پروفیسر اسلم جمشید پوری
نجانے اس ملک کی بعض سیاسی پارٹیوں کو کیا ہوگیا ہے۔ میم تو اردو زبان بلکہ اردو حروف تہجی کا ایک حرف ہے۔اس حرف سے بے شمار لفظ بنتے ہیں مثلاً محبت، مودی، مزہ، ممبئی، مزدور، مارکس، ملک، منتری، مکھیا، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، ماں، مٹّی، موت، مثال، منشی، مہمان، میزبان، مہان، مریم، منقش، محل، مرد، مرید، ماتا، مہابھارت، مور، متحد، مہذب، مستقبل، مستقل، مسلسل، مادہ، مرکز، معبّر، مغرور، مکبّر، مادّہ، مکان، محنت، موٹاپا، معارف، مہاتما، مہاجن، منزل، محبوب، ماحول، مستری، ماحولیات، موضع، وغیرہ بہت سے الفاظ ہیں جن کے شروع میں میم آتا ہے۔ بے شمار ایسے لفظ ہیں جن کے آخر اور بیچ میں میم حرف آتا ہے۔یہ اردو کازیادہ استعمال ہونے والا حرف ہے۔ویسے بھی ’م ‘اردو حروف تہجی کا بہت ہی مترنمّ اورخوبصورت آواز والا حرف ہے۔
میم خود ہی حیران و پریشان ہے کہ اس کا بھی کیا کیا استعمال ہوتا ہے؟ کچھ لوگ اس سے نفرت بھی کرتے ہیں جبکہ اس کی آواز کے اکشر ہندی میں مَا اور انگر یزی میں ایم ہوتے ہیں۔کیا ان سے بھی اتنی ہی نفرت ہوتی ہے۔میم تو خود پر اتراتا تھا کہ وہ محبت کا ایک خاص حرف ہے اور محبت شروع ہی اس سے ہوتی ہے۔وہ محبت جو بیٹے اور ماں کے درمیان ہوتی ہے،باپ اور بیٹی کے بیچ ہوتی ہے۔دوستوں میں ہوتی ہے۔ملک سے ملک میں رہنے والوں کو ہوتی ہے۔دو نوجوان دلوں میں جس کا پودا جوان ہوتا ہے۔جو انسان کو ادب سکھاتی ہے،مہذب بناتی ہے۔بقول اقبال
خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیںاچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
مگر میم اپنے آپ پر شرمسار ہے کہ اسے لوگوں نے ایک طرف کر دیا اور اسے ایک مذہب سے جوڑ دیا۔مجھے صرف مسلمانوں سے منسلک کردیا گیا جبکہ میں تو مہا ویر بھی تھا، مندر میں بھی تھا، مہاتمابدھ کو مہان میں نے بنایا۔ میں ملک کی مٹّی میں ماتا بن کررہتا تھا۔میں تو فخر کرتا تھا کہ رام میں واس کرتا ہوں۔میزبان بن کر مہمان کی میزبانی کرتا ہوں۔
محنت کے بل بوتے پر ہر راہ رومنزل کو پا لیتا تھا۔ منتری میں سے کسی ایک کومکھیہ منتری بنا دیتا تھا۔ میرے ہی دم پر مودی،مہاتما گاندھی کی مٹی سے اٹھ کر ملک کے وزیراعظم بنے۔میں نے ہی منگل پانڈے،ماتا دین،جیسے آزادی کے متوالے دیے۔
میم کو تو ناز تھا کہ وہ اللہ کے محبوب کے نام میں دو بار آیا ہے۔ایسا محبوب جن کے لیے یہ جہان بنا یا گیا،جو آخری پیغمبر ہیں اور جنہوں نے قیامت تک کے لیے انسانوں کو بہترین نظام حیات دیا۔اسے اس وقت بہت افسوس ہواکہ ہندوستان کی ایک مخصوص سیا سی جماعت نے اس کو مسلمان بنا دیا ہے اور کیا کیا مطلب نکالے ہیں۔اس جماعت کے لیڈران گھوم گھوم کر اسے بدنام کر رہے ہیں۔اسے مسلمان بنادیا گیاجبکہ وہ تو ہر مذہب میں شامل تھا۔
سنا ہے ہندوستان کی ایک سیاسی جماعت میم سے ایسے لفظ بناتی ہے،جن کا تعلق ایک مذہب سے ہے،یعنی اسلام سے۔دراصل ان کی نیت خراب ہے اور دماغ چالوں سے بھرا ہوا ہے۔اس کی چال ہندوؤں کے دل میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف حقارت اور نفرت کا زہر بھر نا ہے۔اس چال میں وہ لوگ عارضی طور پرکامیاب بھی ہوئے۔انہوں نے الگ الگ پس منظر میں میم سے بہت سے لفظوں کابننے کا اشتہار کیا۔ انہوں نے میم سے محمد، مسلمان، میاں، مسجد، مدرسہ، منگل سوتر، مائک، مندر،میٹ،مغل کے علاوہ انہوں نے میم کو بد نام کر نے کے لیے مجرے میں بھی تلاش کر لیا۔ یہ تو ہر شخص کی اپنی نیت ہے کہ وہ اپنی نیت کے عین مطابق کسی بھی لفظ کا استعمال کر سکتا ہے۔اب ان لفظوں کا پس منظر بھی ملاحظہ کریں،ان کے استعمال کرنے والوں کی نیت صاف ہو جائے گی۔
محمد اور مسلمان،ان دونوں لفظوں کا تعلق اسلام سے ہے۔اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا آخری مذہب ہے اور حضرت محمدؐ اسلام کے آخری پیغمبر ہیں۔اسلام کو ماننے والوں کو مسلمان کہتے ہیں۔اللہ،محمدؐ اور مسلمان سب ایک ہی ہیں۔ مسلمان اللہ پر ایمان لاتا ہے اور محمد ؐکو اللہ کا رسول مانتا ہے۔اور اس م سے خاص جماعت کو زمانے کا بیر ہے۔ دراصل یہ جتنا مسلمانوں کے خلاف بولتی ہے اور نفرت کرتی ہے تو دوسری طرف ہندوؤں میں پولرائزیشن ہوتا ہے۔یہی تو ان کا مقصد ہے۔مسلمان کو جب یہ لوگ حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں تو طنزاً ’میاں ‘کہتے ہیں،جس میں وہ مسلمان کو بہت ہی گرا ہوا،بے حساب بچے پیدا کرنے والا اور سماج کے چھوٹے موٹے کام کر نے والا مانتے ہیں۔
مسجد اور مدرسہ اسلام کے اہم عناصر ہیں۔مسجد میں مسلمان سجدہ(نماز) ادا کر تے ہیں۔مساجد ہر شہر اور ملک میں ملتی ہیں۔جہاں مسلمان ہوں گے مساجد وہاں ضرور ہوں گی۔مدرسہ میں بچّے اسلامی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔کہا جا تا ہے کہ مدارس دین اسلام کے قلعے ہیں۔یہ بات صحیح بھی ہے۔ مساجد اور مدارس کا ایک دوسرے سے رشتہ ہے۔ مدرسے میں مسجد بھی ہوتی ہیں اور مساجد میں مدرسے بھی ہوتے ہیں۔یہ دونوں اسلام کے ضروری عناصر ہیں۔ملک کی ایک سیاسی جماعت مسجد اور مدرسے سے نفرت کر تی ہے۔دراصل ان کو اسلام ہی پسند نہیں ہے۔ان کو مساجداور مدارس پھوٹی آنکھ نہیں بھاتے۔بلکہ کئی ریاستوں میں سرکار مدارس کو تشکیک بھری نظروں سے دیکھتی ہے۔
منگل سوتر اور مائک الفاظ کا استعمال بھی ملک کے کچھ لوگ نفرت پھیلانے کے لیے کر رہے ہیں۔منگل سوتر کے تعلق سے باتیں بنا کر یہ لوگ اکثریتی طبقے کے ذہن میں نفرت پھیلا رہے ہیں۔ملک کے ایک بڑے سیاسی رہنما کا بیان ہے کہ اگر کا نگریس حکومت میں آگئی تو یہ ہندوعورتوں کے منگل سوتر اتار کر مسلمانوں کو دے دیں گے۔بھلا کوئی ان سے پو چھے،کس نے منگل سوتر اتارے ہیں؟ اور یہ مسلمانوں کے کس کام کے؟ یوں بھی مسلمان ہمیشہ اس ملک کا وفادار رہا ہے ؟سچا مسلمان کبھی اتنی گری ہوئی حرکت نہیں کرے گا،حکومت خواہ کسی کی ہو۔
مائک مسا جد پر لگا ہوتا ہے تاکہ اذان کی آواز دور دور تک جا سکے اور مسلمان نماز کی ادائیگی کے لیے آسکیں۔نماز کے اوقات طے ہیں۔مائک کا استعمال صرف اذان کے لیے مخصوص وقتوں میں ہوتا ہے۔ان کی پھیلائی نفرت کے سبب کئی ریاستوں میں یا تو مائک اتروا دیے گئے یا ان کی آواز بہت کم کر دی گئی۔
مندر کے تعلق سے بھی ایک بھرم پھیلایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو کسی مندر پر کوئی اعتراض نہیں۔ مندروں میں پوجا ارچناکی جاتی ہے۔مسلمانوں کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مگر کچھ لوگوں کو ہندو مسلمانوں کا اتحاد برداشت نہیں۔وہ نہیں چاہتے کہ اس ملک میں سب مل جل کر رہیں۔
مغل لفظ سے تو آپ سب واقف ہوں گے۔ دراصل مغلیہ سلطنت تو آپ کو یاد ہوگی۔ بابر، ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہجہاں، اورنگ زیب اور بہادر شاہ ظفر اس حکومت کے اہم حکمراں گزرے ہیں۔یہ سبھی مغل تھے اور مغلوں نے ڈھائی تین سو سال اس ملک پر حکومت کی ہے۔بابر کو چھوڑ کرسبھی مغل بادشاہ اسی ملک کی مٹی سے اُٹھے اور یہیں دفن ہوئے۔انہوں نے اس ملک کو اپنا ملک سمجھا اور اس کے فروغ کے لیے کام کیا۔اس ملک کو تاج محل دیا،دہلی اور آگرہ کے قلعے بنائے،دہلی کی جامع مسجد،شالیمار باغ،فتح پور سیکری کا قلعہ اور نجانے کیسی کیسی عمارتیں بنوائیں۔بہادر شاہ ظفر نے انگریزوں سے لو ہا لیا۔اتنا سب کچھ کر نے کے بعد بھی ہندوستان کی ایک جماعت کی نظر میں مجرم ٹھہرے۔ این سی آر ٹی کی تاریخ کی نصابی کتابوں سے مغلیہ دور ہی ہٹا دیا گیا۔ یہ بھی ایک قوم کو خوش کرنے اور ملک کا ماحول خراب کر نے کی کو شش ہے۔میٹ کا جہاں تک سوال ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے یہ ایک طرح کا کھانا ہے،جس کا استعمال مسلمان زیادہ کرتے ہیں، اس ملک کے بہت سے غیر مسلم بھی اس کا کھانے میں استعمال کر تے ہیں۔کچھ لوگ اسے بھی نفرت پھیلانے کا ایک ذریعہ بنا تے ہیں۔
4 جون، منگل کو فیصلہ ہو جائے گا کہ میم لفظ کا غلط استعمال کر کے،ملک کی فضا خراب کر نے والے کامیاب ہوں گے یا ملک اور آئین کو بچانے والے فتح یاب ہو ں گے۔کچھ بھی ہو، یہ ملک امن و امان کا گہوارہ ہے۔اس کی خوبی کثرت میں وحدت ہے جو ہمیشہ رہے گی۔اس کے امن کو خراب کرنے والے کتنے آئے اور چلے گئے۔اس ملک کے لوگ آپس میں مل جل کر رہتے آئے ہیں اور آگے بھی رہیں گے۔
[email protected]