ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز بالکل صبح سویرے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعہ دنیا کو یہ بتایا کہ ’ہم نے ایران کے فردو، نتانز اور اصفہان سمیت تینوں جوہری ٹھکانوں پر کامیابی کے ساتھ حملوں کو مکمل کرلیا ہے۔ سارے جنگی جہاز اب ایران کی فضا سے باہر آچکے ہیں۔ بموں سے بھرا ہوا پے لوڈ فردو کے بنیادی ٹھکانہ پر گرایا گیا تھا۔ سارے جہاز صحیح سلامت گھر لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے عظیم امریکی جنگجوؤں کو مبارکباد۔‘ اس کے بعد ٹرمپ نے اپنی فوجی قوت پر فخر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’دنیا میں کوئی ایسی عسکری قوت نہیں ہے جو یہ کام کر سکتی ہو۔ اب امن کا وقت ہے۔‘
یہ دنیا کے لئے امریکہ کے ایسے صدر کا پیغام ہے جس کے دل و دماغ پر عظمت کے حصول کا جنون اس درجہ چھا گیا ہے کہ اس کو اب صحیح و غلط، حق و باطل اور ظلم و انصاف کے درمیان کا فرق بھی نظر نہیں آتا ہے۔ ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ پاکستانی چیف مارشل عاصم منیر سے ملاقات کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے نوبل انعام برائے امن کی تمنا ظاہر کی تھی۔ ٹرمپ کی یہ تمنا ان کے اندرون کو بے چین رکھے ہوئے ہے اور اسی لئے وقتاً فوقتاً وہ اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ جنگ و جدال کے ذریعہ دنیا میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا اور اسی لئے ان کو نوبل انعام برائے امن بھی نہیں مل سکتا۔ غالباً نوبل کمیٹی کو بھی ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس کا احساس شدت سے ہوگیا ہوگا کہ اگر امریکی صدور کو نوبل انعام دیا جاتا رہا تو وہ دن دور نہیں کہ اس کی وقعت اس درجہ گھٹ جائے گی کہ کوئی اس انعام کے حاصل کرنے کی آرزو بھی نہیں رکھے گا۔ اس سے قبل امریکہ کے سابق صدر باراک اوبامہ کو نوبل انعام برائے امن دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنی صدارت کے بالکل آغاز میں بڑے شد و مد کے ساتھ مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا کے ساتھ امریکی تعلقات کی استواری پر زور دیا تھا۔ قاہرہ میں دل پذیر تقریر کی تھی اور ایران کے ساتھ 2015 میں جوہری معاہدہ بھی کیا تھا جس کو ٹرمپ نے 2018 میں ختم کر دیا۔ باراک اوبامہ کو امن کا پیامبر مانا جانے لگا تھا اور جھٹ پٹ ان کو 2009 می نوبل انعام برائے امن سے نواز دیا گیا۔انہیں جو انعام نوبل کمیٹی کی طرف سے دیا گیا تھا اس میں یہ لکھا تھا کہ انہوں نے بین الاقوامی سفارتکاری کو مضبوط کرنے اور اقوام عالم کے درمیان تعاون کی روح کو بڑھانے کے لئے غیر معمولی کوششیں کی ہیں اس لئے انہیں اس انعام کا حق دار قرار دیا جا رہا ہے،لیکن اس کا نتیجہ صفر کے سوا کیا نکلا؟
جس امن کی بحالی کی کوششوں کے اعتراف میں باراک اوبامہ کو یہ انعام دیا گیا تھا اس کی لاج خود اوبامہ نے نہیں رکھی۔ باوجود اینکہ 2008 میں جب اوبامہ نے اپنا عہدہ سنبھالا تھا تو قسم کھائی تھی کہ وہ عراق اور افغانستان میں جاری امریکہ کی جانکاہ تنازعات کو ختم کریں گے اور اپنے دوسرے عہد صدارت میں مکمل طور پر جنگ سے اپنے ملک کو دور رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ لہٰذا مئی 2013 میں اوبامہ نے کہا تھا کہ دہشت گرد تنظیموں کو تباہ کرنے کی ہماری منظم کوششیں جاری رہیں گی لیکن تمام جنگوں کی طرح اس جنگ کو بھی ختم ہونا چاہئے کیونکہ تاریخ سے یہی اشارہ ملتا ہے اور ہماری جمہوریت بھی ہم سے اسی کا مطالبہ کرتی ہے۔ البتہ تاریخ نے اوبامہ کے ان الفاظ کے لئے نہیں بلکہ ان کے عمل کے لئے ان کو یاد رکھا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ ایسے امریکی صدر ثابت ہوئے جنہوں نے اپنی 8 سالہ مدتِ صدارت میں ایک دن کے لئے بھی جنگ کو نہیں روکا۔ انہوں نے اپنے دورِ صدارت میں کم از کم سات ملکوں پر حملے کئے جن میں افغانستان، عراق، شام، لیبیا، یمن، صومالیہ اور پاکستان شامل تھے۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ اسی پاکستان کے چیف مارشل نے جس کا ملک امریکہ کے نشانہ پر ہمیشہ رہا ہے آج ٹرمپ کے لئے نوبل انعام کی وکالت کرتا نظر آ رہا ہے۔ ٹرمپ پر شاید باراک اوبامہ کے ساتھ مقابلہ آرائی کا جنون سوار ہوگیا ہو اور اسی لئے وہ اپنے لئے بھی نوبل انعام کی تمنا رکھنے لگے ہیں، لیکن اس تمنا کے لئے کوئی عملی اقدام کرنے کے بجائے وہ جنگ کی آگ کو بھڑکانے میں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ٹرمپ اصلاً ایک تاجر ہیں۔ تجارت و معیشت سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں میں عام رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ وہ امن و سلامتی کے حق میں زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ تجارت کی کامیابی کے لئے ماحول و معاشرہ کا پرامن رہنا از حد ضروری ہوتا ہے۔ اسی لئے جب ٹرمپ نے صدارتی انتخابات کے لئے جاری اعلانات اور اپنی تقریروں میں اس بات کا وعدہ کیا کہ وہ امریکہ کو جنگ میں داخل نہیں کریں گے بلکہ جہاں کہیں جنگ ہو رہی ہے اس کو بند کرنے میں اپنا کردار نبھائیں گے تو امریکی عوام کی اکثریت نے ٹرمپ کے اس وعدہ پر بھروسہ کر لیا۔ غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت اور عام فلسطینیوں پر مسلط مجرمانہ جنگ کی تصویریں دنیا کی آنکھوں کے سامنے تھی اور اس کی ہولناکی نے ہر انصاف پسند دل و دماغ کو پریشان کر رکھا تھا اس لئے امن پسند امریکیوں نے ٹرمپ کو اپنا صدر منتخب کرلینے کا فیصلہ کرلیا۔ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی اسرائیل کے تئیں بنائی جانے والی پالیسیوں سے امریکہ کے عوام پریشان تھے۔ عرب نژاد اور مسلم امریکیوں نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ جنگ بندی کی بات کرنے والا امیدوار ٹرمپ ہی ان کا صحیح انتخاب ہونا چاہئے تاکہ غزہ کے عوام کو کچھ راحت پہنچے اور صہیونی جارحیت سے ان کو آرام ملے۔
یہ امیدیں اس وقت زیادہ مضبوط ہوگئیں جب حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہوئی اور اس کے نتیجہ میں قیدیوں کا تبادلہ اور فلسطینیوں تک امداد کی رسائی کا راستہ ہموار ہوا۔ لیکن جب اس معاہدہ کو اسرائیل نے یکطرفہ طور پر ختم کرتے ہوئے دوبارہ قتل و خون کا بازار گرم کر دیا اور امداد کے سامانوں کی رسائی کے لئے سارے راستے بند کر دیئے گئے جس کی پاداش میں بھوک مری کی نوبت آگئی اور اس کے باوجود ٹرمپ نے اسرائیل کو معاہدہ کی پابندی کے لئے مجبور نہیں کیا تب پوری دنیا کو یہ احساس ہوا کہ ٹرمپ کے وعدے ناقابل اعتبار ہیں۔ اس کے بعد مانو ٹرمپ نے خود کو امن کے مسیحا کے طور پر پیش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اس کے برعکس یمن کے ان حوثیوں پر بمباری شروع کردی جو اہل غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے اسرائیل کو نشانہ بنا رہے تھے۔ انسانیت و اخلاق سے لے کر عالمی قوانین تک ہر شئی کا تقاضہ یہ تھا کہ حوثیوں پر بم برسانے کے بجائے اسرائیل کو مجبور کیا جاتا کہ وہ عام فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنانا بند کرے اور ان تک امداد کی رسائی کے لئے راستوں کو کھولے تاکہ گھٹن اور بھوک و پیاس میں تڑپتے لوگوں کو بچایا جا سکے۔ لیکن نوبل انعام برائے امن کے امیدوار ٹرمپ نے ایسا کرنا قطعاً ضروری نہیں سمجھا۔ اگر جنگ بندی کا ان کو خیال آیا بھی تو ہند وپاک کے درمیان پیدا ہورہی طویل جنگی صورتحال کو روکنے کا۔ حالانکہ اس معاملہ میں بھی ٹرمپ کا کردار مشکوک ہے کیونکہ ہندوستان کی حکومت نے ٹرمپ کے دعوی کو پورے طور پر مسترد کر دیا ہے۔
البتہ ٹرمپ کے پاس موقع تھا کہ وہ خود کو امن کے پیامبر کے طور پر ثابت کرے اور مشرق وسطیٰ کو امن کی طرف لے جائے۔ اس سلسلہ میں ایک کمزور سی امید اس وقت پیدا بھی ہوگئی تھی جب امریکہ نے عمان کی وساطت سے ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام کے معاملہ میں بات چیت کا آغاز کیا تھا۔ لیکن یہ بات چیت بھی صرف نظر کا دھوکا ثابت ہوئی۔ حالانکہ اگر اس مسئلہ کو سفارتی کوششوں سے حل کرنے میں ٹرمپ نے سنجیدگی اور ایمانداری کا مظاہرہ کیا ہوتا تو یقینا ان کا یہ عمل تاریخ کے صفحات میں نمایاں مقام حاصل کرتا، لیکن انہوں نے اسرائیلی لابی کے ساتھ مل کر امریکہ اور مشرقی وسطی دونوں کے مفادات کو قربان کر دیا اور ایران پر حملہ کے لئے اسرائیل کو ہری جھنڈی دے دی۔ اس حملہ کی وجہ سے پورا خطہ سخت تناؤ کا شکار ہوگیا ہے۔ سفارتکاری اور بات چیت کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوگئی ہیںکیونکہ امریکی صدر نے ایک طرف پوری دنیا کو قیاس آرائی میں پھنسائے رکھا اور دوسری طرف اسرائیل اور صہیونی لابیوں کے مسلسل دباؤ میں آکر امریکہ نے اس جنگ میں بالآخر شمولیت کرلی اور اسرائیل کے دفاع میں کود کر ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنا ڈالا۔ ایسا کرتے وقت کسی عالمی قانون کی پرواہ تک نہیں کی گئی۔ ٹرمپ نے دو ہفتے کے بعد اس سلسلہ میں فیصلہ لینے کی بات کہی تھی، لیکن دو دن کے اندر ہی ایران پر امریکہ حملہ کر بیٹھا اور اسرائیل کی ناسمجھی کا شریک بن گیا۔ اس حملہ کے بعد مشرق وسطیٰ کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ ہر طرف تشویش کی کیفیت پائی جارہی ہے۔ ایران کے پاس اب اس کا جواز پیدا ہوگیا ہے کہ وہ امریکہ و اسرائیل کو اپنا نشانہ بنائے۔
اگر ایران اپنے حق دفاع کا استعمال کرکے امریکی حلیفوں پر حملہ آور ہوتا ہے تو طویل مدت کے لئے صرف مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اس غیر ضروری جنگ کی تپش محسوس کرے گی۔ جہاں تک ایران کے جوہری ٹھکانوں پر امریکی حملے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تلوثات کا تعلق ہے تو اس خطرہ کے بارے میں اچھی خبر یہ ہے کہ اب تک یہ خطہ اس سے محفوظ مانا جارہا ہے کیونکہ ایران نے امریکی حملہ سے قبل ہی تخصیب شدہ یورانیم کو کسی محفوظ اور غیر معلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا۔ لیکن اب ایران نے اتنا سبق تو ضرور ہی سیکھ لیا ہوگا کہ جوہری بم نہ بنانے کی وجہ سے ہی اس کو یہ سزا ملی ہے۔ لہٰذا اس کا پورا امکان ہے کہ ایران اب این پی ٹی کے معاہدہ سے باہر آجائے گا اور جوہری ہتھیار کو حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ اسرائیل نے جس جوہری بھوت کا بہانہ بناکر ایران پر حملہ کیا ہے وہ بھوت اب اس کا پیچھا ہمیشہ کرے گا اور اسرائیل کو کبھی سکون میسر نہیں ہوگا۔ یہ مسئلہ اسرائیل نے اپنے لئے خود پیدا کیا ہے جس کی قیمت اس کو چکانی پڑے گی۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ دنیا کے باقی کمزور ممالک بھی ایران کے واقعہ سے سبق لیں گے اور جوہری ہتھیار بنانے کی دوڑ میں شامل ہوجائیں گے۔ کیونکہ اب انہیں یہ احساس ہوگیا ہے کہ قانون و اخلاق سے عاری نئے نظام عالم میں صرف طاقت کا مظاہرہ ہی بقا کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے لئے امریکہ و اسرائیل کے لئے علاوہ کسی اور کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے۔ ایران پر اس امریکی حملہ سے اس کی عالمی قیادت کی صلاحیت پر سخت ضرب پڑے گی اور ایسے ماحول میں ٹرمپ کے نوبل انعام کا خواب بھی بس ایک خواب ہی رہ جائے گا۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)