مراق مرزا
روس-یوکرین تنازع کی کہانی لگ بھگ 10 برس پرانی ہے۔ اس تنازع نے اچانک 24 فروری،2022 میں ایک خونیں جنگ کی شکل اختیار کرلی۔ روسی افواج نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ اس دوران مشرقی یوکرین کے سرکاری فوجیوں اور روسی حمایتی علیحدہ پسند لڑاکوں کے درمیان فوجی جدوجہد جاری رہی۔2022 میں شروع ہوئی جنگ گزشتہ تین برسوں سے جاری ہے اور اس تباہ کن جنگ میں سیکڑوںلوگ اپنی جانیں گنواچکے ہیں۔ تمام کوششوں کے باوجود اس جنگ پر روک نہیں لگ پا رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے چند یوم قبل امریکی ریاست الاسکا میں صدر پوتن سے ایک اہم ملاقات کی۔ اس ملاقات میں جنگ بندی پر بات چیت ہوئی۔ سیزفائر کے متبادل پر غورکیاگیا لیکن کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔ المیہ یہ ہے کہ ایک طرف اس خطے میں قیام امن کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری طرف دونوں ملک ایک دوسرے پرحملے بھی کر رہے ہیں۔ گزشتہ ساڑھے تین سال کی جنگ میں یوکرین نے بہت کچھ کھویا ہے۔ جانی ومالی نقصان کے علاوہ اس کے کئی شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے۔ معیشت بری طرح برباد ہوچکی ہے۔ حالات یہ ہیں کہ برطانیہ، امریکہ اور چند یوروپی ممالک کی امداد کے سہارے وہ بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ دوسری جانب نقصان روس کا بھی ہوا ہے۔ روس کے بھی بہت سے فوجی مارے گئے ہیں۔ معیشت بھی بڑی حد تک متاثرہوئی ہے مگر جنگی جنون دونوں ملکوں کو سمجھوتے کی میز پر آنے نہیں دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس جنگ کو پوتن نے محض 72 گھنٹوں میں ختم کرنے کا دعویٰ کیاتھا، وہ تین سال گزرنے کے بعد بھی کیوں جاری ہے؟ کیا پوتن نے زیلنسکی کو ہلکے میں لیا تھا؟ روس-یوکرین نقشے کے مطابق، گزشتہ تین سالوں کے دوران روس نے یوکرین کے کافی علاقوں کو اپنے فوجی حصار میں لے لیا ہے۔ ہرچند کہ جنگ کی ابتدا میں اسے زیادہ کامیابی نہیں مل رہی تھی، تاہم پچھلے کچھ مہینوں کے دوران اس نے اپنے مضبوط جنگی وسائل اور فوجی طاقت کے بل پر یوکرین کی 20 فیصد سے زیادہ زمین پر قبضہ جما لیا ہے۔ یوکرین کے شہر زاپزوژیا اور خیرسون کے قریب تین چوتھائی حصے پر روس کا تسلط ہے۔ اس کے علاوہ موسی، خارکیو، مائیکولائیو اور دنپروپتروسک جیسے شہروں میں لگ بھگ 400 مربع کلومیٹر یعنی 154مربع میل زمینوں پرروسی افواج قابض ہیں۔ 2014 میں روسی فوج نے کریمیا پرحملہ کرکے جیت حاصل کی تھی اور اس جیت کے ایک سال بعد ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ کریمیا روس کا حصہ ہے۔ یہ صدیوں پرانا Might is rightکا کھیل ہے۔ طاقتور ہمیشہ حق پر ہوتا ہے اور کمزور حق پرہوتے ہوئے بھی اپنے حق کے لیے نہ لڑسکتا ہے اورنہ جیت سکتا ہے۔
گزشتہ دنوں پوری دنیا کی نظر الاسکا پر تھی جو کہ واشنگٹن ڈی سی اور نیویارک کثیرآبادی والے علاقوں سے کافی دور شفاف سمندری ساحل پر واقع ایک خوبصورت امریکی ریاست ہے۔ یہاں دوبڑی طاقتوں کے سربراہان کی میٹنگ طے تھی۔ یہ میٹنگ بڑی اہم تھی۔ اس میں کچھ اہم فیصلے ہونے تھے۔ یہ ملاقات امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے بیچ ہونی تھی۔ الاسکا 1867 سے قبل روس کا ہی حصہ ہواکرتاتھا۔ اس دور کے سیاسی وسماجی حالات کی کچھ ایسی مجبوریاں تھیں جن کے باعث روس نے اس شہر کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ میٹنگ واشنگٹن ڈی سی یانیویارک میں بھی تو ہوسکتی تھی، پھر اس کے لیے الاسکا کیوں چنا گیا؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ واشنگٹن ڈی سی یا نیویارک میں یوکرین پر روسی حملوں کے سبب امریکہ کے کئی لوگوں میںغصہ پایاجاتا ہے۔یہ لوگ ہاتھ میں سیاہ جھنڈے لے کر پوتن کے خلاف احتجاجی جلوس نکال سکتے تھے جس سے ان کی سیکورٹی کو خطرہ ہو سکتا تھا۔ دوسری وجہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) کے ذریعے جنگی جرم کے الزام میں جاری کیاگیا گرفتاری وارنٹ بھی ہو سکتی ہے۔ تیسری وجہ علامتی ہے۔ الاسکا کے جس ملٹری بیس میں یہ ملاقات ہوئی تھی، سردجنگ کے زمانے میں وہاں سے سوویت یونین کی نگرانی رکھی جاتی تھی۔ آج اسی جگہ پر امریکی فوج ٹھکانہ ہے۔ ملکوں کے حالات ہوں یا سیاسی میدان جنگ، وقت کے نشیب و فراز ہرجگہ اپنے نشان چھوڑتے ہیں۔
ٹرمپ اور پوتن کی ملاقات کا مقصد کیاہے؟ یہ جاننے اورسمجھنے کے لیے تھوڑا فلیش بیک میں جانے کی ضرورت ہے۔ اپنے دوسرے دورکی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کہاتھا کہ اگر اس الیکشن میں ان کی جیت ہوئی اور وہ دوبارہ امریکہ کے صدر بنے تو روس یوکرین جنگ 24 گھنٹے میں بند کروا دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ 2022 میں جوبائیڈن کی جگہ اگر وہ صدر ہوتے تو یہ جنگ ہوتی ہی نہیں۔ بہرکیف، الاسکا میں سرخ قالین بچھواکر انہوں نے نہایت گرم جوشی سے پوتن کا خیرمقدم کیا۔ پھر اپنی سرکاری کار میں بٹھا کر اس فوجی اڈے پہنچے جہاں یہ میٹنگ ہونی تھی۔ اس ملاقات کا مقصد روس یوکرین جنگ کو روکنے کے لیے بات کرنا تھا۔ قریب تین گھنٹے ٹرمپ اور پوتن ایک مخصوص کمرے میں بیٹھے اور گفتگو کی۔ باہر میڈیا کے لوگ کسی بڑے فیصلے کا انتظار کررہے تھے۔ میٹنگ کے بعد جب ٹرمپ اور پوتن باہر آئے تو صحافی حضرات کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ پوتن پرسکون دکھائی دے رہے تھے جبکہ ٹرمپ کے چہرے پر تناؤ کا عکس صاف نظر آ رہا تھا۔ مشترکہ بیان میں صرف اتنا کہا گیا کہ بات آگے بڑھی ہے مگر سیزفائر پر ہم ابھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچے ہیں۔ دوسری ملاقات کے لیے پوتن نے ٹرمپ کو ماسکو آنے کی دعوت دی ہے۔ ٹرمپ اور پوتن کے درمیان ہوئی اس دو طرفہ بات چیت میں جنگ بندی کے تعلق سے کوئی فیصلہ کن نتیجے کا امکان نہیں تھا۔ آگے کی میٹنگ میں جب زیلنسکی بھی ٹرمپ کے ہمراہ ہوں گے تبھی اس مسئلے کا کوئی معقول اورپوتن اور زیلنسکی دونوں کے لیے قابل قبول حل نکل سکتا ہے۔
نئے نئے ٹیرف کے ہتھیار سے ٹرمپ جو دنیا کو اپنے سامنے جھکانے کا کھیل کھیل رہے ہیں، روس پراس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ دوسری طرف زیلنسکی ان کی ہربات مان لیں گے، یہ کہنا بھی مشکل ہے۔ زیلنسکی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جنگ روس کی شرطوںپر نہیں بند ہوگی۔ وہ اپنی ایک انچ زمین بھی روس کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں ٹرمپ اس جنگ کو رکوانے میں چودھری کا کردار کیسے ادا کر پائیں گے؟ فلسطین کے معاملے میں وہ پہلے ہی ناکام ہوچکے ہیں۔ اس جنگ میں بہت کچھ کھونے کے باوجود یوکرین کے عوام زیلنسکی کے ساتھ ہیں اور وہ اپنی زمین کسی بھی قیمت پر چھوڑنا نہیں چاہتے۔ زیلنسکی مسلسل مانگ کر رہے ہیں کہ انہیں یوروپی یونین میں شامل کیا جائے اور ناٹو کی رکنیت دی جائے۔ یہ بات پوتن کے لیے ناقابل قبول ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کی اصل وجہ یہی ہے۔ روس نہیں چاہتا کہ یوکرین ناٹو کا ممبر بنے۔ اس کے علاوہ ناٹو کے اپنے قانون کے مطابق جو ملک حالت جنگ میں ہے، اسے ناٹو کی رکنیت نہیں دی جا سکتی۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ زیلنسکی جھک جائیں اور پوتن کو اپنے وہ شہر دے دیں جن پر روس کا قبضہ ہے۔ کیا زیلنسکی اس کے لیے تیارہوں گے؟
پوتن سے ملاقات کے دودن بعد ہی ٹرمپ، زیلنسکی سے وائٹ ہاؤس میں ملے۔ پہلے ان دونوں لیڈروںکی میٹنگ اکیلے میں ہوئی۔ بعد ازاں زیلنسکی کی موجودگی میں ٹرمپ چند یوروپی ممالک کے سربراہوں سے ملے۔ سبھی چاہتے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ ہو مگر یہ ہوگا کیسے، ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اسی دوران ٹرمپ نے پوتن سے بھی بات کی۔ یہ بات فون پر ہوئی جس کے بارے میں کچھ بتایانہیں گیا۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کا جھکاؤ پوتن کی طرف زیادہ ہے۔ مسئلہ پیچیدہ ہے جس کا حل آسانی سے نہیں نکلے گا۔ ٹرمپ کی نگاہ نوبل پیس پرائز پر ہے، لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح روس-یوکرین کے بیچ سیزفائر ہو جائے اور انہیں امن کا مسیحا تسلیم کر لیا جائے۔
جغرافیائی عالمی سیاست پرگہری نگاہ رکھنے والے کچھ صحافی حضرات کا ماننا ہے کہ روس پورے یوکرین اور آس پاس سبھی چھوٹے ملکوں کو اپنے تسلط میں لینا چاہتا ہے۔ پوتن کی نظر ان تمام ممالک پر ہے جو سوویت یونین کا حصہ تھے۔ وضاحت کی ضرورت نہیں کہ سردجنگ سے قبل سوویت یونین ایک ایسی طاقت ہواکرتا تھا جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا تھا۔ پھر زوال آیا اور یہ یونین ٹوٹ کر 15 ٹکڑوں میں بکھرگیا اور سبھی ٹکڑے چھوٹے چھوٹے آزاد ملک کی شکل میں دنیا کے نقشے پر آگئے۔ یہ سبھی ملک سوویت کا حصہ تھے۔ پوتن کا خفیہ ایجنڈا ہے کہ وہ ان تمام ملکوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر سوویت یونین کا جھنڈا دوبارہ بلند کریں۔ پوتن اپنے خفیہ منصوبے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ 2014 میں وہ کریمیا کو جیت چکے ہیں۔ پھر 2022 سے یوکرین پر جو حملے شروع ہوئے ہیں، وہ ہنوز جاری ہیں۔ یوکرین کے کئی شہروں اور علاقوں کو روس نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ چند یوروپی ممالک بھی چاہتے ہیں کہ روس یوکرین کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہو جائے اور یہ جنگ رک جائے۔ غزہ میں نسل کشی کا جو سلسلہ جاری ہے، وہ بھی ختم ہو جائے مگر ٹرمپ دونوں مورچوں پر ناکام ہیں۔
جنگ بندی کے تعلق سے زیلنسکی کا موقف اپنی جگہ اٹل ہے۔ دوسری جانب پوتن کا رویہ بھی واضح ہے۔ جن علاقوں پر روس کا قبضہ ہے، وہ کسی بھی حال میں وہاں سے پیچھے ہیں ہٹے گا۔ ایسے میں روس اور یوکرین کے درمیان امن کی کوششیں بے نتیجہ ثابت ہوں گی۔ بم دھماکے دونوں خطوں میں ہوتے رہیں گے۔ میدان جنگ میں دونوں فریقین کی لاشیں گرتی رہیں گی۔ انسانیت کی شکست ہوگی اور حیوانیت کی فتح۔ ٹرمپ کو اپنے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر کوئی معقول فارمولہ تیار کرنا ہوگا جو پوتن اور زیلنسکی دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔ آج دنیا کے بہت سے ملک ایٹمی طاقت سے لیس ہیں۔ ایٹمی جنگ شروع ہوئی تو دنیا تباہی سے نہیں بچ سکتی۔ سب کچھ وقت کے ایک ڈارک ہول میں سما جائے گا۔ نہ ملک ہوگا، نہ زندگی کے قافلے۔ ہر طرف دھواں ہی دھواں ہوگا۔n