشویشناک ہوگی جو داخلی ماحول کے لحاظ سے امریکہ کو ایک آئیڈیل ملک مانتے ہیں۔ یہ بات طے سی ہے کہ امریکہ بدلے گا تو اس کا اثر پوری دنیا پر نظر آئے گا اور بدقسمتی سے سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان امریکہ کو بدلنے کا ہی اشارہ ہے۔
ٹرمپ کے بیان کی مذمت ہو رہی ہے مگر مذمت کر دینے سے بیان کی سنگینی ختم نہیں ہوجائے گی۔ ایک مذموم بیان کی اہمیت برقرار رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ان لوگوں کے پاس ہے جو امریکہ کے رائے دہندگان ہیں۔ یہ انہیں سمجھنا ہوگا کہ نیا امریکہ بنانا بہتر ہے، اس کی نئی شبیہ بنانا بہتر ہے یا اس کی وہی امیج برقرار رکھنا چاہیے جو اب تک رہی ہے۔ انہیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ کیوں کہا، ’عیسائیو! باہر نکلو اور صرف اس بار ووٹ کر دو۔ پھر آپ کو ووٹ ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ چار سال میں سب صحیح کر دیا جائے گا۔ میرے پیارے عیسائیو، آپ کو پھر ووٹ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ میں آپ سے پیار کرتا ہوں۔‘ تو کیا عیسائیوں سے ٹرمپ کا ’پیار‘امریکہ میں کوئی ایسا نظام بنانا چاہتا ہے کہ کسی کو ووٹ ڈالنے کی ضرورت ہی نہ رہ جائے؟ کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ ٹرمپ چین یا شمالی کوریا سے متاثر ہیں یا ان ملکوں کا نظام انہیں اچھا لگتا ہے جہاں کہنے کے لیے تو جمہوری نظام ہے مگر چلتی عوام کی نہیں، لیڈر کی ہے۔ ’نیویارک ٹائمز‘کے حوالے سے آنے والی رپورٹ کے مطابق، اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ خود کو ’امریکہ کا ڈکٹیٹر‘ بنانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کے بیان پر وکیل، مصنف اور ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر ایڈم شِف کا کہنا ہے کہ ’یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کے اس الیکشن میں جمہوریت داؤ پر لگی ہوئی ہے، اگر ہم اسے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں آمریت کے خلاف ووٹ دینا ہوگا۔ اگر ٹرمپ منتخب ہوئے تو ملک کا انتخابی عمل ہی ختم کر دیں گے۔ ان کا یہ بیان ملک کے عوام کے لیے خوفناک ہے۔‘تشویش کا اظہار اس لیے بھی کیا جا رہا ہے کہ گزشتہ برس 7 دسمبر کوڈونالڈ ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ ’اگر وہ دوبارہ صدر بنے تو ایک دن کے لیے آمر بن جائیں گے۔‘اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس کے باوجود امریکی ٹرمپ کو اپنا صدر منتخب کرتے ہیں؟
[email protected]
ٹرمپ کا تشویشناک بیان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS