مریضوں کی تیمارداری انسانیت کا عظیم فریضہ

0

مفتی رفیق احمد
کولاری قادری ہدوی
بیماری وصحت، مرض و تندرستی انسانی زندگی کے دو اہم پہلو ہیں۔ ان دونوں محور سے ہر انسان گزرتا ہے۔ کبھی انسان صحت مند رہتا ہے تو کبھی بیماریوں کے لپیٹ میں رہتاہے۔ان دونوں حالتوں میں پروردگار عالم کی بارگاہ میں شکر گزاری کے ساتھ زندگی گزارنے والا ہی سچا وپکا مؤمن ہے۔ دونوں حالتیں بندے کے لیے خیرو بھلائی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ ان میں صحت و تندرستی کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے کہ اسی حالت میں بندہ آسودئہ حال اور فارغ البال رہتا ہے اس کو کسی کا غم والم نہیں رہتا۔بعض ایسے بھی ہیں جنہیں اس نعمت عظمی کی قدر نہیں۔ مال وزر ہی کو نعمت وراحت اور خوشحالی کا سبب سمجھتے ہیں۔اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آقائے دوجہاں امام الانبیاء ﷺ فرماتے ہیں دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔‘‘ (صحیح البخاری / کِتَاب الرِّقَاقِ) دوسری ایک حدیث میں آقائے نامدارﷺ فرماتے ہیں پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو (۱)جوانی کو بڑھاپے سے پہلے(2)صحت کو بیماری سے پہلے (3)مالداری کوتنگدستی سے پہلے(4) فرصت کومشغولیت سے پہلے اور (5) زندَگی کوموت سے پہلے۔ (اَلْمُسْتَدْرَک ج۵ ص۵۳۴ حدیث ۶۱۹۷ دارالمعرفۃ بیروت) ابھی آپ کو انگریزی کا وہ مقولہ اچھا طرح سمجھ میں آگیا ہوگا کہتے ہیں Health is wealth جس کو ہم اردو صحت ہزار نعمت ہے سے تعبیر کرتے ہیں۔
اسی صحت میں عبادت کرنے کی بڑی فضیلتیں حدیث میں آئیں ہیں۔ ہم اس کی طرف نہیں جائنگے کیونکہ اس وقت ہماری گفتگو کا عنوان وہ نہیں ہے۔ زندگی و موت خدا کی دین ہے کچھ یوں ہی صحت و مرض بھی خدا کی طرف سے ہے اسی و جہ سے ایک کانٹا چبنے پر بھی خدا ثواب عطا کرتا ہے جیسے کہ سلطان مدینہ ﷺ فرماتے ہیں مسلمان کو جو بھی دکھ، گھٹن، حزن، ملال اور تکلیف و غم پہنچتا ہے یہاں تک کہ اگر کانٹا ہی لگ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں ضرور اس کی خطائیں معاف فرماتا ہے۔‘‘(صحیح: أخرجہ البخاری، کتاب المرضی، باب ماجاء فی کفارۃ المرض: 5641) کتنا کریم ہے رب کہ بیماری کو ہماری بخشش کا ذریعہ بنایا آج ہم اسے رب سے غافل ہیں رب بار بار ہمیں بلاتا ہے اور محبت بھرے لہجے میں کہتا اے آدمی تجھے کس چیز نے فریب دیا اپنے کرم والے رب سے جس نے تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک بنایا پھر ہموار فرمایا جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دیا کوئی نہیں بلکہ تم انصاف ہونے کو جھٹلاتے ہو (انفطار:۶۔۹) اسی کرم الہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دِکھلائیں کسے، رہروِ منزل ہی نہیں
بر سر مطلب آمدم میں کہہ رہا تھا کہ بیماری بھی نعمت سے کم نہیں۔ بیماری گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ بیماری ثواب دارین کا ذریعہ ہے۔ بیماری خوشنودی الہی کا ذریعہ ہے۔ بیماری یاد الہی کا پروانہ ہے الغرض بیماری وہ عظیم نعمت ہے جس میں بندہ خلوص دل کے ساتھ رب قدیر کی طرف پلٹتا ہے اور یاد الہی کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر قرب کی مستیوں سے سرشار ہوکر خوش وخرم لوٹتا ہے۔ اگر اس مریض کے حق میں صحت و تندرستی مقدر ہو تو وہ بیماری سے شفایاب ہوکر گناہوں پاک ہوکر لوٹتا ہے اگر نہیں تو وہ پروانہء بخشش کے ساتھ تقدیر سابق کے مطابق موت کے ذائقہ کو چک کر جنت کی کیاریوں میں گھومتے رہتا ہے۔ یہ تو بیماری کی بات تھی اب آئیے اس مریض وبیمار شخص کی عیادت کرنے والی کی عظمت جانتے ہیں۔ بیمار کی حال پرسی وتیماداری کرنا سنت رسول ﷺ ہے اور آقائے دوجہاں ﷺ نے حکم بھی فرمایا۔ اتنا پیارا عمل ہے کہ آقا ﷺ بنفس نفیس بیماروں کی عیادت کیا کرتے تھے اور ان کے لیے شفایابی کے لیے دعا کرتے اور صبر کی تلقین کرکے لوٹتے تھے۔
سرور کونینﷺ عیادت مریض کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کیلئے صبح کو جائے تو شام تک اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کیلئے استغفار کرتے ہیں اور اس کیلئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔ (ترمذی،ج 2،ص290، حدیث: 971) دوسری ایک حدیث میں تاجدار کائنات فرماتے ہیں کہ جب ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کو گیا تو واپس ہونے تک جنت کے پھل چننے میں رہا۔ (مسلم، ص1065، حدیث:6551) مزید محسن انسانیت ﷺ فرماتے: جو کسی مریض کی عیادت کرتا ہے اس کو آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے تم اچھے اور تمہاری چال اچھی اور تم نے جنت میں اپنے لئے ایک خاص محل بنالیا(ترمذی) مریض سے دعا کرانے سے گناہ معاف ہوتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا: مریضوں کی عیادت کرو اور ان سے کہو کہ وہ تمہارے لئے دعا کریں کیونکہ بیمار کی دعا قبول کی جاتی ہے اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ (الترغیب والترہیب، بحوالہ طبرانی) اس کے علاوہ احادیث مبارکہ میں عیادت مریض کی بڑی فضیلتیں آئیں ہیں۔ جن کو اگر بیان کیا جائیں تو مضمون کافی طویل ہوجائے گا طوالت کے خوف سے ہم انہیں روایات پر اکتفاء کرتے ہیں۔
مریض کی عیادت کرتے وقت چند باتوں کا خیال رکھا جائے تاکہ مریض کو ہماری عیادت سے تکلیف بڑھ نہ جائے۔ مریض کی تیمارداری کرنے والا گھنٹوں مریض کے پاس وقت نہ گزاریں۔ جیسے آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ عیادت ’فواقِ ناقہ‘ کے برابر ہونی چاہئے اور سعید ابن المسیب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ عیادت کا افضل طریقہ یہ ہے کہ عیادت کرنے والا جلد اٹھ کھڑا ہو۔ (مشکوٰۃ الصابیح، کتاب الجنائز) دوبار اونٹنی کا دودھ دوہنے کے درمیان کی مدت کو ’فواقِ ناقہ‘ کہتے ہیں۔ اس حدیث میں جو تعلیم دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ عیادت کے موقع پر بلا ضرورت دیر تک مریض کے پاس بیٹھنا صحیح نہیں ہے۔ بعض اوقات اس سے خود مریض کو تکلیف پہنچتی ہے اور بعض اوقات اہل خانہ کو زحمت ہوتی ہے۔ البتہ اگر مریض خود خواہش مند ہو اور اہل خانہ کو بھی کوئی زحمت نہ ہو تو دیر تک بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
مریض کی عیادت کرتے وقت اس کو دلاسہ دیں اور اچھی اچھی باتیں بتائیں جس سے اس کی دل داری و تشفی ہو جیسے کہ آقائے دوجہاں ﷺ فرماتے ہیں جس نے کسی ایسے مریض کی عیادت کی جس کی موت کا وقت نہیں آیا ہے پھر اس نے سات بار یہ دعا کی: ’’میں اللہ سے جو عرشِ عظیم کا رب ہے، دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں شفا دے‘‘۔ تو اللہ اس کو اس کے مرض سے شفا دے گا۔ (ابو داؤد، کتاب الجنائز، معجم 8، باب الدعاء للمریض عندالعیادۃ) مریض کو تسلی دے اورکہے ان شاء اللہ ٹھیک ہوجاؤگے،کوئی بڑی بات نہیں ہے، رسول اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے،تومندرجہ ذیل کلمات سے تسلی دیتے تھے۔لاَ بَأْسَ، طَہُورٌ إِنْ شَائَ اللَّہُ· (رواہ البخاری عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،کتاب المرضی، باب عیادۃ الاعراب: ۶۵۶۵)کوئی تکلیف یا گھبراہٹ کی بات نہیں ہے؛ اس لیے کہ بیماری گناہوں کی صفائی وستھرائی کا ذریعہ ہے،ان شاء اللہ بہتر ہی ہوگا۔
مذکورہ بالا تمام روایات سے یہ بات آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہے کہ مریض کی عیادت انسانی و اخلاقی فریضہ ہی نہیں بلکہ کار ثواب بھی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نماز اور روزہ کی پابندی کرلینے سے ہم سچے مسلمان بن گئے۔ یہ ہماری خام خیالی ہے مسلمان وہ ہے جو کسی دوسرے کے کام آئے اور ہمیشہ انسانیت کی فکر کریں۔ سماجی و رفاہی خدمات بھی دین متین کا عظیم حصہ ہے۔ اس لیے تمام قارئین سے ہماری مخلصانہ اپیل ہے کہ آپ کے اردگرد کوئی بیمار ہو جائے تو فوراً اس کی عیادت کریں اور اس کی ضروریات کا خیال رکھیں اور ہوسکے تو اس کے پاس وقت بتانے کی کوشش کریں جن کی فضیلت و اہمیت کو ہم نے احادیث کی روشنی میں اجاگر کیا۔ آج ہمارے پاس سب کچھ ہے اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ دوسروں کے لیے وقت ہی ہے جو ہمارے پاس نہیں۔ ہم میں سے بعض سمجھتے ہیں کہ کسی مریض کو مالی تعاون کر دئیے تو ہماری ذمہ داری ختم۔ ایسا نہیں بلکہ آپ کے مالی امداد سے کہیں زیادہ آپ کی تسلی بخش کلمات ان مریضوں کے لیے کسی تریاق یا نوید مسرت سے کم نہیں لہٰذا میرے تمام بھائیوں سے التماس کرونگا کہ آپ ہر مریض سے خندہ پیشانی کے ساتھ مسکراکر بات کریں حال چال دریافت کریں اور ہمیشہ اس کے لیے دعائیہ کلمات کہتے رہے یہی چیزیں اس کی شفایابی کے کافی ہیں۔ رب قدیر سے دعا گو ہوں کہ ہمیں پوری انسانیت کا ہمدرد اور غمخوار بنائے آمین۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS