محمد عباس دھالیوال
اگر حال ہی میں الاسکا کے اینکر یج شہر میں امریکی صدر ڈو نا لڈٹرمپ اور روسی صدر ولا د یمیر پوتن کی ملاقات کی بات کی جائے، تو دنیا بھر کے ممالک کی نظریں اس ملاقات پر جمی ہوئی تھیں۔ دراصل، روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری یا بگاڑ کا اثردنیا کے دوسرے ممالک پر بھی براہ راست یا بالواسطہ طورپردیکھنے کو ملتا ہے۔یہاں تک کہ اگر ہم اپنے بھارت کی بات کریں تو یہ بھی ان تعلقات کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
جہاں دنیااس سربراہی ملاقات کی تفصیلات جا ننے کو بے تاب تھی، وہیں فاکس نیوز نے الاسکا ملا قا ت پراپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ روسی صدر نے ’’داخلی فائدے‘‘کے باوجود امریکی صدر کو مکمل طور پر پیچھے دھکیل دیا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن جمعہ کو الاسکا میں ملے تاکہ روس-یوکرین تنازعے کے ممکنہ حل پر بات چیت کی جا سکے۔ اگرچہ اس ملاقات کے نتائج کو شروع میں خفیہ رکھا گیا، لیکن اچانک ختم ہوئی اس میٹنگ نے دنیا کو بہت ہی کم دستیاب معلومات پر قناعت کرنے پر مجبور کر دیا۔
جس بات نے خاص طورپرعالمی برادری کو نارا ض کیا، وہ یہ تھی کہ دونوں رہنماں نے ملاقات کے بعد کسی بھی سوال کا جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔
تین گھنٹے تک چلی اس طویل ملاقات سے کم از کم ایک بات تو یقینی ہوگئی اور وہ یہ کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ نتیجتاً، وہ جنگ بندی بھی کہیں نظر نہیں آئی جسے ٹرمپ طویل عرصے سے متنازعہ ممالک کے درمیان ’’امن قائم کرنے والے‘‘کے طور پر حاصل کرنا چاہتے تھے ۔
جبکہ ادھربی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، الاسکا کے اینکریج میں ڈونالڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پوتن کے درمیان آمنے سامنے ملاقات تقریبا تین گھنٹے تک جاری رہی، مگر نہ تو جنگ بندی پر کوئی اتفاق رائے ہوا اور نہ ہی کوئی ٹھوس معاہدہ سامنے آیا۔ ٹرمپ نے کہاکہ کوئی معاہدہ تب تک نہیں ہوتا جب تک حقیقت میں معاہدہ نہ ہو جائے۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ہم ابھی وہاں تک نہیں پہنچے۔
پوتن نے بھی تنازع ختم کرنے کی بات کی، مگر ’’بنیا دی اسباب‘‘کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور آئندہ ملاقا ت کیلئے ’’اگلی بارما سکو میں‘‘کا اشارہ دیا۔ا یک مشتر کہ بیان جا ر ی کیا گیا، مگر دونوں رہنماؤ ں نے صحافیوں کے کسی بھی سوا ل کا جواب نہیں دیا۔
بند کمرے میں با ت چیت کا ابتدائی منصو بہ تو یہ تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پوتن تنہا ملاقات کریں گے، لیکن آخری وقت میں تبدیلی ہوئی اور یہ گفتگو ’’تھری آن تھری‘‘فارمیٹ میں ہوئی یعنی دونوں صدور کے ساتھ ان کے دو دو اہم مشیر بھی موجود تھے۔ امریکہ کی جانب سے وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف شریک تھے، جبکہ روس کی جا نب سے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور خارجہ پالیسی مشیر یوری اوشاکوف بھی موجود تھے۔
یہاں بتانابھی ضروری ہے کہ اس گفتگو میں یو کر ین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی یا یوکرین کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا، حالانکہ بات چیت کا مرکزی موضوع یوکر ین کی جنگ ہی تھی۔ زیلنسکی نے ملا قات سے پہلے کہا تھا کہ روس کی جا نب سے جنگ ختم کرنے کا’’کوئی اشارہ‘‘ نہیں ہے۔
تین گھنٹے سے زائد جاری اس ملاقات کے بعد ولادیمیر پوتن نے کہا کہ روس یوکرین میں جاری تنا زع کو ختم کرنے میں ’’ایمانداری سے دلچسپی‘‘رکھتا ہے۔ انہوں نے جنگ کو ایک ’’سانحہ‘‘قرار دیا، مگر زور دے کر کہا کہ کسی پائیدار معاہدے کے لیے پہلے اس تنازع کے ’’بنیادی اسباب‘‘کو ختم کرنا ضروری ہے۔ پوتن نے مغربی ممالک اوریوکرین کو تنبیہ دی کہ امن عمل میں کسی بھی قسم کی ’’رکاؤٹ‘‘یا ’’ نقصا ن‘‘نہ پہنچایا جائے۔اپنی گفتگو میں انہوں نے اس ملاقات کو تنازع کے حل کی سمت ایک ’’ابتدائی نقطہ‘‘ قرا ر دیا۔پوتن نے ٹرمپ سے اپنے تعلق کو’’تجارتی ‘‘قرار دیا اور ٹرمپ کے اس دعوے سے اتفاق کیا کہ اگر وہ 2020کے انتخابات کے بعد بھی عہدے پر ہوتے تو یہ جنگ شروع نہ ہوتی۔انہوں نے کہاکہ ’’ڈونالڈٹرمپ واضح طور پر اپنے ملک کی خوشحالی کی فکر کر تے ہیں،مگروہ سمجھتے ہیںکہ روس کے بھی اپنے مفا د ا ت ہیں۔
ڈونالڈٹرمپ نے دعوی کیا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان’’کئی معاملات پر اتفاق رائے ہوا ہے‘‘ مگر کچھ مسائل ابھی باقی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’کوئی معا ہد ہ تب تک نہیں ہوتا،جب تک حقیقت میں معا ہد ہ نہ ہوجا ئے ۔ ان کے مطابق بات چیت میں ’’پیش رفت‘‘ہوئی ہے،مگرفی الحال معاہدہ نہیں ہوسکا۔ انہوں نے کہاکہ ’’ہم ابھی وہاں تک نہیں پہنچے۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اب وہ ناٹواتحادیوں، یورو پی رہنماؤں اور براہ راست یوکرینی صدر زیلنسکی سے بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاہدے پر حتمی فیصلہ ’’آخرکار انہی پر منحصر ہے۔’’ٹرمپ نے مشترکہ بیان کو پوتن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ختم کیا اورانہیں ولادیمیرکہہ کر مخاطب کیا ۔انہوں نے کہاکہ ’’ہم آپ سے بہت جلد دوبا رہ بات کر یں گے اور شاید آپ سے بہت جلد دوبارہ ملاقات کریں گے۔’’اس پر پوتن نے انگریزی میں جواب دیا، Next time in Moscow (اگلی بار ماسکو میں)۔
اس کے بعد دونوں رہنما اسٹیج پرہاتھ ملا کر، صحافیوں کے لگاتار پوچھے گئے سوالات کو نظر انداز کرتے ہوئے اسٹیج سے نیچے اتر گئے۔ کسی فریق نے میڈیا کے سوالات کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی آئندہ میٹنگ کے بارے میں کوئی حتمی معلومات فراہم کیں۔
روسی پریس کانفرنس میں سوالات نہ لینے پر، روسی خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق، روسی صدر کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ تفصیلی تبصرے کی وجہ سے سوالات نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پریس کانفرنس آخرکار صرف بیانات تک ہی محدود کیوں رہی، تو انہوں نے جواب دیا،’’تفصیلی بیانات دیے گئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ بات چیت واقعی بہت اچھی رہی اور دونوں رہنماؤں نے یہی کہا۔ ایسی بات چیت سے مل کر امن کا راستہ تلاش کرنے کی سمت ٹھوس قدم اٹھائے جا سکتے ہیں۔‘‘
بی بی سی کے شمالی امریکہ نمائندے اینتھنی زرچر کا تجزیہ:
بی بی سی نمائندے اینتھنی زرچر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ بیان’’کوئی معاہدہ تب تک نہیں ہوتا،جب تک حقیقت میں معاہدہ نہ ہو جائے،’’دراصل بے نتیجہ بات چیت کو گھما پھرا کر قبول کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اینکریج میں سربراہی ملاقات کے بعداپنے ابتدائی بیان میں یہ بات کہی۔کئی گھنٹے کی بات چیت کے بعد بالآخر نہ تو جنگ بندی ہوئی اور نہ ہی کوئی ٹھوس نتیجہ نکلا۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہوںنے اور ولا د یمیرپوتن نے ’’کچھ بڑی پیش رفت‘‘کی ہے، مگر اس با رے میں بہت کم معلومات دیں، جس سے باقی دنیا کیلئے یہ سب اندازوں کا موضوع بن گیا۔ ٹرمپ نے بعدمیں کہاکہ ’’ہم ابھی وہاں تک نہیں پہنچے۔ وہ بغیر کسی سوال کا جواب دیے کمرے سے باہر نکل گئے، حا لانکہ وہاں سیکڑوں صحافی موجود تھے۔ طویل سفر طے کر کے اس ملاقات تک پہنچنے والے ٹرمپ کے پاس آخر کا ر بتانے کیلئے صرف مبہم بیانات ہی تھے۔اگر چہ، امریکہ کے یوروپی اتحادی اور یوکرینی حکام اس بات پر خوش ہو سکتے ہیں کہ ٹرمپ نے کوئی یکطرفہ رعایت یا ایسا معاہدہ نہیں کیاجو آئندہ بات چیت کو کمزورکر د ے ۔ خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ ملاقات طویل اور اہم تھی، مگر اس سے کوئی بڑا یا حتمی معاہدہ نہیں نکلا۔ فی الحال اسے صرف گفتگو کی شروعات کے طور پر دیکھا و سمجھا جا رہا ہے۔