محمدعباس دھالیوال
امریکی ویزا ایک غیر امیگرنٹ ورک ویزا ہے جو کہ امریکہ کی کمپنیاں غیر ملکی ماہرین کو خصوصی پیشہ ورانہ شعبوں میں عارضی طور پر ملازمت پر رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ویزا کی اہم خصوصیا ت کو دیکھیں تو اس کامقصدغیر ملکی ماہرین کو امریکہ لا کر مخصوص شعبوں میں ملازمت دینا ہوتا ہے، یعنی کہ خصوصی پیشے وہ پیشے جن میں نظریاتی اور عملی مہارت درکار ہوتی ہے ،(جیسے کہ آئی ٹی، انجینئرنگ، مالیات، صحت، آرکیٹیکچر وغیرہ)کم از کم قابلیت عام طور پر متعلقہ شعبے میں بیچلر ڈگری یا اس کے مساوی تعلیم لازمی ہوتی ہے۔ مدت ابتدائی طور پر 3 سال، جو زیادہ سے زیادہ 6 سال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔آجر کے ذریعہ اسپانسرڈ یعنی امریکی کمپنی کو ویزا کی درخواست اپنے ملازم کی طرف سے دینی ہوتی ہے ۔ویزا کوٹہ: ہر سال 85,000 ویزے جاری کیے جاتے ہیں (65,000 عام زمرے کے لیے اور 20,000 امریکی ماسٹر ڈگری ہولڈرز کے لیے)لاٹری نظام زیادہ درخواستوں کی وجہ سے انتخاب قرعہ اندازی (لاٹری) کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔دوسرا مقصد (Dual Intent)اس طرح کے ویزا ہولڈرز گرین کارڈ (مستقل رہائش) کے لیے بھی درخواست دے سکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخراس ویزے کو کون کون استعمال کرتا ہے؟گوگل، مائیکروسافٹ، ایمازون، فیس بک، IBM جیسی بڑی اورہائی ٹیک کمپنیاںوغیرہ۔ اس کے علاوہ صحت کے ادارے، جیسے ڈاکٹرز، ریسرچرز اور تھراپسٹ مالیاتی اور کنسلٹنگ کمپنیاںوغیرہ ،اگر اس ویزا کی اہمیت کو دیکھا جائے توامریکی کمپنیاں دنیا بھر سے ہنر مند افراد کی کمی پوری کرتی ہیں۔ بھارت، چین جیسے ممالک کے پیشہ ور افراد کے لیے یہ امریکہ میں مستقل رہائش کی راہ ہموار کرتا ہے۔یہ امریکی معیشت اور ٹیکنالوجی سیکٹر کا ایک اہم ستون ہے۔امریکی ایچ ۔1بی ویزا ایک غیر امیگرنٹ ورک ویزا ہے، جو امریکہ کی کمپنیاں غیر ملکی ماہرین کو خصوصی پیشہ ورانہ شعبوں میں عارضی طور پر ملازمت پر رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہیں ،لیکن اب امریکی صدر ٹرمپ اس ویزا کو بھی سرکاری آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بنانے جا رہے ہیں،یعنی امریکہ اب ایچ ۔1بی ویزا کے لیے 1 ملین ڈالر (تقریباً 88لاکھ روپے) سالانہ درخواست فیس وصول کرے گا۔صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہفتہ کے روزوپائٹ ہاؤس میں اس حکم نامے پر دستخط کیے۔نئی فیس 21 ستمبر سے نافذ العمل ہوگی۔اس سے پہلے، ایک ایچ ۔1بی ویزا کی اوسط قیمت تقریباً 5 لاکھ روپے تھی۔ یہ ویزا تین سال کے لیے مؤثر ہوتا تھا اور مزید تین سال کے لیے اس کی تجدید کی جا سکتی تھی۔ اب امریکہ میں ایک ایچ ۔1بی ویزا کی لاگت چھ سال میں 5.28 کروڑ روپے ہو جائے گی، جس سے یہ لاگت 50 گنا سے زیادہ بڑھ جائے گی۔بھارت نے بھی اس امریکی فیصلے پر ردعمل دیا ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک پریس ریلیز جاری کر کے کہا کہ اس اقدام کے انسانی بنیادوں پر اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ بہت سے خاندان متاثر ہوں گے۔حکومت کو امید ہے کہ امریکی حکام ان مسائل کا حل تلاش کریں گے۔ایچ ۔1بی تبدیلیوں کے علاوہ ٹرمپ نے تین نئی اقسام کے ویزا کارڈ بھی متعارف کروائے ہیں:ان میں ’ٹرمپ گولڈ کارڈ‘، ’ٹرمپ پلیٹینم کارڈ‘اور ’کارپوریٹ گولڈ کارڈ‘ شامل ہیں۔ ٹرمپ گولڈ کارڈ (جس کی قیمت 88 کروڑ روپے ہے) افراد کو امریکہ میں غیر معینہ مدت کے لیے رہائش فراہم کرے گا۔ایچ ۔1بی ویزا میں تبدیلیاں بھارتیوں کو کس طرح متاثر کریں گی؟ایچ ۔1بی ویزا کے قوانین میں تبدیلیاں 200,000 سے زیادہ بھارتیوں کو متاثر کریں گی۔2023 میں 191,000 بھارتیوں کے پاس ایچ ۔1بی ویزا تھا۔ یہ تعداد 2024 میں بڑھ کر 207,000 ہو گئی۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایچ ۔1بی ویزا سے متعلق جو نیا اعلان کیاہے ،اس کے بعد سے ہی اس کی تفصیلات کو لے کر الجھن کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ بھارت کی وزارت خارجہ بھی اس معاملے میں متحرک ہوئی اور کہا کہ وایچ ۔1بی ویزا پروگرام پر مجوزہ پابندیوں سے متعلق خبروں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہفتے کی رات دیر گئے یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز (USCIS) کی جانب سے جاری بیان میں واضح کیا گیاکہ صدر ٹرمپ کی نئیایچ ۔1بی ویزا فیس کی شرط صرف ان نئے ممکنہ درخواستوں پر لاگو ہوگی جو ابھی تک جمع نہیں کروائی گئی ہیں۔21 ستمبر 2025 سے پہلے جمع کرائی گئی درخواستیں اس سے متاثر نہیں ہوں گی۔مجموعی طور پر اس فیصلے نے ٹیرف نرخوں میں اضافے کے فیصلے کی طرح دنیا بھر میں ایک نئی بحث کو چھیڑ دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ امریکہ کے اہم میڈیا اداروں نے اس پر کیا تبصرہ کیا ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کی ویب سائٹ پر شائع رپورٹ میں کہا گیاکہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اعلان کے مطابق نئے ایچ ۔1بی ویزا درخواست دہندگان پر ایک لاکھ ڈالر کی فیس لگانے سے کمپنیوں میں الجھن بڑھ گئی ہے اور عارضی کارکنوں میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق کئی امیگریشن ماہرین اور کارپوریٹ حکام نے حکم کی ’مبہم زبان‘ پر تشویش کا اظہار کیا، جس کے بعد کمپنیوں نے ایچ ۔1بی ویزا رکھنے والوں کو اپنی سفری منصوبہ بندی فوراً محدود کرنے کی وارننگ جاری کی۔واشنگٹن پوسٹ نے لکھاکہ کئی کمپنیاں خوفزدہ تھیں کہ اگر موجودہ ویزا رکھنے والے ایک لاکھ ڈالر فیس ادا نہ کریں تو انہیں ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اگر یہ اصول برقرار رہا تو قانونی امیگریشن کا ایک اہم راستہ بند ہو جائے گا۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق وہائٹ ہاؤس حکام کا کہنا ہے کہ اس پالیسی میں تبدیلی کے باعث کمپنیاں مقامی ملازمین کو ترجیح دینے پر مجبور ہوں گی،لیکن رپورٹ میں کہا گیا کہ کئی کارپوریٹ گروپس اور صنعت سے جڑے ادارے اس تبدیلی کو لے کر فکرمند ہیں۔چیمبر آف کامرس کے ترجمان میٹ لیٹورنو کے حوالے سے لکھا گیاہے کہ ہم ملازمین، ان کے خاندانوں، اور امریکی آجرین پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں فکر مند ہیں۔چیمبر آف پروگریس کے بانی ایڈم کوواچی وِک نے کہاکہ میرے خیال میں اس کا مطلب ہوگا کہ ہم چین کے خلاف AI کی جنگ ایک ہاتھ پیچھے باندھ کر لڑ رہے ہوں گے۔ AI میں اعلیٰ درجے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کی تعداد محدود ہے اور ان میں سے کئی غیر ملکی نڑاد ہیں۔امریکن امیگریشن لائرز ایسوسی ایشن کے صدر جیف جوزف نے کہاکہ ہم دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر اس ہفتے کے اختتام تک اس قانون پر عارضی روک لگوانے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔اسی تنظیم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بینجمن جانسن نے کہاکہ ہمارے ارکان افراتفری کا سامنا کر رہے ہیں۔مجھے ہر طرف صرف الجھن اور گھبراہٹ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ادھر امریکی جرنل وال سٹریٹ کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن نظام میں تبدیلی کی کوششوں سے اس ہفتے تشویش اور الجھن کی لہر دوڑ گئی، کیونکہ ملازمین اور آجرین اتوار کی طے شدہ ڈیڈ لائن سے پہلے ردعمل دینے کی دوڑ میں لگ گئے۔رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایمیزون، گوگل، مائیکروسافٹ اور دیگر کمپنیوں نے ایچ ۔1بی ویزا رکھنے والے ملازمین کو ملک چھوڑنے سے بچنے کی وارننگ دی، اور بیرون ملک کام کر رہے ملازمین کو کہا گیا کہ وہ ہفتے تک امریکہ واپس آ جائیں، کیونکہ بعد میں دوبارہ داخلہ مشکل ہو سکتا ہے۔وال اسٹریٹ جرنل نے مزید لکھاکہ ہیومن ریسورس ملازمین فہرستیں بنا کر ملازمین کی موجودگی کے مقامات کا پتا لگا رہے تھے تاکہ ضرورت پڑنے پر ان کی فلائٹس بک کروائی جا سکیں۔ امیگریشن وکلا کمپنیوں اور ویزا رکھنے والوں کو بلیٹن بھیج رہے تھے، لیکن اکثر ان کے پاس بھی واضح جوابات نہیں تھے۔رپورٹ کے مطابق، وائٹ ہاؤس نے وضاحت دی کہ یہ تبدیلی موجودہ ویزا ہولڈرز پر لاگو نہیں ہوتی اور نئی پالیسی ان کے امریکہ آنے اور جانے کی صلاحیت کو متاثر نہیں کرے گی۔ ایک لاکھ ڈالر فیس ایک بار کی ادائیگی ہے، سالانہ فیس نہیں۔” قانونی فرم فشر فلپس کی امیگریشن پریکٹس گروپ کی شریک چیئر شینن آر. اسٹیونسن نے اس فیصلے پر کہاکہ یہ فیصلہ اچانک، بغیر کسی پیشگی اشارے کے آیا، اور خوفناک تھا۔”وال اسٹریٹ جرنل نے مزید آگے لکھا ہے کہ کئی آجر ابھی تک اس اعلان کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن تب تک وائٹ ہاؤس وضاحت دے چکا تھا۔ اس وقت تک کمپنیاں نئی منصوبہ بندی کر چکی تھیں اور کئی ملازمین کی سفری منصوبہ بندی بھی بدل چکی تھی۔جبکہ ادھر فاکس بزنس کی رپورٹ کے مطابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعہ کے روز ایک حکم پر دستخط کیے، جس کے تحت ایچ ۔1بی ویزا پر ایک لاکھ ڈالر کی یکمشت فیس لگائی جائے گی۔ اس سے یہ بدل جائے گا کہ امریکہ میں غیر ملکی ملازمین کو کس طرح نوکریاں ملتی ہیں۔تجارت کے وزیر ہووَرڈ لٹ نِک نے کہاکہ پوری سوچ یہی ہے کہ اب بڑی اورہائی ٹیک کمپنیاں یا دیگر بڑی کمپنیاں غیر ملکی ملازمین کو تربیت نہیں دیں گی۔ انہیں حکومت کو 100,000 ڈالر دینا ہوگا، پھر ملازم کو تنخواہ دینی ہوگی، تو یہ مالی لحاظ سے ممکن ہی نہیںہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ تمام بڑی کمپنیاں اس پر متفق ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ ایک لاکھ ڈالر کی فیس صرف نئے ایچ ۔1بی ویزا درخواستوں پر لاگو ہوگی اور یہ اگلے لاٹری سائیکل سے مؤثر ہوگی۔ یہ فیس ویزا کی تجدید یا موجودہ ویزا رکھنے والوں پر لاگو نہیں ہوگی۔ادھر مذکورہ فیصلہ کی وضاحت کرتے ہوئے وہائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے کہاکہ یہ کوئی سالانہ فیس نہیں ہے۔ یہ صرف ایک بار کی فیس ہے، جو درخواست پر لاگو ہوگی۔ جن کے پاس پہلے سے ایچ ۔1بی ویزا ہے اور جو اس وقت امریکہ سے باہر ہیں، ان سے ملک میں دوبارہ داخل ہونے پر ایک لاکھ ڈالر نہیں لیا جائے گا۔ایچ ۔1بی ویزا ہولڈرز پہلے کی طرح ملک سے باہر جا کر واپس آ سکتے ہیں۔ اس پر صدر کے حکم کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ اصول صرف نئے ویزا پر لاگو ہوگا، تجدید یا موجودہ ویزا رکھنے والوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہ پہلی بار اگلے ایچ ۔1بی ویزا لاٹری سائیکل میں لاگو ہوگا۔
abbasdhaliwal72@gmail.com