سیاحت، انفرااسٹرکچر اور شہری ترقی سے معیشت مضبوط ہوگی

0

ستیش سنگھ

چونکہ ہماری معیشت کھپت پر مبنی ہے، اس لیے بجٹ میں عام آدمی کی آمدنی میں اضافہ کرکے اخراجات کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک پہل کی گئی ہے اور اسی سلسلے میں سیاحت، انفرااسٹرکچر اور شہری ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، تاکہ بنیادی سہولیات میں بہتری آئے اور ساتھ ہی ساتھ ملک میں روزگار کے بڑے مواقع پیدا ہوں اور لوگ خودکفیل ہو کر اپنی تمام ضروریات کو آسانی سے پوری کر سکیں۔

سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات:آج سیاحت کے شعبے کی ترقی کی شرح تقریباً 10 فیصد ہے اور اس رفتار کو مزید تیز کرنے کے لیے ملک کے 50 اہم سیاحتی مقامات کو ترقی دی جائے گی اور بودھ مذہب سے متعلق مذہبی مقامات کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اس سلسلے میں ہوم اسٹے کو فروغ دینے کے لیے اہل لوگوں کو مدرا لون دیا جائے گا۔اس سے مہنگے سیاحتی مقامات پر عام سیاحوں کو مناسب نرخوں پر قیام کی سہولت میسر ہوسکے گی۔

ان مقامات پر ضروری انفرااسٹرکچر تیار کرنے کے لیے زمین ریاستی حکومتیں فراہم کرائیں گی اور وہاں دستیاب ہوٹلوں کو ہارمونائزڈ انفرااسٹرکچر ماسٹر لسٹ میں شامل کیا جائے گا، جس سے انہیں مالی امداد اور ترقیاتی سہولیات مل سکیں گی۔ ان اقدامات سے مقامی معیشت کو مزید تقویت ملے گی اور سیاحوں کا سفری تجربہ بہتر ہوسکے گا۔ سیاحتی مقامات کا بہتر انتظام اور کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ریاستوں کو کارکردگی پر مبنی مراعات دی جائیں گی۔

بدھ سرکٹ ڈیولپ کیے جانے سے اترپردیش کے سارناتھ، کشی نگر، شراوستی، بہار کے راجگیر، بودھ گیا، ویشالی، مدھیہ پردیش کے سانچی، مہاراشٹر کے امراوتی، تلنگانہ کے ناگارجن کونڈا وغیرہ کو پرکشش سیاحتی مقامات میں تبدیل کیا جائے گا، جس سے سیاحت پر مبنی صنعت کو فروغ ملے گا۔ ان کی ترقی کے لیے20نئے ہوائی اڈوں کو بدھ سرکٹ کے شہروں سے جوڑا جائے گا۔ بجٹ میں پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ شراکت میں میڈیکل ٹورازم اور ’ہیل اِن انڈیا‘کو بھی فروغ دیا جائے گا۔

ہر سال جاپان، ویت نام، تھائی لینڈ، سری لنکا، انڈونیشیا، ملیشیا، لاؤس، سنگاپور وغیرہ جیسے بودھ مذہب کے ماننے والے ممالک سے بڑی تعداد میں سیاح بدھ سرکٹ کا دورہ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ای ویزا کے عمل کو مزید آسان بنایا جائے گا۔ اب تک ملک میں169ممالک کے لیے ای ویزا کی سہولت شروع کی جا چکی ہے۔
سیاحتی گروپوں کو ویزا فیس میں چھوٹ بھی دی جائے گی، جس سے چھوٹے شہروں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، وہاں بنیادی ڈھانچہ مضبوط ہو گا، روحانی سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا وغیرہ۔

ہندوستان میں سیاحت کا شعبہ ملک کی سرفہرست سروس انڈسٹریز میں سے ایک ہے اور جی ڈی پی میں اس کا حصہ تقریباً 6.50 فیصد ہے۔ نیز، ہندوستان میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں اس کا حصہ تقریباً 9فیصد ہے۔ آج سیاحت کو معاشی ترقی اور روزگار پیدا کرنے کا ایک مضبوط ذریعہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ جب ایک سیاح کسی سیاحتی مقام پر جاتا ہے تو بہت سے لوگوں جیسے گائیڈ، ٹیکسی، رکشہ، اسٹریٹ وینڈر وغیرہ کو روزگار ملتا ہے اور کھپت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیاحت کئی دوسرے شعبوں کی آمدنی میں اضافہ کا بھی عنصر ہے۔ اس سے سڑک، ریل، ہوائی اور آبی نقل و حمل وغیرہ شعبوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت معاشی ترقی اور خاص طور پر ملک کے دور دراز علاقوں میں روزگار پیدا کرنے کے ایک طاقتور ذریعہ کے طور پر ہے۔

شہروں کو اسمارٹ بنانے کے لیے اقدامات:شہروں کو بہتر بنانے کے لیے شہری نظم و نسق، میونسپل خدمات، شہری اراضی اور شہری منصوبہ بندی سے متعلق اصلاحات کی جائیں گی، جس کے لیے حکومت ایک لاکھ کروڑ روپے کا ’’اربن چیلنج فنڈ‘‘قائم کرے گی۔ اس کا مقصد شہری علاقوں کو ترقی کے مراکز کے طور پر ڈیولپ کرنا، شہروں کو تخلیقی طور پر دوبارہ تیار کرنا اور رہائش پذیر افراد کی پانی اور صفائی کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔

اس فنڈ سے بینک کے قابل منصوبوں کی لاگت کا 25 فیصد تک فنانس کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں 50فیصد لاگت بانڈز، بینک لون اور پی پی پی ماڈل یعنی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے فنانس کیا جائے گا۔ اس کے لیے مالی سال 2025-26 کے لیے بھی10,000کروڑ روپے بھی مختص کیے جائیں گے۔

’’اربن چیلنج فنڈ‘‘کی مدد سے شہروں کو اسمارٹ بنایا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو اس فنڈ کا استعمال شہروں کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے کیا جائے گا۔ ملک میں شہروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہماری آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس لیے شہروں کے بنیادی ڈھانچے کو بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق ڈیولپ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ اس تناسب سے نہیں بڑھ رہا ہے، جس سے نقل و حمل، مکانات کی تعمیر، کوڑا کرکٹ کے انتظام وغیرہ جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

انفرااسٹرکچر کو مضبوط کرنا:معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے حکومت نے بجٹ میں بنیادی ڈھانچہ کی ترقی اور جدت پر زور دیا ہے۔ اس کے تحت ریاستوں کو بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے50سال تک کے لیے بغیر سود کے قرض کی شکل میں 1.5 لاکھ کروڑ روپے فراہم کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ اگلے5 سالوں میں نئے اسسٹ مونیٹائزیشن پلان(New Asset Monetisation plan) کے ذریعے نئے انفرااسٹرکچر پروجیکٹوں کے لیے10لاکھ کروڑ روپے اکٹھا کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ریاستیں پی پی پی ماڈل کے ذریعے تجاویز تیار کرکے انڈیا انفرااسٹرکچر پروجیکٹ ڈیولپمنٹ فنڈ کے تحت مرکز سے مدد حاصل کر سکیں گی۔

بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے ’’میک اِن انڈیا‘‘ کی پہل کو مزید وسعت دی جائے گی۔ اس کے لیے نیشنل مینوفیکچرنگ مشن قائم کیا جائے گا، جو ریاستوں اور مرکزی وزارتوں کے لیے پالیسی سپورٹ، انتظامیہ اور نگرانی ڈھانچہ فراہم کرائے گا۔ اس کا مقصد کاروبار کرنے کو آسان بنانا، مطلوبہ ملازمتوں کے لیے افرادی قوت کی تیاری، ایم ایس ایم ای سیکٹر کی فعالیت کو بڑھانا، ٹیکنالوجی کی دستیابی اور معیاری مصنوعات کی پیداوار وغیرہ کو یقینی بنانا ہے۔

ایم ایس ایم ای کی درجہ بندی کے لیے سرمایہ کاری اور کاروبار کی حد کو بالترتیب2.5گنا اور2.0گنا تک بڑھانا ہندوستانی مصنوعات کی مینوفیکچرنگ کو بڑھانے کے لحاظ سے بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔ اس سے ملکی برآمدات کو فروغ مل سکتا ہے۔ فی الحال، یہ شعبہ 7.5 کروڑ لوگوں کو روزگار کے ساتھ مینوفیکچرنگ میں36فیصد کا حصہ ڈالتا ہے۔ ملک کی کل برآمدات میں ایم ایس ایم ای کے معیاری مصنوعات کی حصہ داری تقریباً 45 فیصد ہے۔ سرمایہ کاری میں اضافے سے اس شعبے کی مالی حالت بہتر ہوگی اور کاروبار کو وسعت دینے میں آسانی ہوگی۔

کاروبار کرنے میں آسانی کو فروغ دینے کے لیے مائیکرو اور چھوٹے کاروباری اداروں کے لیے کریڈٹ گارنٹی کور5کروڑ سے بڑھا کر 10 کروڑ روپے کیا گیا ہے۔ وہیں ادھم پورٹل پر رجسٹرڈ مائیکرو انٹرپرائزز کے لیے پہلے سال میں 5 لاکھ روپے کی حد والے10 لاکھ کریڈٹ کارڈ جاری کیے جائیں گے۔ ایم ایس ایم ای کی نئی درجہ بندی کے تحت سالانہ 10 کروڑ روپے سے کم کاروبار کرنے والی کوئی بھی کمپنی مائیکرو کے زمرے میں آئے گی۔ اسی طرح 100کروڑ روپے تک کا کاروبار کرنے والی کمپنی کو چھوٹے کاروبار کے زمرے میں رکھا جائے گا۔500کروڑ روپے تک کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کو درمیانے درجے کی اکائیوں میں شمار کیا جائے گا۔ اب تک 5کروڑ روپے تک کا کاروبار کرنے والی کمپنیاں مائیکرو کے زمرے میں آتی تھیں،جب کہ50کروڑ روپے تک کاروبار کرنے والی کمپنیوں کو چھوٹی اور250کروڑ روپے تک کاروبار کرنے والی کمپنیوں کو درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے طور پر درجہ بندکیا جاتا تھا۔

ایم ایس ایم ای میں سرمایہ کاری کی حد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اب مائیکرو کمپنیوں میں2.5کروڑ روپے، چھوٹی کمپنیوں میں25کروڑ روپے اور درمیانے درجے کی کمپنیوں میں125کروڑ روپے تک کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ اب تک سرمایہ کاری کی حد بالترتیب1کروڑ،10کروڑ اور 50کروڑ روپے تھی۔ ایم ایس ایم ای میں ان نئی تبدیلیوں اور التزامات سے سرمایہ کاری میں تیزی آئے گی اور ترقیاتی کاموں کو فروغ حاصل ہوگا، ساتھ ہی ساتھ ملک میں روزگار کے بڑے مواقع پیدا ہوں گے۔

بہرحال ملکی معیشت کی کھپت پر مبنی ہونے کی وجہ سے بجٹ میں بچت اور سرمایہ کاری پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ سیاحت شعبہ کا جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ہے، اس کے علاوہ یہ روزگار پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس لیے حکومت نے اس شعبے کو مضبوط بنانے کے لیے بجٹ میں خصوصی بندوبست کیا ہے۔ آج شہروں کو اسمارٹ بنانے کے ساتھ ساتھ وہاں تمام سہولیات فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ جب شہر اسمارٹ اور گندگی سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ تمام سہولیات سے آراستہ ہوں گے، تبھی وہاں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، لوگ بیمار نہیں ہوں گے، جس کی وجہ سے اس رقم کو ترقیاتی کاموں میں استعمال کیا جا سکے گا۔ ظاہر ہے کہ سیاحت اور شہری علاقوں کی ترقی سے بچت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور ہماری معیشت مضبوط ہوگی۔

(مضمون نگار اقتصادیات کے ماہر، ہیڈ اور اسسٹنٹ جنرل منیجر، لرننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ،ایس بی آئی ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS