مسلم خاتون کے نقاب کو چھونا نتیش کمار کا جرم عظیم : عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

گزشتہ سوموار کو پٹنہ میں ایک سرکاری پروگرام میں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے حرکت کی تھی اس سے بہار کے عوام سخت حیرت و استعجاب میں ہیں۔ دراصل پٹنہ میں ایک مسلم خاتون ڈاکٹر کو وزیر اعلی متبادل طب کی نوکری کی چٹھی تھما رہے تھے۔ تقرری کی یہ چٹھی وہ ایک ایسی خاتون کو دے رہے تھے جو خدا ترس اور با حجاب طرز زندگی گزارنے والی با وقار خاتون نظر آ رہی تھیں۔ وزیر اعلی کی ذمہ داری بس اتنی سی ہونی چاہئے تھی کہ وہ تقرری نامہ اس خاتون کو عطا کر دیتے اور اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے۔ کیونکہ ان کے معاون کارندوں نے پروگرام کی تمام تر تفصیلات سے وزیر اعلی کو قبل از وقت یقینا مطلع کیا ہوگا۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا ہوگا کہ کن امیدواروں کو تقرری نامہ عطا کیا جانا ہے اور ان کے نام اور دیگر تفاصیل کیا ہیں۔

لیکن نتیش کمار کے لئے شاید کسی امیدوار کے بارے میں اتنی معلومات جان لینا اور بطور وزیر اعلی بس اپنی رسمی اور روایتی ذمہ داری ادا کر دینا کافی نہیں تھا۔ اس پورے واقعہ کا جو ویڈیو وائرل ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب مسلم خاتون اپنا تقرری نامہ قبول کرنے کے لئے آگے بڑھیں اور نتیش کمار نے کاغذ کا ٹکڑا ان کی طرف بڑھایا تو ساتھ ہی ان سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنا نقاب چہرہ سے ہٹائیں۔ اس کا امکان تھا کہ مسلم خاتون شاید اپنے چہرہ سے اس وقت وزیر اعلی کی گزارش پر نقاب ہٹا بھی لیتیں۔ یا وہ انکار کر دیتیں اور اسی حالت میں اپنا تقرری نامہ قبول کرکے چلی جاتیں۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بہار کے 74 سالہ وزیر اعلی نتیش کمار نے ایک مسلم خاتون کی رضامندی اور ان کے فیصلہ کا انتظار تک نہیں کیا بلکہ کافی تیزی کے ساتھ ان کے چہرہ کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا اور ان کے نقاب کو ان کے چہرہ سے کھینچ کر ہٹانے کی کوشش کرنے لگے۔ نتیش کمار کے آس پاس کھڑے وزرا میں سے ایک نے نتیش کمار کو روکنے کی کوشش بھی کی لیکن باقی دیگر وزرا نتیش کمار کی بے غیرتی اور قابل مذمت حرکت پر شرمندہ ہونے کے بجائے ہنستے نظر آئے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نتیش کمار نے اپنے ارد گرد جن وزیروں کا جمگھٹا تیار کیا ہے وہ نہایت بے حس اور تمام ثقافتی و تہذیبی اصولوں سے عاری لوگ ہیں۔ ان میں اب اتنی حساسیت بھی باقی نہیں رہ گئی ہے کہ ایسی مذموم حرکت پر وہ اپنا مذمتی بیان جاری کریں اور یا کم سے کم معاملہ کی سنگینی اور سنجیدگی کے پیش نظر اظہار تسف ہی کر لیں۔ کیا نتیش کمار اور ان کے وزرا کو دستوری آداب و اخلاق سکھانے والے لوگ بالکل نہیں مل رہے ہیں؟ کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ کسی بھی خاتون کی اجازت اور مرضی کے بغیر ان کے قریب جانا، ان کے کپڑے یا جسم کے کسی بھی حصہ کو ہاتھ لگانا نہ صرف بد اخلاقی اور بیہودگی ہے بلکہ قانونا جرم ہے؟ کیا نتیش کمار کو یہ نہیں معلوم کہ مذہبی آزادی ہمارے دستور کا اہم حصہ ہے اور ملک کی تمام مذہبی جماعتوں کو اس بات کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مذہبی تعلیمات پر اپنی فہم کے مطابق عمل کریں؟ اگر انہیں یہ معلوم ہے تو آخر کس قانونی استحقاق کے تحت انہوں نے ایک مسلم خاتون کی عصمت کے تحفظ کی علامت سمجھی جانے والی شئی کو ہاتھ لگایا اور ریاست بہار کے 17 فیصد سے زائد مسلم اقلیت کی دل آزاری کرنے کی ہمت دکھائی؟

ابھی ریاستی انتخابات کو ایک مہینہ ہی ہوا ہے اور نتیش کمار نے بطور وزیر اعلی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ میڈیا میں اس بات کا چرچہ اب تک جاری ہے کہ نتیش کمار کی پارٹی اور ان کی حلیف جماعت بی جے پی کی جیت میں ریاست کی خواتین نے کلیدی کردار نبھایا ہے۔ تو کیا نتیش کمار کا انتخاب بہار کی خواتین نے اسی لئے کیا ہے کہ وہ ان کی توہین سر عام کریں اور ان کی عزت و آبرو کا بالکل دھیان نہ رکھیں؟ کیا اس واقعہ کے بعد بہار کی خواتین خود کو محفوظ محسوس کر سکتی ہیں؟ اس کی آخر کیا ضمانت ہے کہ نتیش کی حلیف بی جے پی جس کے ہاتھ بہار کی وزارت داخلہ چلی گئی ہے اس کے تحت کام کرنے والی پولیس ویسی ہی حرکت نہیں کرے گی جیسی حرکت نتیش کمار نے کی ہے۔ صحیح بات تو یہی ہے کہ نتیش کمار نے اپنی اس غیر دستوری اور غیر اخلاقی حرکت سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان میں اب ریاست کو چلانے کی صلاحیت مفقود ہوگئی ہے۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ وہ اپنی اس مذموم حرکت کے لئے پہلے متاثرہ خاتون اور ان کے بعد پوری ریاست کی خواتین سے غیر مشروط معافی مانگیں اور اس کے بعد اپنے عہدہ سے مستعفی ہوجائیں۔

ان کی وجہ سے دنیا بھر کے میڈیا میں عمومی طور پر ہندوستان اور خصوصی طور سے بہار کی رسوائی ہو رہی ہے۔ ہندوستان کا بے ضمیر اور غیر ذمہ دار میڈیا خواہ اس پر پردہ ڈالنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرلے لیکن وہ عالمی میڈیا کے ذریعے کور کی گئی اس اسٹوری کو چھپا نہیں سکتا۔ یہ واقعہ ہم تمام ہندوستانیوں کے لئے باعث شرم و عار ہے۔ ویسے بھی ہندوستان کی شبیہ پوری دنیا میں خواتین کے تحفظ کے تعلق سے بہت خراب ہے۔ خود دہلی کو ریپ کا شہر بتایا جاتا ہے اور اس سے ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ بہار میں بھی اسکولی اور یتیم خانوں میں موجود بچیوں کے ساتھ ماضی میں کیا کچھ ہوا ہے ہم سب ان واقعات سے واقف ہیں۔ ان سنگین جرائم کے وقوع کا تقاضہ یہ تھا کہ ہمارا سیاسی اقتدار کا حامل طبقہ زیادہ حساس اور با وقار بننے کی کوشش کرتا۔ اس کے برعکس ہمیں نتیش کمار جیسی مذموم حرکتوں سے واسطہ پڑتا ہے جو نہایت افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔ نتیش کمار نے صحیح معنی میں اب بہار کا وزیر اعلی باقی رہنے کا اخلاقی اور دستوری حق کھو دیا ہے۔ ان کا استعفی دے دینا ہی سب سے مناسب قدم رہے گا۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS